دین اسلام نے خواتین کو مردوں کے مساوی نہیں بلکہ مردوں سے زیادہ حقوق دیے ہیں اور ان میں حقوق کے ساتھ فرائض بھی شامل ہیں ۔ خواتین پرتنقید کرنے والے صرف فرائض کی بات کرتے ہیں حقوق کی نہیں ۔یہ موم بتی مافیا ،دیسی لبرل خواتین و حضرات جن حقوق کی بات کرتے ہیں۔
اصل میں وہ خواتین کی تذلیل ہے اور ان کی مخالفت میں جو دین اسلام کے متشدد علماء جن پابندیوںکی بات کرتے ہیں وہ بھی عورت پر ظلم ہے۔اسلام میں مرد اور عورت ایک انسان ہونے کے ناطے برابر ہیں ،لیکن ان کے واجبات کی ادائیگی اور حقوق و فرائض الگ الگ ہیں ۔
دین اسلام خواتین کو کیا حقوق دیتا ہے اس پر بات کرنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ جو خواتین کے حقوق کے غم میں دن رات دبلے ہو رہے ہیں ان کے ہاں عورت کے حقوق کیا ہیں ۔وہاں مرد و عورت کے درمیان آزاد جنسی تعلقات کی وجہ سے ،جسے فطری کہا جاتا ہے۔( کیوں کہ جانور بھی نکاح کی پابندی سے آزاد ہیں اور یہ خود کو بندری یعنی بندر کی اولاد کہتے ہیں )جس کے نتیجے میں محبت ختم ہوئی ،ذمہ داری ختم ہوئی ،خاندان کا نظام ٹوٹ گیااور اب یہ معاشرہ اس پر پچھتا رہا ہے۔
عورت کے معاشی استقلال کی وجہ سے طلاق میں اضافہ ہوا ،بچہ پیدا کرنا ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے ،وہاں اب معمر افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے ، پانچ بچوں میں سے ایک حرام پیدا ہو رہا ہے جس کے والد کا علم نہیں ہوتا ،ایسے بچوں کی حکومت پرورش کرتی ہے ۔
امریکہ میں دس میں چھ یا سات خواتین ایسی ہوتی ہیں جو طلاق لے کراور دوسری شادی کر لیتی ہیں،بہت ساری خواتین یہ درد سر پالتی ہی نہیں ہیں ،اس سے خود غرضی جنم لیتی ہے ،اکیلے پن کا احساس پیدا ہوتا ہے ،جو نفسیاتی بیماریوں کو جنم دے رہا ہے ،وہاں اگر عورت ،شوہر ،ساس ،سسر کے لیے کھانا پکائے ،صفائی کرے تو اسے قید سمجھا جاتا ہے ذلت کا کام کہا جاتا ہے ،اور یہ ہی کام بلکہ اس سے بھی زیادہ ذلیل کام مثلاً مساج سنٹر ،ہوٹل،ماڈل گرل،سیلز گرلز کے طور پر اگر عورت غیر مردوں کے لیے کرے تو آزادی کہا جاتا ہے ۔
اسلام نے عورت کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت دی ہے ،وہ ہر شعبہ زندگی میں کام کر سکتی ہے ،وہ شعبہ خیر کا ہو ،فضول نہ ہو اس میں اپنی عزت و وقار نہ کھونا پڑے ،مناسب پردے میں رہ کر وہ کام کر سکتی ہے ۔اسلام میں عورتیں جنگوں میں شرکت کرتی رہی ہیں ،نرسنگ کا کام ،پانی پلانے کا کام کرتی رہیں ہیں ،جنگوں کی کمانڈ بھی کی اوراساتذہ کے فرائض بھی سر انجام دیے ہیں ۔اسلام میں عورت کو کمانے کی ،بچوں کو پالنے حتی ٰکہ اپنی ذات کے لیے بھی روٹی،کپڑا ،مکان جیسی بنیادی ضروریات کے لیے بوقت ضرورت تگ و دو کرنے کی اجازت دی ہے۔
یہ سب مرد کے ذمہ ہے دوسری بات یہ ہے کہ عورت کی جو ملکیت ہے اس میں مر د کا کوئی حق نہیں ہے ،جو عورت کمائے وہ اسے اپنی مرضی سے استعمال کر سکتی ہے ،لیکن مرد کی کمائی میں عورت کا حق ہے۔اسلام کے مطابق مرد و عورت ایک دوسرے کے سکون کے لیے بنائے گئے ہیں ،ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے ،نکاح کر کے میاں ،بیوی ایک دوسرے سے آسودگی حاصل کر سکتے ہیں مغرب کی طرح انہیں آزادی کی گنجائش نہیں ہے ،میاں ،بیوی ایک یونٹ ہیں ،اسلام میں گھر کی معاشی ضروریات کی ذمہ داری مرد پر ہے ۔
