مودی کی خوشی ، غم و الم میں لپٹی دفن ہوئی

دوروں کا دور دورا ہے ، کوئی آرہا ہے کسی کو بلایا جارہا ہے اور کوئی خود جارہا ہے ، کسی کو کسی کے دورے کا انتظار ہے تو کوئی کسی کے دورے سے پریشان ہے۔ تقریباً یہ دورے کسی نا کسی کیلیے خوش آئند ہیں لیکن ایک دل کا دورہ کسی کے لیے بھی خوش آئند نہیں ہوتااور یہ دورہ بغیر بتائے ہی ہوجاتا ہے ۔ ملک کے سربراہوں کے دورے اہم سفارتی امور اور اہم معاملات کو اجاگر کرنے کیلیے کیے جاتے ہیں۔ (یہ اور بات ہے کہ ماضی میں ہمارے ملک کے صاحب اقتدار اپنی جائیدادوں کے حساب کتاب کیلیے یہ دورے کرتے رہے ہیں)۔

یو ں تو ماضی میں بہت سارے تاریخی دورے کیے گئے ہونگے لیکن ایک دورہ جس کا بہت چرچا سنا ہے جو جنرل ضیاء الحق شہید سے جڑا ہوا ہے جب پاکستان اور بھارت کے مابین معمول سے ہٹ کر سرحدوں پر تنائو بنا ہوا تھا اور پاکستان کی کرکٹ ٹیم دورہ بھارت پر گئی ہوئی تھی ، ایسے میں بغیر کسی سفارتی مداخلت کے جنرل صاحب دہلی پہنچ گئے جہاںناچاہتے ہوئے بھی انکا استقبال بھارتی وزیر اعظم راجیوگاندھی نے کیا اس استقبال کے حوالے سے انکے مشیر بھارا منان نے لکھا کہ جنرل صاحب نے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے کہا اگر ہمارے درمیان جنگ ہوئی تو یہ نیوکلیر جنگ ہوگی اور اس میں کچھ نہیں بچے گا اور دنیا ہلاکو خان اور چنگیز خان کو بھول جائے گی اور جنرل ضیاء الحق اور راجیوگاندھی کویاد رکھے گی۔

یاد رکھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان ختم ہوگیا تو کوئی بات نہیں اسلام زندہ رہے گا لیکن اگر ہندوستان ختم ہوگیا تو ہندو صفحہ ہستی سے ختم ہوجائینگے(اس واقع کو اپنے الفاظ میں مختصر بیان کیا ہے)بھارا منان نے مزید لکھا کہ یہ سن کر باقاعدہ راجیو گاندھی کے ماتھے پر پسینے کی بوندے پھوٹ پڑیں۔جہاں یہ واقع دوروں کی اہمیت پر سے پردہ اٹھاتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح کرتا ہے کہ قدرت ہمیشہ بہادروں کا ساتھ دیتی ہے۔ پھر جو کچھ ہوا ہم سب دیکھتے آرہے ہیں۔

ایک مکتبہ فکر اس بات پر نالاں دیکھائی دیتے ہیں کہ کیوں موجودہ حکومت پرانے لوگوںکی، کی گئی بدعنوانیوں اور کوتاہیوں کو باربار دہراتے ہیں تو ان قابل احترام سے عرض ہے کہ وہ ان بدعنوانوں اور کوتاہیاں کرنے والوں کو یہ باور کرائیں کہ وہ اپنی غلطیاں تسلیم کریں پاکستان کو سال ہا سال سے پہنچائے جانے والے نقصانات کی ذمہ داری قبول کریں۔ اس سارے عرصے میں ہم کہیں کھڑے نہیں ہوسکے یعنی اپنے پیر نہیں جما سکے کیونکہ ہمارا دھیان ہماری توجہ کسی اور جانب مبذول رہی۔ اب کسی سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں رہا، اب تو باتیں صرف وضاحتوں میں الجھی ہوئی ہیں۔

