یہ بات گزشتہ سال 20 جون کی ہے ، سپریم کورٹ میں سکھر پریس کلب مسمار کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران اس وقت کے سینئر جسٹس اور موجود چیف جسٹس سپریم کورٹ گلزار احمد نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ سندھ ہر لحاظ سے کرپٹ ترین صوبہ ہے، جس کا ہر محکمہ، ہر شعبہ ہی کرپٹ ہے، بدقسمتی سے وہاں عوام کیلئے کچھ نہیں ہے اور صوبائی بجٹ کا ایک روپیہ بھی عوام پر خرچ نہیں ہوتا، لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کی صورتحال دیکھیں، دیکھتے دیکھتے پورا لاڑکانہ ایچ آئی وی پازیٹو ہوجائے گا۔
یہ جملے سننے کے بعد اصولا اور اخلاقا سندھ کے حکمرانوں کو مستعفی ہوکر گھروں میں ازخود مقید ہوجانا چاہیے تھا ۔صوبے سندھ کو پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 سے دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہے ۔ زیادہ سے زیادہ وسائل کے لیے ” زرخیز ” کراچی کے اداروں کو خصوصا بلدیاتی اور خود مختاروں آرگنائزیشن پر ہاتھ صاف کررہی ہے ۔ ایسا کرنے کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا کرتی ۔ یہی وجہ ہے کہ 2008 تا 2013 ، 2013 سے 2018 اور پھر 2018 سے اب تک پیپلز پارٹی کے متعدد وزراء، مشیران کے ساتھ اس کے مرکزی رہنما آصف زرداری بھی کرپشن کے الزامات میں ” نیب زدہ ” ہوچکے ہیں ۔ وہ ان الزامات کے بعد اپنی شکلیں بھی دکھانے کے قابل نہیں رہے، مگر اپنے چہرے وہ لوگ چھپاتے ہیں جنہیں غیرت اور شرمندہ ہو ۔
پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے 3 مارچ کو کرونا وائرس کی ٹیسٹنگ کٹس کی خریداری کے لیے دس کروڑ روپے جاری کردیے ۔فنڈز کے اجراء کے لیے کرونا وائرس کے پھیلنے کی رفتار سے زیادہ تیزی کا مظاہرہ فنڈز جمع کرنے میں کیا گیا ۔ وزیراعلٰی مراد علی شاہ نے اس بات کا اظہار بھی کیا کہ وہ خود کرونا کی روک تھام کے معاملے کی مانیٹرنگ کررہے ہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ انہیں ہنگامی طور پر دس کروڑ روپے کی ضرورت پڑ گئی ۔ اب یہ نہیں معلوم کہ حکومت اس بھاری رقم سے کرونا وائرس کی کونسی کٹس خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے؟ خیال رہے کہ صوبائی حکومت کرونا سے بچاؤ کے لیے ماسک کی قیمتیں 25 روپے 100 اور ڈیڑھ سو روپے تک بڑھتے ہوئے دیکھتی رہی ۔ مگر کچھ نہیں کرسکی اسے اچانک کٹیں خریدنے کا خیال کیونکہ آیا ؟ جب چائنا میں گزشتہ یہ وائرس پھیلنے لگا تو وہاں صرف نو دن میں ریپڈ کٹس بنانے والی فیکٹری بنا ڈالی۔ واقف حال لوگوں کا کہنا ہے کہ اس پوری فیکٹری کے قیام کے لیے بھی 10 کروڑ روپے یا اس کے مساوی چائینز کرنسی خرچ نہیں کی گئی ہوگی۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کی کونسی اور کتنی تعداد میں کب تک یہ کٹس خریدی جاتی ہے اور کس طرح استعمال کیا جاتا ہے ۔
ذکر دراصل سپریم کورٹ کی بھر پور کارروائی کے سلسلہ کا ہے ۔ عدالت عظمٰی کے نئے چیف جسٹس ، جسٹس گلزار احمد کے چیف جسٹس پاکستان کا چارج سنبھالنے کے بعد سے جس طرح وہ فیصلے کررہے اور احکامات دے رہے ہیں ۔ اس سے لگتا ہے کہ قانون کی حکمرانی کا دور آچکا ہے اور ملک میں اب لاقانونیت ، حق تلفی اور خلاف قانون تعمیرات منہدم ہونے کا وقت آپہنچا ہے لاقانونیت دم توڑنے کو ہے ، قانون شکن افراد اور سرکاری افسران کو گھر جانا ہوگا ۔ جیسے سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کے طور پر خدمات انجام دینے والے ظفر احسن کو اپنی پوسٹ چھوڑ کر جانا پڑا ۔ ظفر احسن پر غیرقانونی تعمیرات کے سلسلے کو نہ روکنے کے ساتھ ان غیرقانونی تعمیرات میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا الزام تھا ۔ سپریم کورٹ کا حکم ڈی جی ایس بی سی اے سمیت تمام ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں عہدوں سے ہٹانے کا حکم تھا،اسی وجہ سے چیف جسٹس نے چیف سیکریٹری سندھ کو ڈی جی کا چارج دینے کا حکم دیا تھا ۔ تاہم حکومت نے ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے سے اوپر کسی افسر کو نہیں ہٹایا بلکہ اس بی سی اے کے ڈپارٹمنٹ ماسٹر پلان کو ایس بی سی اے سے علیحدہ کرکے سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی بنادی اور اس کا نوٹیفکیشن جاری کرکے اسے سیکریٹری بلدیات کے ماتحت کردیا ۔
