ایک لفظ روز مرہ زندگی میں بہت کثرت سے سنتے ہیں ۔وہ لفظ ہے مایوسی ۔کوئی نوکری نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ،کوئی گھر نہ ہونے کی وجہ سے مایوس،کوئی گھریلوں الجھنوں کی وجہ سے زندگی سے مایوس ۔آخر یہ مایوسی کیوں ؟اس مایوسی کا حل کیا ہے ؟ہم کیسے پاسکتے ہیں اس سے نجات ؟اس حوالے سے ہم آپ تک پہنچائیں گے مفید اور درست معلومات۔
میرے پیارے قارئین :
اگر ہم روزمرہ کے اخبارات کا جائزہ لیں تو ہمیں روزانہ کسی نہ کسی کی خودکشی کی خبر نظر آئے گی۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ دس لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں اور ایک سے دو کروڑ انسان اس کی کوشش کرتے ہیں۔ غریب اور پسماندہ ممالک میں خود کشی کرنے والوں کی شرح نسبتاً زیادہ ہے۔ اگر ہم خود کشی کی وجوہات کا جائزہ لیں تو صرف اور صرف ایک ہی وجہ نظر آتی ہے جسے ’’مایوسی‘‘ یا Frustration کہا جاتا ہے۔
یہ وہ چیز ہے جس کا شکار تقریباً ہر انسان ہوتا ہے۔ بعض افراد میں یہ مایوسی اتنی شدت تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنی زندگی کے خاتمے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ عام طور پر ان مسائل کے حل کی جو تجاویز دی جاتی ہیں ، وہ اجتماعی سطح پر دی جاتی ہیں، جن پر عمل حکومت یا بڑے بڑے ادارے ہی کر سکتے ہیں۔ اس پروگرام کے ذریعے صرف و صرف خیرخواہی کے جذبے کے تحت ہم آپ کو اس حصار سے نکالنا چاہتے ہیں ۔ہم آپ کو درست سمت میں زندگی کے متعلق راہنمائی کریں گے ۔آپ یقین کریں رب نے چاہا تو آپ کو زندگی اچھی لگنے لگے گی ۔لیکن توجہ شرط ہے ۔ایک سوال کیا اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں ہمیں اس کے متعلق کچھ تعلیمات دی ہیں ؟ ہم کن طریقوں سے اپنے اندر مایوسی کو کم کر سکتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خوشیاں سمیٹ سکتے ہیں؟
قارئین!رب کا ہم پر کتنا کرم ہے کہ اسلام لمحہ بہ لمحہ ،قدم بہ قدم ہماری رہنمائی فرماتاہے۔ اپنے موضوع کی بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم یہ جانتے ہیں آخر مایوسی کہتے کسے ہیں ؟
مایوسی کی تعریف کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ ’’مایوسی اس احساس کو کہتے ہیں۔ جو ایک شخص اپنی کسی خواہش کی تسکین نہ ہونے کے طور پر محسوس کرتا ہے، مثلاً اگر ایک طالب علم امتحان میں پاس ہونا چاہے لیکن فیل ہو جائے تو وہ مایوسی سے دوچار ہوگا ۔یا اگر کوئی کھلاڑی کھیل کے میدان میں مقابلہ جیتنا چاہے، لیکن ہار جائے تو وہ خیبت کا شکار ہوگا۔‘‘ ہم مذید گہرائی میں جائیں تو اس بات کو اس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ اپنے آپ کا اور اپنے گرد وپیش کے افراد کا جائزہ لیں تو ہم جان لیں گے کہ دنیا کا ہر شخص اپنی زندگی میں مایوسی کا شکار رہا ہے اور جب تک کسی شخص کے سانس میں سانس ہے، وہ مایوسی سے دوچار ہوتا رہے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کی تمام خواہشات کی تسکین اس کی مرضی کے عین مطابق ممکن ہی نہیں ہوتی، اس لئے وہ کسی نہ کسی حد تک مایوسی کا شکار رہے گا۔ تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں، جن میں یہ احساس زیادہ شدید نہیں ہوتا اور کچھ لوگ ایسے ہیں، جن میں یہ احساس شدید حد تک پایا جاتا ہے۔ ‘‘
