آج صبح سے ہی سحرش سست لگ رہی تھی. ناشتہ بھی ٹھیک سے نہیں کیا جب لنچ کے لئے بلانےکمرے میں گئی تو وہ سو رہی تھی. مجھے تشویش ہوئی چیک کیا تو تیز بخار ہو رہا تھا، دل میں خوف سا ہونے لگا کے کہیں خدانخواستہ وائرس تو منتقل نہیں ہو گیا ہسبینڈ کو بتایا وہ بھی پریشان ہوگئے. سارے کاموں کو منقطع کرکے ہم دونوں ہسپتال پہنچے اپنی باری کا انتظار کرنے لگے. رش کافی تھا برابر میں بھی ایک خاتون اپنی بیٹی کو لے کر آئی ہوئی تھی . وہ بھی بور ہو رہی تھی ہم نے آپس میں باتوں کا تبادلہ شروع کیا ۔
میں نے ان سے کہا کہ ماشاءاللہ آپ شرعی پردہ کرتی ہیں ،آپ کی چھوٹی سی بیٹی نے بھی اسکارف پہنا ہوا ہے۔پھر میں نے معاشرے میں پھیلتی ہوئی بے حیائی کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے ٹی وی چینلز کے ڈراموں میں بے حیائی اپنے عروج پر ہے ڈراموں میں جادوٹونا، زنا، طلاق خاندانی نظام کو توڑتا ہوا دکھایا جاتا ہے۔پھر میں نے شادی کی تقریبات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دلہن اور دولہا کی آمد پر پورے ہال میں اندھیرا کر دیا جاتا ہے تمام بزرگوں کے سامنے دلہن اور دولہا کیمرہ مین کے اشاروں پر گانا پکچرائز کراتے ہیں۔
اور اب تو بے حیائی ہماری تعلیمی اداروں تک پہنچ گئی ہیں. وہاں پر بھی گانو ں کے پروگرام منعقد ہونے لگے ہیں میں اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی لیکن انہوں نے مجھے کچھ اس طرح سے جواب دیے کہ جی بہن آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں شکر الحمداللہ یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنے گھر کا ٹی وی ہٹا دیا ہے شادی کی تقریبات کے بارے میں انہوں نے فرمایا کہ شکر الحمدللہ ہم لوگ اس طرح کی مخلوط محفلوں اور شادیوں میں شرکت نہیں کرتے ہیں. جبکہ تعلیمی اداروں کے بارے میں کہا کہ شکر الحمدللہ ہمارے بچے تو مدرسوں میں پڑھتے ہیں۔
شکر الحمداللہ کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے مطمئن اور پرسکون انداز میں کہا کہ میں بھی روزانہ ایک پارہ پڑھتی ہوں اورچلتے پھرتے تسبیحات کا ورد کرتی رہتی ہوں. یعنی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے حیائی اور برائیوں کو روکنے اور ٹوکنے سے وہ بری الذمہ تھیں ۔مجھے سورہ بقرہ کی وہ آیت یاد آگئی جس میں اللہ تعالی نے فرمایا: پھر تمہیں ان لوگوں کا قصہ تو معلوم ہی ہے جنہوں نے سبت کا قانون توڑا تھا ہم نے انہیں کہہ دیا کہ بندر بن جاؤ اور اس حال میں رہو کہ ہر طرف سے تم پر دھتکار پھٹکار پڑے اس طرح ہم نےانکو آنے والی نسلوں کے لیے عبرت اور ڈرنے والوں کےلیے نصیحت بنا کرچھوڑا ۔سورہ بقرہ 66-64☘۔
قصہ مختصر سا کچھ یوں ہے کہ بنی اسرائیل نے جمعہ کے بجائے ہفتے کے دن کو عبادت کا دن بنانے کے لیے کہا تو اللہ تعالی نے اس ہفتے والے دن میں خریدو فروخت، زراعت ،تجارت اور شکار حرام کردیا.کیونکہ یہ لوگ ساحلوں پر زندگی بسر کرتے تھے اس لئے انہوں نے حیلے بہانے سے مچھلی کا شکار شروع کردیا اور کھلم کھلا اللہ تعالی کی نافرمانی شروع کر دی. اس بستی میں دو طرح کے جماعت کے لوگ شامل تھے ایک برائی کو روکنے والی اور دوسرے یہ سب تماشہ خاموشی سے دیکھنے والے. لہذا جب اللہ کا عذاب آیا تو وہ نیک لوگ بھی نہ بچ سکے جو دوسروں کو برائی سے روکنے کی تلقین نہیں کرتے تھے۔
کیا ہم نے کبھی غور کیا ہے کہ قرآن میں جگہ جگہ مختلف اقوام پر عذاب کا ذکر ہے جو ان کی ہٹ دھرمی اور نافرمانی کی وجہ سے نازل ہوا.کسی قوم پر کوئی عذاب اچانک نازل نہیں ہوتا کیونکہ یہ اللہ کی سنت نہیں۔
سورہ ھود میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا ہے۔ تیرا رب ایسا نہیں ہے کہ بستیوں کو ناحق تباہ کر دےحالانکہ اس کے باشندے اصلاح کرنے والے ہو ں ☘۔ غورو فکر کی بات ہے کہ کہیں ایسا تو نہیں تمہارے اندر سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا عمل ختم ہوگیا ہو کیونکہ آفات و بربادی اسی وجہ نازل ہوتی ہیں جب اللہ کے قانون اور اس کے فرامین کے خلاف ورزی کی جائے ۔حضرت نوح، شعیب، صالح،ہود علیہم السلام کی قومیں اپنی نافرمانیوں اور ہٹ دھرمیوں کے باعث ہی عذاب الٰہی سے دوچار ہوئیں اور جن قوموں پر عذاب کا فیصلہ ہوا ہو ان پر عذاب آکر رہا ۔
مگر یاد کریں ایک قوم یونس تھی جنہوں نے عذاب کے آثار دیکھ کر توبہ استغفار کی اور اللہ نے ان سے عذاب کو ٹال دیا۔آئیں ہم بھی اپنے رب سے خوب استغفار کریں تاکہ ہمارا پیارا رب ہمیں معاف کردے اور ہمیں اور ہمارے پیاروں کو اس وبائی مرض سے بچا لے۔آمین