ماسٹر پلان اتھارٹی کیوں بنانے کی ضرورت پڑی؟ اور ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو ایس بی سی اے سے کیوں جدا کیا گیا ؟اس بات کی وضاحت تو سندھ حکومت یا اس کے وزیر بلدیات ، رہائش و شہری منصوبہ بندی ہی کرسکتے ہیں ۔ ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ دراصل شہروں کے ماسٹر پلان کو بناتا ہے ۔ شہروں کی دس سالہ پلاننگ کرنا اس کا کام ہوتا ۔ ابھی جس ماسٹر پلان پر عملدرآمد کیا جارہا ہے، وہ 2009 میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ماتحت کے بی سی اے کے شعبہ ماسٹر پلان نے بنایا تھا ۔ سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ سسٹم چونکہ دس سال کے لیے پرویز مشرف کے دور میں بنایا گیا تھا اس لیے یہ مدت پوری ہوتے ہی سندھ حکومت نے شہری حکومت کے نظام کو ختم کردیا۔ 2008 میں منتخب ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت جمہوریت بہترین انتقام ” کی رٹ لگاتے ہوئے نچلی سطح کے سٹی ڈسٹرکٹ نظام کو رخصت کرتے ہوئے کراچی کے ساتھ جو تاریخی انتقامی کارروائی کی، اس کے نتیجے میں کراچی بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگز کنٹرول اتھارٹی میں تبدیل کردیا اور اس کا ڈی جی منظور قادر عرف کاکا کو مقررکیا، کراچی میں پلاٹوں اور تعمیرات کی وہ لاقانونی کارروائی کی کہ نیب اور دیگر تحقیقاتی ادارے انہیں بے چینی سے یاد کرتے ہیں ۔ ایس بی سی اے میں کے ڈی اے کا ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ اسی لیے ضم کیا گیا تھا کہ کاکا اور ان کی ٹیم اپنی مرضی سے نقشوں کو تبدیل کرسکیں ۔ سو ویسا ہی کیا گیا ۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ قائداعظم کے اور میرے اس شہر کی تباہی میں منظور قادر کاکا اور اس کے پشت پناہ ملوث ہیں ۔
ایس بی سی اے کے ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ کو اس وقت تک استعمال کیا گیا جب تک سندھ گورنمنٹ آسانی کے ساتھ اس کا استعمال کرسکتی تھی لیکن جیسے ہی عدالت عظمٰی نے غیر قانونی عمارتوں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا حکومت نے ڈیولپمنٹ اتھارٹیز کے شعبہ ماسٹر پلان کو سپریم کورٹ کے حکم کا حوالہ دے کر علیحدہ کردیا اور ایک ماسٹر پلان اتھارٹی بنادی ۔حالانکہ عدالت نے ماسٹر پلان اتھارٹی بنانے کے لیے کسی قسم کا حکم دیا اور نہ ہی بات کی تھی ۔
دنیا بھر میں ماسٹر پلان ڈپارٹمنٹ متعلقہ ترقیاتی ادارے کا حصہ ہوتا ہے، یہ کسی حکومت کے ماتحت نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی اتھارٹی ہوتا ہے ۔ سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کا مطلب یہ ہےکہ پورے صوبے کا ماسٹر پلان بنانے والی اتھارٹی جس پر عمل کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں ہے، اس سے شہروں کے ماسٹر پلان خراب کرکے متعلقہ علاقوں کے لے آؤٹ پلان اور نقشوںکو بگاڑا تو جاسکتا مگر سنوارا نہیں جاسکتا ۔ سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی کا مطلب یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں سمیت ہر علاقے کا ماسٹر پلان تیار کرنے والا ادارہ ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ کراچی سے ماسٹر پلاننگ کے تحت عمارتوں کے لے آوٹ پلان اور نقشوں کی آمدنی کا حاصل کرکے یہاں کے لوگوں کا حق مارنا ہے ۔
سپریم کورٹ 6 مارچ کو کراچی میں غیر قانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خلاف مقدمے کی سماعت کرے گی ۔ کراچی کے لوگوں کو یقین ہے کہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمد سندھ حکومت کی جانب سے ” سندھ ماسٹر پلان اتھارٹی ” کے قیام کے بارے میں بھی وضاحت طلب کرے گی اور یہ بھی یقین ہے کہ وہ ” سندھ واٹر ایکٹ 2020 اور اس کے تحت سندھ واٹر ریسورسز کمیشن اور سندھ واٹر سروسز ریگولیٹری اتھارٹی کے قیام کے تیار مسودوں کا بھی جائزہ لے گی۔ اس اتھارٹی کے ذریعے واٹر سروسز پرووائڈر اور سیوریج سروسز پرووائڈرز کی خدمات حاصل کرے گی ۔جس کا مطلب واضح ہے کہ بنیادی بلدیاتی نظام کی ذمے داریوں کو حکومت اپنے کنٹرول میں لے کر نجی شعبے کے حوالے کردے گی۔ حکومت کے اس طرح کے ارادوں سے ڈر لگ رہا ہے کہ کراچی کے شہریوں پر بجلی کی طرح پانی کی سہولت حاصل کرنا بھی دشوار بنادیا جائے گا ۔ لیکن ایسا کرکے پیپلز پارٹی کی حکومت ” جمہوریت بہترین انتقام ہے ” کے نعرے کو حقیقی اور عملی شکل دے دیگی ۔ لیکن یہ سوال کرنے کا سب کو حق ہوگا کہ ” کیا جمہوریت جمہور سے انتقام لینے کے لیے ہوتی ہے ؟