تاریخ ہمیشہ حادثات سے بنتی ہے لیکن جہاں تک تقسیم ہند کا تعلق ہے تو یہ محض حادثے تک محدود نہیں بلکہ مسلسل اور انتھک جدوجہد کے بعد پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ قائداعظم محمد علی جناح، گاندھی، آزاد، نہرو کے ذکر میں کاش کا لفظ بار بار سنائی دیتا ہے ۔کاش ایسا ہوتا، کاش یہ نہ ہوتا، کاش یہ ہوجاتا اور پاک و ہند میں یہ کاش بہت اہمیت رکھتا تھا لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ قائداعظم محمد علی جناح اپنے ہم عصور میں ہندوستانیوں کو سب سے بہتر جانتے تھے۔
وقت نے نہ صرف قائداعظم کو سچا ثابت کردیا بلکہ بہت سے نام نہاد دانشوروں اور زبردستی کے کل عقلوں کے منہ پہ بھی کالک مل دی، حسین حقانی و ہم خیال دانشوروں، صحافیوں اور بہت سے سیاستدانوں کے سارے ڈرامے تاویلیں دلیلیں بےمعنی ہو کر رہ گئیں، آج نہ کسی دلیل کی ضرورت ہے نہ کسی حوالوں کی، نہ تاریخ کے اوراق پلٹنے کی نہ ہی کتب خانوں کی خاک چاٹنے کی، یہ وقت اور حالات ثابت کررہے ہیں کہ نہ صرف دو قومی نظریہ درست تھا بلکہ نظریہ پاکستان کی اساس بھی یہی ہے۔
بھارتی دارلحکومت میں ریاستی سرپرستی میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا، املاک لٹیں صرف اس بنیاد پر کہ وہ مسلمان ہیں، نہ تو یہ پہلی بار ہے اور شاید نہ ہی آخری بار، بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ شروع سے ہی متعصبانہ رویہ اپنایا جاتا رہا ہے، شروع سے ہی مسلمانوں سے نفرت اور اسلام مخالف نفرتوں کو ابھارا جاتا رہا ہے، ہندوتوا مائنڈسیٹ کے اصل چہرے کو بھانپ کر ہی قائداعظم یہ کہنے پہ مجبور ہوے کہ ہندو مسلم دو علیحدہ قومیں ہیں، نہرو نے کہا تھا کہ “There is two forces in India, British Imperialism & Indian Nationalism
جس کے جواب میں قائداعظم نے کہا کہ نہیں تیسری قوت مسلمان بھی ہیں اور ہندو مسلم دو علیحدہ قومی اکائی ہیں اسی بنیاد پر پاکستان وجود میں آیا، آج اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کسی منقولہ یا معقولہ حوالے کے سہارے کی ضرورت نہیں بھارت کے داخلی حالات ثابت کررہے ہیں کہ ہندو مسلم دو علیحدہ قومیت ہیں، مسلمان بارہا خود کو ہندوستانی ثابت کرواتے آرہے ہیں۔ بقول عمران پرتاپ گڑھی کہ”بھارت دیش میں ہندوتوا والے مسلمانوں کو تسلیم نہیں کرتے انڈو پاک میچ ہو تو مسلمانوں کو وفاداری کا ثبوت دینا پڑتا ہے بارڈر پر کشیدگی ہو تو مسلمانوں کو مشکوکیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ساتھ ہی انہوں نے عزم کیا کہ اب ان سے ہجرت نہیں ہونے والی، مرنا ہے تو لڑ کر مرینگے”۔
ایک وقت تھا کہ قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کے لیے کوشاں تھے جس بنا پر آپ کو ہندو مسلم اتحاد کے سفیر کا خطاب ملا لیکن جلد ہی قائداعظم محمد علی جناح نے محسوس کرلیا تھا کہ ہندو فطرتاً انتہا پسند ہے اور بھگوا راج کے خواب سجائے بیٹھا ہے شدھی و سنگھٹن کی تحریکیں اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں جہاں سے ہندو مسلمانوں کے مابین خلیج بڑھتی چلی گئی اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح نے پھر بھی کوشش کی دہلی تجاویز اس ضمن میں اہم ہیں جسے گاندھی اور نہرو نے تو تسلیم کرلیا لیکن انتہا پسند ہندو عناصر سے ہضم نہ ہوا اور پھر 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ رویہ انتہائی مایوس کن رہا جن پر پیرپور رپورٹ، فضل حق رپورٹ اور شریف رپورٹ موجود ہیں۔
اس کے بعد ہندو مسلم خلیج کو عبور کرنا قائداعظم محمد علی جناح کے لیے بھی ممکن نہ رہا، تقسیم ہند کے بعد بھارت میں مقیم رہنے والے مسلمان آج تک اسی ناروا سلوک کا سامنا کرتے آرہے ہیں اور اب جب بھگوا راج نافذ ہوا ہی چاہتا ہے تو بھارت کے مسلمان یہ کہنے پہ مجبور ہیں قائداعظم محمد علی جناح ٹھیک تھے یہاں تک کہ بھارتی سیکیولر ہندو بھی کہنے پہ مجبور ہیں کہ قائداعظم محمد علی جناح ہندو حضرات کو گاندھی اور نہرو سے زیادہ بہتر جانتے تھے، دوسری طرف پاکستان میں پروپیگنڈہ بریگیڈ کی ساری جھوٹی و من گھڑت تاویلیں ختم ہوگئیں کہ بھارتی حالات کو دیکھ کر بچہ بچہ کی زبان پر فیاض ہاشمی کا یہ نغمہ ہے کہ “یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران، اے قائداعظم تیرا احسان ہے احسان”۔