ان دنوں سوشل میڈیا پر اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین ہارون کا ویڈیو پیغام زیر گردش ہے، جس میں سابق سفیر حسین ہارون نے انکشاف کیا ہے کہ’’ دنیا میں تیزی سے پھیلتا جان لیوا کرونا وائرس قدرتی نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لیبارٹری میں تیار کیا گیا ہے ،کہ کوئی ایسی بیماری پیدا کی جائے جو لوگو ں میں خوف و ہراس پھیلائے ۔ انہوں نے کہا کہ ریسرچ اور افواہوں کا جائزہ لینے کے بعد محسوس یہ ہوا کہ بہت سی اہم باتوں کو حذف کیا جارہا ہے ۔
2006 ء میں امریکا کی ایک کمپنی نے حکومت سے اس بارے میںپیٹنٹ یا منظوری حاصل کی، 2014 ء میں یہ ظاہر کرنے کے لیے یہ کسی ایک جگہ سے حاصل نہیں کیا گیا ہے تو اس کی ویکسین کی پیٹنٹ ڈالی گئی لیکن اسے نومبر 2019 ء میں باقاعدہ منظور کیا گیا، اس کی ویکسین اسرائیل میں بننا شروع ہوئی ۔ اس وائرس کو بنانے کے لیے جان ہاپکنز ، جان ہاپکنز اور ورلڈ اکنامک فورم نے مالی مدد کی ۔
کرونا کو مخصوص کوویڈ 19 نام دینے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ کرونا کو سینٹر آف ڈیسیس کنٹرول (سی ڈی سی) کی اجازت سے بنایا گیا، ووہان میں بیماری پھیلانے سے پہلے مذکورہ ممالک نے اس کی دوائی بنانے کی ضرورت محسوس کی اور،ایونٹ 201نامی ایک دوائی کی کمپیوٹر پر مشق بھی کی۔ اور اسرائیل نے یہ واضح اعلان کیا ہے کہ جو ملک ہمیں مانتے ہیں صرف انہیں ویکسین مہیا کی جائے گی ۔ سابق سفیر نے اس بات کی نشاندہی کرنا بھی ضروری سمجھا کہ امریکا ، چین کی ترقی سے پچھلے کچھ عرصے سے گھبراہٹ کا شکار تھا۔انہوں نے اس بات سے بھی پردہ اٹھایا کہ انگلینڈ میں اس وقت ایک چینی بائیولوجسٹ کیڈک چینک کو حراست میں رکھا گیا ہے ‘‘۔
بلاشبہ کرونا کسی سازشی ملک کے حیاتیاتی حملے کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ دو عالمی طاقتیں چین اور امریکا اس کی ذمہ داری کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کررہی ہیں ۔ امریکا اور چین کے درمیان کروناوائرس سے متعلق لفظی گولہ باری جاری ہے ۔ چین کا کہنا ہے کہ یہ امریکا کا ایک خوفناک بائیولوجیکل حملہ تھا، چین چونکہ دنیا کے نقشے پر معاشی اورجنگی قوت بن کر ابھررہا ہے کرونا وائرس کے ذریعے شاطر امریکیوں نے اسے اچھوت بنانے کے لیے کاری وار کیا۔
اس وائرس کے اٹیک کے لیے ووہان شہر کو اس لیے منتخب کیا گیا کیونکہ یہ شہر چائنا کے بالکل سینٹر میںہے اور یہ مرکزی ٹرانسپوٹیشن حب ہے۔ چینی حکومت کے ترجمان نے الزام لگایا کہ امریکا چین میں بننے والی مصنوعات کی دنیا بھر میں ترسیل اور چینی ایجادات پر سخت پریشان ہے اور اسی وجہ سے اس نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کرونا وائرس کا حملہ کروایا۔ دوسری طرف روسی سائنسدانوں نے بھی چین کے اس دعوے کی تصدیق کردی ہے، اور کہا ہے کہ یہ ایک امریکی سازش تھی جس کا مقصد چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کو روکنا اور وائرس کے پھیلاؤ کے بعد اربوں ڈالرز کی ویکسین بیچ کر پیسہ کمانا ہے۔
ایران نے بھی کرونا وائرس کو امریکا کی سازش قرار دیا، ایرانی کمانڈر کا کہنا ہے کہ وائرس کسی امریکی حیاتیاتی حملے کا نتیجہ ہو سکتا ہے جس کا مقصد ایران اور چین کو نقصان پہنچانا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیرداخلہ سینیٹر رحمن ملک نے بھی کرونا وائرس راز کو بے نقاب کر تے ہوئے دعویٰ کیا کہ چین پر امریکا نے حیاتیاتی ہتھیار سے حملہ کیا ہے ، اور یہ وائرس امریکا نے چین میں پھیلایا ہے ۔
رحمن ملک کا کہنا تھاکہ دنیا میں بایولوجیکل اور کیمیکل وار فیئر اور اس کی جدید صورت سامنے آگئی ہے ، اگر بایولوجیکل وارفیئر شروع ہو گئی تو یہ ففتھ جنریشن سے نکل کر سکستھ جنریشن میں چلی جائے گی، یعنی بم استعمال نہیں ہوں گے بلکہ اپنی جیب یا بریف کیس میں 5یا 7 سرنجیں لے جانی پڑیںگی۔ اسے روکنے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں کی جانی چاہیے ۔ جبکہ متعدد امریکی اہلکار اسے’’چینی وائرس ‘‘ کہہ رہے ہیں اور امریکی وزیر خارجہ پومپیو اسے کئی بار’’ووہان وائرس ‘‘کہہ چکے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ بعض امریکی شخصیات کرونا وائرس کو چین کے ساتھ جوڑ رہی ہیں ،ایسا کرنا چین کو بدنام کرنے کے مترادف ہے ۔
لیکن اس حیاتیاتی حملے اور جوابی حملے کے حقیقی ذمہ داروں کے تعین میں تو شاید ایک عرصہ لگے ،فی الوقت پوری دنیا کے ممالک میں پھیلے کرونا وائرس کے مہلک اثرات سے بچنا اور اس کے معاشی نقصانات پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے ۔ بالخصوص پاکستان جیسے محدود وسائل والے ملک میں اس وباء کو پھیلنے سے فوری روکنا بہت ضروری ہے،اس کے لیے حکومت اور عوام کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ محکمہ صحت کی طرف سے بتائی گئی احتیاطی تدابیر کو فریضہ اول جان کر ان پر عمل کیا جائے۔
احتیاطی تدابیر کے طور پر کھانسی یاچھینک آنے کی صورت میں منہ، ناک کوٹشو یا کپڑے سے ڈھاپا جائے ، اور ہاتھ کااستعمال نہ کیا جائے ۔ ٹشو استعمال کے بعد ضائع کردیا جائے اور آلودہ ہاتھ سے آنکھ، ناک یا منہ کونہ چھویا جائے ۔گلے ملنے یا ہاتھ ملانے سے گریز کیا جائے ، ہاتھوں کو صابن اورصاف پانی سے بار بار دھویا جائے ۔ بخار،کھانسی اورسانس لینے میں دشواری کی صورت میں فوی طور پر ڈاکٹرسے رجوع کیا جائے۔ برادر دوست ملک چین کی بھرپور مدد اور معانت اور قومی سطح پرسخت حفاظتی اقدامات کی بدولت کرونا وائرس پر قابو پانے والا چین کے بعد پاکستان پہلا ملک ہوگا ، ان شاء اللہ۔