مقام نبوت کوئی عام سی چیز نہیں جسے جو چاہے، جیسے چاہے اور جس وقت چاہے حاصل کرلے، یہ تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں کہ کون نبوت کا حقدار ہے. مقام نبوت جتنا زیادہ اہم ہے اتنا ہی زیادہ نازک بھی ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ اس کی حفاظت کی ہے. دنیا میں کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار سے زائد انبیاء کرام علیہم السلام آئے ہیں.ان میں سے کتنے ہی ایک وقت کے اندر مختلف علاقوں میں موجود تھے، بسا اوقات ایک ہی جگہ دو دو نبی بھی بھیجے گئے، کسی کی طرف مستقل کتاب اور کسی کو صحیفے عطا کیے گئے جو ان کی قوم کی طرف اللہ تعالیٰ کے واضح اور دو ٹوک احکامات تھے. جنہوں نے مانا وہ خاص درجے کو پاگئے اور جنہون نے انکار کیا ان پر مختلف قسم کے عذاب نازل کیے گئے.
اگر ہم ان تمام نبیوں کے صحیفے یا جو قرآن مجید ان کی تعلیمات کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اسے دیکھیں تو ہمیں کہیں نہیں ملے گا کہ آپ آخری رسول ہیں، مثلاً: تورات، زبور اور انجیل موجود ہیں چاہے تحریف شدہ حالت میں ہی ہے لیکن ان میں بھی یہ بات موجود نہیں کہ ان کتابوں کے حاملین پر نبوت ختم ہوگئی ہے. بلکہ اللہ نے عالم ارواح کے خاص اجتماع میں تمام نبیوں سے وعدہ لیا کہ اگر تمہاری زندگی میں میرا رسول آجائے تو اس کی اطاعت اور مدد کرنی ہے. اب اس میں سمجھنے والے کے لیے بڑی واضح نشانی موجود ہے وہ یہ کہ آپ تمام عالم کے لیے اور عالم کے تمام ہونے تک رسول ہیں.ان کی زندگی میں کوئی نبی نہیں آیا تو ان کے بعد کیسے کوئی نبوت کا دعویٰ کرسکتا ہے؟
اگر ہم ضروریات نبوت کا جائزہ لے بھی لیں تو کوئی وجہ نہیں ملے گی کہ ایک اور رسول کی گنجائش ابھی باقی ہے. نا ہی آپ کی تعلیمات اس دنیا کے لیے ناکافی ہیں اور نا ہی شریعت اسلامیہ کسی اضافے یا ترمیم کی ضرورت ہے،. اسی طرح نا ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی خاص علاقے یا خاص قوم کی طرف بھیجے گئے تھے. تو پھر جو بھی نبوت کا دعویٰ یا اس کی حمایت کرے تو دنیا میں ہی اس کی سزا قتل ہے، جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی رد نہیں کرسکتا. اس ی لیے دور نبوت سے لے حال تک تاریخ ایسے بے شمار واقعات کو اپنے سینے میں محفوظ رکھے ہوئے ہے کہ جب بھی کسی نے نبوت کا دعویٰ کیا تو اس کا انجام اسکے ساتھیوں سمیت انتہائی بھیانک ہوا ہے. ایسے جھوٹے اور دجال لوگ شہرت، دولت اور عزت کی خاطر آخری کو جانتے ہوئے بھی نبوت کا دعویٰ کرنے لگے جنہیں یا تو قتل کردیا گیا یا قیدی بنے یا پھر کسی ایک کو توبہ نصیب ہوئی.
آپ کے مبارک دور میں اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا ان میں سے پہلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں حضرت فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں قتل ہوا اور دوسرا آپ کے زمانے کے بعد حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے نیزے کی بھینٹ چڑھا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے زمانے میں مختار ثقفی حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے ساتھ معرکے میں مارا گیا، طلیحہ اسدی اور سجاح نامی عورت کو اللہ تعالیٰ نے توبہ جیسے عظیم عمل کی توفیق بخشی.
