عالمی منظرنامہ کے حقائق دیکھیں تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انسان بوکھلاہٹ کا شکار ہے اپنا دماغی توازن کھو بیٹھا ہے، پوری دنیا کی مارکیٹیں بند ہیں، آبادیاں کی آبادیاں جیلوں میں تبدیل ہوکر رہ گئی ہیں، کارخانے، ٹریفک، ریل و ہوائی ٹریفک کے پہیے جام ہیں، ساری دنیا کی معیشت ٹھپ ہوکر رہ گئی، انسانی دماغ اور اس کے کنٹرول کی قلعی کھل گئی ہے، ہر طرف دہشت کا راج ہے خوف کا ماحول ہے، ہر شخص کے ذہن میں کرونا اور اس کی ہلاکت خیزی کا تصور ہے ۔
پوری دنیا نے خود کو محدود سے محدود اور محصور کرلیا ہے حتیٰ کہ ان ممالک نے بھی خود کو بند کرلیا جو ابھی تک کرونا کی ہلاکت خیزی سے بچے رہے ہیں، آخر اتنا غیرضروری خوف و ہراس کیوں اور کیسے پھیل گیا؟ ساری دنیا کے اعلیٰ دماغ مفلوج ہوکر کیوں رہ گئے؟ کیا یہ کسی نئے عالمگیر ورلڈآرڈر کی حکمت عملی ہے؟ یا عالمی کنٹرول حاصل کرنے کی جنگ یا پھر کوئی معاشی جنگ؟ یہ خوف پھیلا یا پھیلایا گیا اس کے محرکات حقیقی ہوں یا مصنوعی لیکن ایک حقیقت سب پہ آشکار ہوگئی ہے کہ انسان کوئی شے نہیں۔
جو کچھ بھی ہے وہ ذات خالق باری تعالیٰ کی ہے بیشک وہی ہے جو انسان کو خسارے سے نکال سکتا ہے اور آج بڑی بڑی طاقتیں اس کے در پر جھکی نظر آرہی ہیں، امریکہ جو خود کو سپر پاور سمجھتا تھا اس کے صدر نے 15 مارچ کو دعا کا دن منایا، بڑے بڑے سائنسدانوں نے ہاتھ کھڑے کردئیے، کرونا سے لڑنے کے دعویدار خدائی اصول قرنطینہ پہ عمل کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر پارہے، دنیائے عیسائیت کے بڑے بڑے میگزینوں میں لکھا جارہا ہے کہ کرونا Divine Punishment ہے، امام کعبہ نے بھی کرونا وبا کو اللہ کی ناراضگی اور عذاب قرار دیا ہے اور لوگوں سے توبہ کی اپیل کی ہے۔
کرونا کی معاشی تباہی، سفارتی و سیاسی عدم استحکام، تجارت و ترسیل اور آمد و رفت سسٹم جام کرنے کا ریٹ اس کی ہلاکت خیزی کے اعداد و شمار سے کئی گنا زیادہ ہے، عالمی لاک ڈاون سے پہلے تک دنیا میں ذیابطیس سے مرنے والوں کی یومیہ تعداد 4383، ٹریفک حادثات میں 3287، ہومیسائیڈز سے 1100 اور دیگر عوارض میں ہزاروں افراد ہلاک ہوجاتے تھے جوکہ کرونا کی ہلاکت خیزی کے دئیے گئے اعداد و شمار سے زیادہ نہیں بہت زیادہ ہیں لیکن یہ عذاب الٰہی ہی ہے کہ انسانی دماغ مفلوج ہوکر رہ گیا ہے ایسی بےبسی کا کبھی کسی نے گمان بھی نہ کیا ہوگا جو آج کے انسان کے سامنے ہے۔
کرونا وائرس سے پہلے دنیا 2003 میں سارس وائرس اور 2009 میں سوائن فلو کی ہلاکت خیزی دیکھ چکی ہے اور اس سے پہلے جنگ عظیم اوّل کے آخر میں اسپینش فلو کی ہولناکی سے بھی گزر چکی ہے جو بالکل کرونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے 1918 میں پھیلنے والا وائرس H1N1 بھی چائنیز مزدوروں سے پھیلا جو مختلف اقوام کی افواج سے پوری دنیا میں پھیلا جسے اسپینش فلو کا نام دیا گیا جس نے تقریباً بارہ کروڑ سے زائد انسانوں کو نگل لیا، H1N1 جوکہ سور سے انسان میں منتقل ہوا تھا اس وبا کی تین لہریں آئیں لیکن عالمی لاک ڈاون نہ ہوا اور کرونا وائرس نے آغاز سے ہی دہشت کا ماحول پیدا کردیا ۔
