کرن کو بہت دن بعد موقع ملا تھا اس لیے گھر سے نکلتے ہی سب سے پہلے انعم کے گھر کا رخ کیاتھا۔انعم اگرچہ کرن کے گھر سے ایک گھر چھوڑ کے ہی رہتی تھی ، مگر تقریبا دو ماہ ہو گئے تھے اس کے گھر گئے ہوئے۔ایک تو بچوں کے امتحانات دوسرا اپنی بیماری،بدلتے موسم نے اسے کافی دن بیمار رکھا کہ گھر کے ضروری کاموں کے سوا وہ کہیں نہ جا سکی۔آتے جاتے راستے میں کہیں کہیں انعم مل جاتی اور گھر نہ آنے پہ برہم ہوتی، دراصل انعم نے اپنے گھر کو پینٹ کروایا تھا اور نئے سرے سے ڈیکوریشن بھی کروائی تھی ۔اور کرن،جوکہ اس کی اچھی سہیلی بھی تھی، اس کو دکھائے بغیر چین نہیں آرہا تھا۔ سو کرن کو جیسے ہی وقت ملا وہ انعم کے گھر پہنچی۔توقع کے بر عکس کرن کو اپنے گھر پا کر انعم کو بے حد خوشی ہوئی۔
اس نے تفصیل سے کرن کو ایک ایک کمرہ دکھایا لیکن جب باتیں کرنے بیٹھیں تو کرن نے محسوس کیا کہ انعم کچھ بجھی بجھی سی ہے۔کرن کے پوچھنے پر انعم نے کچھ دیر ٹہر کر امبر،انعم کی گیارہ سالہ بیٹی جو قریب بیٹھی ہوم ورک کر رہی تھی،کو کمرے میں جانے کو کہا۔امبر کے من موہنے چہرے اور معصوم مسکراہٹ کی وجہ سے کرن ویسے ہی اسے پسند کرتی تھی ،اور اب جوں جوں وہ بڑی ہورہی تھی اور بھی پیاری لگنے لگی تھی۔
امبر کمرے میں چلی گئی تو انعم نے جھجکتے ہوئے بات شروع کی۔”کرن ہمارے معاشرے کے مرد بھیڑیئے ہیں، ہوس کےپجاری ہوگئے ہیں،بچیوں کو بھی نہیں چھوڑتے” “کیا ہوا ؟ انعم کرن کا دل یکدم دھک سے رہ گیا۔ ” بھئی یہ جو سامنے دکانیں ہیں امبر وہیں تک تو جاتی ہے۔وہ بھی اپنی کچھ کتاب ،کاپی اور اسٹیشنری کے لئے۔اس پر بھی ان بد تمیزوں کو ذومعنی جملے بولنے ہوتے ہیں۔آج صبح یہ دکان پر گئی تو نا صرف دکاندار نے اس سے نا مناسب انداز میں بات کی بلکہ آس پاس کے لوگ بھی اسے گھورتے رہےاور ہنس بھی رہے تھے۔”میرا جی چاہتا ہے انکی آنکھیں پھوڑ دوں”۔ انعم جذباتی ہو رہی تھی۔ ” یہ سب باتیں تمہیں اس نے بتائی ہیں”؟کرن نے سوال کیا ” ہاں اور روئی بھی ہے گھر آکر۔”۔” اس بچی نے محسوس کیا وہ بڑی ہو رہی ہے۔اللہ نے عورت میں نظروں کو سمجھنے کی صلاحیت رکھی ہے”، کرن نے کہا۔”ہاں لیکن امبر ابھی بچی ہی تو ہے” ۔انعم منمنائی ” وہ بچی ہے مگر تم تو بڑی ہو ۔ابھی میں نے دیکھا ہے امبر نے کیا لباس پہنا ہوا ہے،اتنی چھوٹی بغیر آستین کی قمیص اور جینز،یہ لباس ہے مسلمان بچی کے پہننے کا ؟ہم خود پیش کرتے ہیں اپنی بچی کو پھر روتے ہیں۔” توکیا برقعہ پہنادوں اس کو؟” انعم جھنجلائی “نہیں مگر ساتر لباس تو پہنائو” کرن بولی “دیکھو اگر ہم اکیلی بچی دکان پر بھیجیں تو یوں بھی منا سب نہیں۔اور پھر نا مناسب لباس بھی ہو تو کوئی رکاوٹ ہی نہیں۔ اللہ ہی بچا کر لاتا ہے”کرن نے ٹہر ٹہر کر کہا۔
اوہو تو مردوں کا کوئی قصور نہیں ؟انہیں بھی تو نظریں نیچی رکھنے کا حکم ہے” انعم نے احتجاج کیا۔ اس وقت حکم مان کون رہا ہے ؟کہ تمہیں اسلامی احکامات کے ثمرات ملیں ،میڈیا بھرا پڑا ہے بے حیا نشریات سے،ہیجان انگیز مناظر سے،پھر اگر کوئی واقعہ ہو جاتا ہے تو عورتیں مرد ایک دوسرے کو لعن طعن کرتے ہیں۔” کرن نے افسوس سے کہا “آزاد خیال آنٹیاں نیم برہنہ لباس میں احتجاج کرنے نکل آتی ہیں۔بے حیائی کے تمام مناظر مہیا کرتی ہیں جب یہ بے حیائی ہیجان پیدا کرتی ہے معاشرے کی چھوٹی بچیاں تک شکار ہو جاتی ہیں۔اس میں جہاں مردوں کا قصور ہے وہیں یہ میڈیا، یہ بے حیائی کا پرچار کرتی عورتیں ،یہ دین بیزار طبقہ سب مجرم ہیں۔روشن خیالی کے نام پر یہ مادر پدر آزاد مغربی معاشرے کی بے حیائی اور بے باکی پھر نتائج لا تی ہے۔یہ نظام مل کر بدلنا ہو گا ” کرن کا لہجہ پر عزم تھا ” تب ہماری بیٹیاں محفوظ ہونگی۔”