آجکل ٹی وی چینل پر خواتین کی آزادی کے لئے چند بے راہ روی کی دلدادہ خواتین خاندانی شرفا، تعلیم یافتہ لوگوں سے بدکلامی کررہی ہیں۔ چند اینکر بھی اس میں پیش پیش ہیں۔ جس پروگرام میں ہندو ماروی سرمد خلیل الرحمن سے بدتمیزی کررہی تھی۔ اس میں خلیل صاحب نے شٹ اپ پر بالکل صحیح اعتراض کیا۔ یہ خاندانی لوگوں کی نشانی ہے کہ شٹ اپ بھی کسی شریف خاندانی شخص کے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ لیکن اس بازاری عورت کو کیا پتہ ؟ وہ تو مسلمان بھی نہیں ہے، اسے اسلامی اقدار، سے کیا لینا دینا۔ رہتی بھی امریکہ میں ہے۔ اور ہندو ہوکر خواتین کی آزادی کی بات کرتی ہے۔ اسے چاہئے کہ پہلے اپنے ہندو کلچر کو ٹھیک کرے، جہاں لڑکیوں کو جلا دیا جاتا ہے اب بھی وہاں کے پس ماندہ ہندو خواتین کے ساتھ انتہائی گھناؤنے سلوک کیئے جاتے ہیں۔
اے ماروی سرمد جہیزجیسی لعنت چیزبھی ہندو مذہب سے ہی مسلمانوں میں آئی ہے۔ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ۔ کتنی گندگی ہے تمھارے رہن سہن اور لباس میں۔ ایک مرتبہ شادی کے بعد وہ شوہر کے رحم و کرم پر زندگی بھر محتاج رہتی ہے۔ مسلمانوں میں ناپسندیدہ شخص سے عورت آزادی لے کر دوسرا گھر آباد کرسکتی ہے۔ ہندو کلچر میں یہ نہیں ہے۔ شرم کرنی چاہئے کہ اپنا گندہ کلچرکو ٹھیک کرنے کے بجائے مسلمان خواتین کو ایک سازش کے ذریعے تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے۔
ہمارے نام نہاد اینکر، اسکالر ایسے ساتھ دے رہے ہیں جیسے وہ فحش عورت ان سے زیادہ قابل ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنایا گیا ہے۔ اس عورت اور اسکے چمچوں کو چاہیے کہ ہندو کلچر اور یورپ کا کلچر ٹھیک کرے۔ یہاں مسلمانوں کے بہترین کلچر پر کیچڑ نہ اچھالیں۔ یہ عورت زید حامد سے بھی شدید بدتمیزی کرچکی ہے، فوج کو بھی برا بھلا کہتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر کے کہ یہ پاکستان کے دشمنوں کی ایجنٹ ہے۔ حکومت، علماءکرام، عدلیہ اور فوج کو اس پر ایکشن لینا چاہیے اور ماروی سرمد پر پاکستان آمد پر پابندی لگانی چاہئے۔پاکستانیوں سے رائے اور شیئر کی درخواست ہے۔
اسلام زندہ باد، پاکستان پائندہ باد