دور حاضر کا تقاضہ ہے کہ خارجہ، دفاع اور تعلیمی حکمتِ عملیوں پر سب سے زیادہ توجہ دی جائے اور انکی مسلسل بہتری کیلیے زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کیا جائے ، کم از کم بجٹ مختص کرنے سے دنیا کو ہماری ترجیحات کا تو علم ہوجاتا ہے جس سے عالمی تاثر قائم ہوتا ہے۔ ہم کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر اپنی واضح خارجہ حکمتِ عملی ترتیب ہی نہیں دے سکے تو بھلا دنیا کو کیا بتاتے ۔بنیادی عوامل (جو تقریباً دنیا کے ہر ملک کی خارجہ حکمت عملی کا حصہ ہونگے)کو نکال کر ہم نے وقت کے رحم و کرم پر چلنے والی حکمت عملی اپنائے رکھی۔ یہی وجہ رہی کہ ہم کبھی کوئی خاطر خواہ کارہائے نمایاں دیکھانے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ مفاد پرست سیاسی قیادت کبھی ملک کو آگے نہیں لے جاسکتی چاہے وہ دنیا کے کسی بھی ملک کی کیوں نا ہو۔

معذرت کیساتھ ، پاکستان عرصہ دراز سے کسی نا کسی خارجی یا داخلی بحران کی زد میں رہتا ہی ہے اور ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے مسلسل جنگی کیفیت میں مبتلا ہیں، داخلی حکمت عملی سیاسی نوعیت کی ہوتی ہے جو سیاسی تنظیم اقتدار میں ہوگی سارا نظام اسکے ماتحت ہوجائے گا ، یہ وہ داخلی نظام ہے جو اداروں کو کبھی مستحکم نہیں ہونے دیتااور عملی مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ موجودہ حکومت نے جس تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اسمیں سمجھدار بھی دھوکا کھا گئے انکا یقین تھا کہ سوائے ایوان تک رسائی کی تبدیلی کا نعرہ ہوگا پھر وہی ہم اور آپ ، جوکہ یکسر مسترد ہوگیا اور ایسا یقین رکھنے والوں کی تو جیسے نیندیں اڑگئیں۔

ہوسکتا ہے کہ یہ باتیں قارئین کو گراں گزر رہی ہوں لیکن فرق اسی وقت سمجھ آتا ہے جب اندھیرے کے بعد اجالا ہوتا ہے۔ تبدیلی کا نعرہ مختلف شکلوں میں یوں تو ہر دور میں لگتا رہا ہے لیکن موجودہ حکومت نے جس طرح تبدیلی کی بات کی فرسودہ نظام کے پاسداروں کو پسند نہیں آئی اور ابھی تک نہیں آرہی ۔ ہمارا معاشرہ اور ادارے ہمیشہ سے بااثر لوگوں کی زد میں رہے ہیں جو ذاتی مفادات سے آگے نا سوچتے ہیں اور نا ہی سوچنا چاہتے ہیں ۔

بات ہمیشہ ہی بہت دور نکل جاتی ہے ، موضوع پر واپس آتے ہیں آمریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنی اہلیہ، بیٹی اور دماد کیساتھ ہمارے پڑوسی ملک کم لڑاکا پڑوسی ملک کے دورے پر ہیں۔

اس دورے سے قبل بھارت یہ تاثر دینا چاہ رہا تھا کہ امریکی صدر بھارت میں کھڑے ہوکر بھارت سے اپنے اٹوٹ تعلق کی تجدید کرینگے اور پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنائینگے، جسکی وجہ سے بھارت نے اپنی دائمی غربت چھپانے کیلئے دیوار چین کی طرز پر احمد آباد میں سڑک کیساتھ بسی کچی بستی کو چھپانے کیلیے تقریباً پچیاسی کروڑ کی لاگت سے دیوار بنائی کیونکہ یہ بستی اس سڑک کے ساتھ ساتھ ہے جس پر سے صدر ٹرمپ نے گزرنا تھا ۔ اس دیوار کو دنیا کے عجائب میں شامل کرنے ، گریٹ وال کا درجہ دلوانے اور اس جیسے نامعلوم کتنے ہی طنزیہ پیغامات سماجی ابلاغ میں بھارت کی جگ ہنسائی کا سامان کیے ہوئے ہیں۔

