29 فروری 2020 کو دوحہ قطر میں امریکا اور طالبان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر دستحط کیے گئے ۔2001 سے افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ کے خاتمے کے تاریخی معاہدے پر دستحط پاکستان، قطر ، ترکی، ہندوستان ، انڈونیشیا ، ازبکستان اور تاجکستان کے رہنمائوں کی موجودگی میں ہوا۔
9 ستمبر 2001 میں امریکا میں چار جہازوں کو محتلف عمارتوں کے ساتھ ٹکرا دیا گیا جس کے نتیجے میں تقریباً 2966 لوگ مارے گئے ۔ امریکہ پر یہ حملہ1 194 میں امریکن نیوی بیس پرل ہاربر پر جاپان کی جانب سے کیے جانے والے حملے کے بعد تباہی مچانے والا دوسرا بڑا حملہ تھا ۔
اس حملہ کی ذمہ داری القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن نے قبول کر لی تھی ۔امریکا کے لوگوں میں اس حملے کو لے کر انتہائی غم و غصہ پایا جاتا تھا اسی لیے اُس وقت کے امریکہ کے صدر جارج بش نے القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو ختم کرنے کے لیے امر یکہ ا ور افغانستان کے مابین جنگ کا اعلان کر دیا تھا اور 7 اکتوبر 2001 کو افغانستان پر پہلا فضائی حملہ کیا ۔
جارج بش اور امریکن کے غصے کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ صرف ایک شحص کو مارنے کے لیے تقریباً کُل چھ لاکھ فوجیوں کو افغانستان میں لڑنے کے لیے بھیجا گیا ایک اندازے کے مطابق اس جنگ پر امریکہ کی کل لاگت 2.5 کھرب ڈالر ہے اور اب تک تقریباً 3500 فوجی ہلاک ہوئے۔ اس سب نقصان کے بعد بھی امریکا اُسامہ بن لادن کو نہیں ڈھونڈ سکی بلکہ تنگ آ کر 2011مئی 2 کو پاکستان کی مدد سے جھوٹا ایبٹ آباد اپریشن کر کے اُسامہ بن لادن کو مارنے کا ڈرامہ بھی کیا ۔
اگر ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن امریکا کو مل جاتے تو انھوں نے نعش کو سمندر بُرد کرنے کی بجائے اُس کی تذلیل کرنی تھی اور شو کیس میں سجا کر پورے امریکا میں گمانی تھی اور اپنی عوام سے خوب داد وصول کرنی تھی کیونکہ جس شحص کو مارنے کے لیے اتنی بڑی جنگ کی گئی ہو اتنا پیسہ اور جانیں دی گئی ہوں اور اگر وہ زندہ یا مردہ مل جائے تو اُس کو اتنی آسانی ضائع نہیں کیا جا سکتا 2007 میں جب طالبان کے چیف کمانڈر ملا داد کو مریکا نے مارا تھا تو اُس کو عوامی طور پر دکھایا گیا تھا ۔
2001 سے لے 2010 تک اُسامہ بن لادن کی شہادت کی خبر 8 بار شائع کی گئی ، پہلی خبر 26 دسمبر 2001 کو فاکس نیوز نے شائع کی فاکس نیوز نے دعوی کیا تھا اُسامہ بن لادن جگر کی خرابی کے باعث انتقال کر گئے اور اس خبر کی تصدیق مصر ی اخبار نے بھی کی اور ساتھ میں جنازے کی خبر بھی شائع کی تھی ۔
دوسری بار یہ خبر 18 جولائی 2002 کو اُس وقت کے ایف بی آئی کے انسداد دہشت گردی ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا تھا کہ اسامہ بن لادن مر چکے ہیں ۔
تیسری بار یہ خبر 16 اکتوبر 2002 کو دی ٹیلی گراف نے اسرائیلی انٹیلی جنس کے حوالے سے شائع کی گئی۔ اُس کے بعد 2005 ، 2006 ، 2007 تینوں سال لگاتار اسامہ بن لادن کی موت کی خبر آتی رہی .2008 میں سی آئی اے کے افیسر رابرٹ بیئر نے اسامہ بن لادن کی موت کی تصدیق کی اُس کے بعد آخری بار اُن کی موت کی خبر23 دسمبر 2010 میں واشنگٹن ٹائمز نے شائع کی اور اُس میں قبر کی نشاندہی بھی کی گئی۔
امریکا بلا مبالغہ یہ جنگ ہا ر چکا ہے اور بہت سالوں سے نکلنے کا محفوظ راستہ تلاش کر رہا تھا ۔امریکہ کی ہار کی بہت ساری وجوہات ہیں مثلاً امریکا یا کوئی بھی ملک کسی دوسرے ملک خصوصی طور پر افغانستان جیسے ملک جو جغرافیائی لحاظ سے انتہائی مختلف ہے وہاں آ کر جنگ لڑنا اور جیتنا بہت مشکل کام ہے۔
کیونکہ پہاڑ کے اُوپر سے نیچے مارا ہوا ایک چھوٹا سا پتھر بھی گولی سے زیادہ نقصان کرتا ہے اور طالبان حملہ کرنے کے بعد سرنگوں میں کہاں غائب ہو جاتے تھے یہ امریکن فوجیوں کے لیے سمجھنا آسان نہ تھا ۔ لیکن امریکا نے کچھ غرور میں اور کچھ عوام کے دبائو میں آ کر جنگ کا فیصلہ کر لیا جس کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔
دوسری بڑی وجہ امریکہ کا افغانستان کے ساتھ ساتھ عراق کی جنگ کے مخاذ کو شروع کرنا بھی تھا۔عراق کی جنگ کی وجہ سے امریکہ افغانستان جنگ میں اُس طرح توجہ مرکوز نہیں کر سکا تھا جس کا فائدہ طالبان نے اُٹھایا اور امریکہ کو افغانستان میں نہ صرف خوب نقصان پہنچایا بلکہ ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کر دیا بہر حال یہ طالبان کی فتح ہے۔۔