عورتوں کو بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے ہیں (سورۃ بقرہ228 )مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے مددگار ہیںکہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں (سورۃ توبہ71 )تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہر گز ضائع نہیں کرتا (سورۃ آل عمران 195 )اس سے بڑھ کر عورت کا اور کیا حق ہو کہ اللہ نے جنت عورتوں (مائوں ) کے قدموں کے نیچے رکھی ۔بیوی کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلانے کا ثواب رکھا ،مرد کی کمائی میں عورت کا حصہ رکھا اور عورت کی کمائی کی صرف وہ مالک ہے ،اسلام نے تو عورت کو حقوق دیئے ہیں اب اگر ان پر مسلمان عمل نہ کریں تو اسلام کا تو کوئی قصور نہیں ہے ۔
یہ ایک فرق ہے جس کی وجہ سے غیر مسلم مسلمانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ۔مسلمانوں کے اندر بھی بہت سے تضاد پائے جاتے ہیں ،خواتین کے حقوق کے متعلق ،میں سمجھتا ہوں خواتین کے متعلق جو بہترین اور اسلام کے عین مطابق حقوق کی تشریح کی ہے مسلمانوں نے کی ہے۔ قرآن پاک کی ایک آیت کا ترجمہ ہے کہ مرد عورتوں پر حاکم ہیں ،اس لیے کہ اللہ نے بعض کو بعض پر افضل بنایا ہے اور اس لیے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں (سورۃ النسا)۔
قرآن کی اس آیت مبارک پر جہاں غیرمسلم ،سوال اٹھاتے ہیں کہ اسلام میں عورت سے مرد کو افضل کہا گیا ہے وہاں بعض مسلمانوں نے بھی اس کے الگ الگ تراجم کیے اور بعض نے اس کا کیا سے کیا مطلب بنا دیا اس آیت کے حوالے سے مجھے فی الحال صرف یہ کہنا ہے کہ اگر مرد اپنا مال اپنی عورت پر خرچ کرتا ہے تو وہ افضل ہے ،نہیں تو نہیں ہے۔
اس بات کی وضاحت ایسے کی جا سکتی ہے کہ مشرق میں گھر کی تمام معاش کی ذمہ داری مرد پر ہے ،اور اس بات کو مشرقی ممالک میں کثرت سے دیکھا جا سکتا ہے ۔اس کے بر عکس مغرب میں خواتین کو معاش کے لیے مردوں کے برابر کام کر نا ہوتا ہے ۔اسی طرح کے دیگر بہت سے فرق ہیں مشرق و مغرب میں ،لیکن یہ بات 100 فیصد درست ہے کہ دنیا کے ہر خطے میں عورتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے ،ہر خطے میں ،علاقے میں اس کا انداز مختلف ہے۔
پاکستان میں ایک دن میں دو خواتین کو غیرت ،اور دیگربہت سی رسم و رواج کی وجہ سے قتل کر دیا جاتا ہے ۔پہلے بھی عورت کو اپنے جذبات کی تسکین کے لیے استعمال کیا جاتا تھا آج بھی کیا جاتا ہے ۔یہ جذبات ،نفسیاتی ہیں ،جنسی ہیں،کاروباری ہیں ،پہلے عورت کو غلام بنایا جاتا تھا ،آج بلیک میل کیا جاتا ہے یا اسے آزادی کا احساس دلا کر لباس سے آزاد کیا جاتا ہے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
اب مرد جو ننگے پن کو آزادی کہتے ہیں وہ بھی اپنی پروڈکٹ کی مشہوری کے لیے عورت کا جسم استعمال کر رہے ہیں ۔مغرب میں عورت کو تشہیر کا آلہ یا ذریعہ بنا کر اس کی تحقیر کی جارہی ہے اور اسے آزادی کا نام دیا جاتا ہے ،اسے مہذب معاشرت اورترقی کا نام دیا جاتا ہے ۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر ترقی ہے تو پھر جانور زیادہ ترقی یافتہ ہوئے ۔