کسی نے اسے حیاتیاتی حملہ قرار دیا تو کوئی اسے عالمگیر نیو ورلڈ آرڈر بتا رہا ہے خواہ یہ کچھ بھی ہو اس کا سبب مصنوعی ہو یا حادثاتی ہو یہ بات طے ہے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے کہ انسان بےبس اور مجبور ہوکر رہ گیا، جو اہلیان مغرب کتوں تک کو بیمار نہیں دیکھتے تھے آج اپنے پیاروں کو تڑپتا چھوڑ کے بھاگ جاتے ہیں، ہائے وہ تین سالہ شامی بچہ جس نے جان دینے سے کچھ دیر پہلے کہا تھا کہ میں اللہ کو جا کر سب کچھ بتا دونگا لیکن پوری دنیا دیکھتی رہی زمین ظلم سے بھری رہی۔
برما میں معصوم لوگوں کو مسلمان ہونے کے جرم میں زندہ جلایا جاتا رہا، شیرخوار بچوں کو زبحہ کیا جاتا رہا، باپردہ بچیوں کا ریپ ہوتا رہا، دنیا معیشت اور سفارتی کامیابیوں کے سحر میں گم رہی، کشمیر میں ماؤں بہنوں کی ویران آنکھیں فریاد کرتی رہیں بچوں کی چیخ و پکار کے باوجود عالمی بےحسی قائم رہی، وہ کیا رعونت تھی کہ ایک شخص عراق شام یمن لبنان کی تباہی پر کہتا تھا کہ میں حضرت عمرؓ کی فتوحات کا بدلہ لے رہا ہوں کہ اس نے ہماری سلطنت کے پرخچے اڑائے تھے ۔
لیکن ربّ مشرق و مغرب کی پکڑ سے نہ بچ سکا آج اسی گروہ کے لوگ دہائیاں دے رہے ہیں کہ مدد مدد مدد لیکن کوئی سننے والا نہیں، اگرچہ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اٹلی کو اس لیے سخت سزا دی گئی کہ اس نے آگے بڑھ کر روس کے ساتھ معاہدے کیے روس کو کندھا لگایا تھا لیکن یہ بھی باری تعالیٰ کی ہے کہ جو چاہتا ہے ہوتا ہے، موسیٰؑ کو فرعون کے گھر میں ہی پرورش دلوائی بالکل اسی طرح انسان کے ہاتھ سے ہی تباہی پھیلا سکتا ہے۔
اسکاٹولوجی میں جائیں تو رسول خداؐ کی حدیث ہے کہ حضرت مہدی کے ظہور سے پہلے دنیا کی آبادی سات عدد ہوگی اس میں سے پانچ مارے جائینگے ایک حصہ مختلف وباؤں میں اور ایک حصہ جنگوں میں، ایسا ہی کچھ بائبل میں ہے کہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول سے پہلے دو تہائی آبادی ختم ہوجائیگی جوکہ چار مختلف لہروں کا نوالہ بنے گی، آج دنیا کی آبادی سات ارب سے زائد ہے تو کیا وہ وقت آپہنچا کہ یہ سات ارب سمٹ کر دو ارب رہ جائیگی، بڑی بڑی طاقتیں بارگاہ الٰہی میں گڑگڑا رہی ہیں، امام کعبہ لوگوں سے توبہ کی اپیل کررہے ہیں ۔
لیکن افسوس پاکستان میں کرونا عذاب پر بھی سیاست چمکائی جارہی ہے، کرونا وبا کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے جب دنیا خوف میں مبتلا ہے ٹرمپ اور بڑی بڑی یورپی طاقتیں رب کے حضور گڑگڑا رہی ہیں، امام کعبہ رو رہے ہیں لیکن پاکستان کے چند نام نہاد جرنلسٹ اور سیاستدان عمران خان کو نیچا دکھانے میں لگے ہیں، وہی ذخیرہ اندوزی، وہی ریاکاری جاری ہے، بہت سے نسل پرستی کو پروان چڑھارہے ہیں تو بہت سے جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کرنے پہ تُلے ہیں جوکہ اللہ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے، ایسے وقت میں جب عذاب الٰہی سروں پہ منڈلا رہا ہے تو بحیثیت مجموعی ہمیں چاہئے کہ گڑگڑا کر خدا کو منالیں ورنہ عذاب کی گرفت میں آگئے تو کوئی بچانے والا نہ ہوگا۔