یہ بات بھی دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بھارت دھٹائی اور ہٹ دھرمی کے تمام پچھلے ریکارڈ توڑ چکا ہے جسکا ایک منہ بولتا ثبوت کشمیر میں غاصبانہ کرفیو ہے تو دوسری طرف اپنے ہی ملک میں اپنے ہی شہروں میں اور اپنے ہی لوگوں پر یعنی ہندوستانیوں پر انکے مسلمان ہونے کی اس جدید ترین دور میں تاریخ کا بد ترین سلوک کیا جا رہا ہے ۔ کیا بھارت اورمودی کی حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ دنیا انکے کیے پر خاموش تماشائی بنی رہے گی اور انکے اقدامات کو سراہے گی۔

اب انکی ساری من گھڑت سوچی سمجھی دھری رہ گئی جب امریکی صدر نے بقول ذرائع ابلاغ کے ایک لاکھ کہ قریب ہندوستانیوں سے بھرے اسٹیڈیم میں پاکستان کیلیے ناصرف خیرسگالی کے کلمات ادا کیے بلکہ پاکستان کا نام لیکر دہشت گردی کیخلاف ادا کیے گئے کردار کو سراہا پھر افغانستان اور امریکہ کے درمیان امن مذاکرات کو منطقی انجام تک پہنچانے پر شکریہ بھی لگے ہاتھوں ادا کردیا۔

جہاں صدر ٹرمپ کی زبان پاکستان کی موجودہ خارجہ پالیسی بول رہی تھی وہیں مودی کی جانب سے مسلمانوں کیخلاف کی جانے والی ملکی سازشیں جن کی وجہ سے مودی اور انکی حکومت سمجھتی ہے کہ پاکستان پر دبائو ڈالا جاسکتا ہے تو یہ انکا ایک ڈرائونا خواب ثابت ہوگا۔ مودی ، امریکہ کو دنیا کے سامنے اپنا پکا حمائتی بنا کر پیش کرنا چاہتے تھے جسکے لیے انہوں نے اتنے بڑے مجمع کا بندوبست کیا لیکن اتنا بڑا مجمع مودی اور بھارتی حکمت عملی کی ناکامی کا گواہ بن گیا اور سارے بھارت کی خوشی صدر ٹرمپ کے چند جملوں نے غم و الم میں بدل دی، احمد آباد کا سردار پٹیل اسٹیڈیم مودی کی خوشیوں کا مقبرہ بن کر رہ گیا۔

بے عزتی کا یہ سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوا بلکہ اگلے روز پھردوطرفہ ملاقات کےبعد ابلاغ عامہ سے رسمی گفتگو کرتے ہوئے       انہیں کلمات میں پاکستان اور وزیراعظم عمران خان کی دوبارہ تعریف کردی۔ اب بھارت اور بھارتی بقول عمران خان صاحب ہندوتوا کے پیروکار بھارتی مسلمانوں پر اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے نکلے ہوئے ہیں گھروں کوآگ لگا رہے ہیں، لوگوں کو نام پوچھ پوچھ کر ڈنڈوں پتھروں سے لہولہان کر رہے ہیں ۔ سماجی ابلاغ کے ذرائع ساری دنیا میں بھارت کی بد ترین تعصبانہ روئیے کی اندرونی صورتحال سے آگاہ کر رہے ہیں۔

دیکھیں آخر کب تک دنیا یونہی نہتے مسلمانوں کی بہیمانہ تشددزدہ خون آلود لاشوں کی تصویروں اور ویڈیوز کو لائک اور فارورڈ کرنےسے گزارا کرتی رہیگی۔ ہمیں اتنا ضرور پتہ ہے کہ ہر فرعون کیلیے قدرت نے ایک موسی ضرور پیدا کیا ہے ۔ یہ دوروں کا دور پاکستان کے حق میں جارہا ہے اور اسی طرح سے بھارت کا صدرٹرمپ کا دورہ بھی پاکستان کیلیے کامیاب قرار دیا جاسکتا ہے۔

حصہ
mm
شیخ خالد زاہد، ملک کے مختلف اخبارات اور ویب سائٹس پر سیاسی اور معاشرتی معاملات پر قلم سے قلب تک کے عنوان سے مضامین لکھتے ہیں۔ ان کا سمجھنا ہے کہ انکا قلم معاشرے میں تحمل اور برداشت کی فضاء قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور دوسرے لکھنے والوں سے بھی اسی بات کی توقع رکھتے ہیں کہ قلم کو نفرت مٹانے کیلئے استعمال کریں۔

جواب چھوڑ دیں