حارث دمشقی 69 ہجری خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حکم سے جہنم پہنچا، مغیرہ عجلی اور بیان بن سمعان نے 119 ہجری میں نبوت کا دعویٰ کیا تو اس وقت عراقی امیر خالد بن عبداللہ قسری نے آگ میں جلا کر ان کی نفسانی شہرت کو راکھ بنادیا، اسحاق اضرس اور استادسیس خراسانی کی بدنصیبی کہ وہ بھی اس راہ میں چل نکلے جس کا انجام ان کی موت سے تمام ہوا، بہافرید نیشاپوری کے گندے دماغ میں سوار ہوا تو ابو مسلم خراسانی امیر نیشاپور نے اس کے سر کو تن سے جدا کرکے اس خناس کو نکال باہر کیا. علی بن محمد خارجی خلیفہ معتمد کے ہاتھوں اپنا سر قلم کروا کے جہنم روانہ ہوا، 222ھ بابک بن عبداللہ سستی شہرت کے چکر میں خلیفہ معتصم باللہ سے ایک عضو کٹوا کر لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنا۔
امت مسلمہ کبھی بھی اپنے نبی کی محبت سے خالی نہیں رہی، جس کا ثبوت اہل بغداد نے جھوٹے نبی علی بن فضل یمنی کو زہر کا پیالہ پلا کر دیا. حکمران کبھی بھی سوئے نہیں چاہے وہ خلیفے ہوں یا امراء سب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دم بھرنے والے تھے، باقی چاہے جس قدر ان میں غلطیاں ہوں. عبدالعزیز باسندی نے جب نبوت حاصل کرنا چاہی تو اسلامی لشکر نے اس پر چڑھائی کرکے اس کو خوابوں کو چکنا چور کردیا، اور اس کا سر تن سے جدا کرکے خلیفہ کو پیش کیا گیا. حامیم مجلسی قبیلہ معمودہ جنگ میں مارا گیا، ابومنصور عسبی سادہ لوح عوام کو بہکا کر اپنے ساتھ ملانے کے بعد بلکین بن زہری کے ساتھ جنگ میں مارا گیا، اصغر تغلبی، احمد قسی اور عبدالمؤمن یہ تینوں دجال، کذاب قید کیے گئے اور وہیں اپنے انجام بد کو پہنچے۔
احمد بن قسی خون کے بہنے کی وجہ سے مرا نیز عبدالعزیز طرابسلی حاکم طرابلس کے حکم پر قتل کیا گیا. یہ وہ تمام جھوٹے نبوت کے دعوے دار ہیں جو 11ھ سے لیکر 707ھ تک مختلف ادوار میں آئے اور اپنی بوئی کھیتی کا پھل کاٹ کر چلے گئے، اور یہ اس سنہرے دور کی یادیں ہیں جب عوام و حکمران متحد و متفق ہوا کرتے تھے لیکن جیسے جیسے امت کا شیرازہ بکھرتا گیا، شعائر اسلام کی توہین کرنے والوں کی دلیری بڑھتی چلی گئی، بایزید روشن، بہاء اللہ نوری، مرزا قادیانی یہ اور ان کے علاوہ موجودہ دور میں بھی ایسے بدبخت دندناتے رہے ہیں اور کھلے عام پھر رہے ہیں، 58 اسلامی ممالک بحر و بر کو مسخر کرنے دعوے سب ہوائی فائر کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔
مملکت خداداد میں بھی اس قدر زیادہ ان دجالوں اور کذابوں کے ماننے والوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے، کہ آئے دن قانون ختم نبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جاتی ہے لیکن افسوس انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں. وہ ریاست مدنی ریاست کیسے بن سکتی ہے جہاں مدینے والے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت محفوظ نہ ہو، عوام اور حکمرانوں سمیت ہر ایک کے لیے ہمارے اسلاف کے بہترین نمونے موجود ہیں، بس ایک عمل کی ضرورت ہے۔