سادہ الفاظ میں اگر کوئی شخص کسی چیز کی خواہش کرے اورکسی وجہ سے وہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو اس کے نتیجے میں اس کے دل ودماغ میں جو تلخ احساس پیدا ہوتا ہے، اسے مایوسی کہتے ہیں۔اب ہم اگر مایوسی کی بات کررہے ہیں تو ہم اس بات کو بھی جان لیںمایوسی کس قسم کی ہوتی ہیں ۔
ماہرین نے مایوسی کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے ۔مایوسی بنیادی طور پر دو طرح کی ہوتی ہے، ایک تو وہ جو ہمارے بس سے باہر ہے اور دوسری وہ جو ہمارے اپنے کنٹرول میں ہوتی ہے۔ ناقابل کنٹرول مایوسی کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص یہ چاہتا ہے کہ اس کا بچہ زندہ رہے اور بڑا ہو کر اس کی خدمت کرے۔ کسی وجہ سے اس بچے کی موت واقع ہوجائے اور اس شخص کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکے تو یہ ناقابل کنٹرول مایوسی کہلاتی ہے۔ اسی طرح جب ہم فطری حوادث جیسے سیلاب، زلزلہ اور طوفان میں لوگوں کو ہلاک ہوتے دیکھتے ہیں تو اس سے ہمارے دل میں جو غم، دکھ یا مایوسی پیدا ہوتی ہیں وہ ناقابل کنٹرول ہوتی ہے۔
یہ وہ معاملات ہیں جن میں انسان کچھ نہیں کرسکتا ۔ اس قسم کی مایوسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے دین میں یہ ہدایت دی ہے کہ انسان کو چاہئے کہ ایسے معاملات میں وہ اللہ کی پناہ پکڑے اور صبر اور نما زکی مدد سے اس مایوسی کو کم کرے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے !
ترجمہ کنزالایمان :اور صبر اور نماز سے مدد چاہو اور بےشک نماز ضرور بھاری ہے ۔مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پھرنا ۔(سورۃالبقرۃآیت45-46)
اس آیت کے تحت خزائن العرفان میں بیان کیا گیا کہ یعنی اپنی حاجتوں میں صبر اور نماز سے مدد چاہو سبحان اللہ کیا پاکیزہ تعلیم ہے، صبر مصیبتوں کا اخلاقی مقابلہ ہے انسان عدل و عزم حق پرستی پر بغیر اس کے قائم نہیں رہ سکتا صبر کی تین قسمیں ہیں۔(۱) شدت و مصیبت پر نفس کو روکنا (۲)طاعت و عبادت کی مشقتوں میں مستقل رہنا(۳)معصیت کی طرف مائل ہو نے سے طبیعت کو باز رکھنا ،بعض مفسرین نے یہاں صبر سے روزہ مراد لیا ہے وہ بھی صبر کا ایک فرد ہے اس آیت میں مصیبت کے وقت نما ز کے ساتھ استعانت کی تعلیم بھی فرمائی،کیونکہ وہ عبادتِ بدنیہ ونفسانیہ کی جامع ہے اور اس میں قربِ الہٰی حاصل ہو تا ہے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہم امور کے پیش آنے پر مشغولِ نماز ہو جاتے تھے،اس آیت میں یہ بھی بتایا گیا کہ مومنین صادقین کے سوا اوروں پر نماز گرا ں ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترم قارئین میں نے مشاہد ہ کیا ہے ۔مایوسی خاموش قاتل ہے ۔جو زندگی کے تمام ذائقوں کو ختم کردیتاہے ۔آسائش بھی زہر لگنے لگتی ہے ۔سہولیات و انعامات کے ہوتے ہوئے بھی زندگی بھلی نہیں لگی ۔آپ اللہ عزوجل کی رحمت کی تلاش میں رہیں ۔امید اور جستجوکے سائے تلے جیا کریں ۔
مایوس ہونا تو ہمیں زیب ہی نہیں دیتا۔۔ہم تو اس کے ماننے والے ہیں جس کے کُن کہنے سے وہ ناممکن ممکن ہوجاتاہے ۔اللہ عزوجل ہمیں مایوسیوں کے اندھیروں سے نکال کر امیدوں کے کھیت کھلیان کی بہاریں نصیب فرمائے ۔آمین۔