کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی اگر ہم پر آسمان سے پتھر برس جائیں یا ہم کو زمین میں دھنسا دیا جائے ۔ بل کے منظور ہونے کے بعد ہم نے اپنے آپ کو اللہ کے عذاب کامستحق بنا دیا ہے ، اللہ کی شریعت کو ہم نے مسلمان ہونے کے باوجود تبدیل کردیا۔ بنی اسرائیل نے بھی رجم جیسی سزائیں جو شریعت کی حدود میں سے ہےاس کے خلاف اپنی رائے کو قانونی حیثیت دی تھی۔
حضورؐ کے زمانے میں ایک یہودی عورت اور ایک یہودی مرد کو لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا۔ حضورؐ نے یہودیوں سے پوچھا کہ تورات میں اس گناہ کی سزا کیا ہے؟ تو انہیں نے نبی آخرالزماں کو چکما دینے کی کوشش میں اپنی تورات کو بدل دیا اور کہا کہ ایسے لوگوں کی سزائیں ہماری کتاب میں ان کو رسوا کرنا اور ان کو مارنا پیٹنا ہے۔ نبیؐ کے ساتھ ایک صحابی تھے جو تورات کو جانتے تھے انہوں نے فوراً یہودیوں کو کہا کہ تورات لاؤ اور اسے پڑھو(جب توریت لائی گئی) تو ان کے ایک بہت بڑے مدرس نے آیت رجم پر اپنی ہتھیلی رکھ لی ۔حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے اس کے ہاتھ کو آیت رجم سے ہٹا دیا اور اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ ۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور ان دونوں کو مسجد نبوی کے قریب ہی جہاں جنازے لا کر رکھے جاتے تھے، رجم کر دیا گیا۔(صحیح البخاری 4566)
اپنی انہی خلاف شریعت روش کو اپنانےپر بنی اسرائیل پر قیامت تک لعنت اور پھٹکار برسادی گئی اور آج ہم بھی اس ہی روش کے مرتکب ہوگئے۔ قتل کی سزا شریعت میں قصاص اور زنا بالجبر اور اور شادی شدہ زانی کیلئے سزائے موت ہےلیکن ہم نے زینب الرٹ بل میں ان شریعت کی حدود کو بے کار سمجھ کر اپنی رائے اور اپنے فیصلے کو قانونی حیثیت دے دی( معاذاللہ)۔
حضورؐ نے فرمایا تھا کہ،
“تم لازماً ان لوگوں (کے طور طریقوں) کی پیروی کرو گے جو تم سے پہلے گزرے ہیں، بالشت کے ساتھ بالشت اور ہاتھ کے ساتھ ہاتھ (کے انداز میں)، یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے تھے تو تم بھی ان کی پیروی کرو گے”۔ صحابہ نے پوچھا کہ، “حضور کیا یہود اور نصاریٰ مراد ہیں؟” فرمایا: ’’تو اور کون؟‘‘ (صحیح البخاری)
یہودیوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھیے کہ ان پر کن کن طریقوں سے ان کے اعمال کے سبب عذاب آیا۔ بندر اور سوربنا دیے گئے جب اللہ نے ایک حکم دیا اور اس میں ہیرا پھیری کرنے لگے،بیرون ملک طاقتوں کے ہاتھوں ان کو متعدد بار تہہ تیغ کیا گیا اور لاکھوں کی تعداد میں ان کا قتل عام ہوا اور وہی حالات ہم پر بھی آئے۔ تاتاری کے ہاتھوں ہم کو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں قتل کیا گیا، پھر بیت المقدس میں عیسائیوں کے ہاتھوں ہمارا قتل عام ہوا۔اور آج دنیا بھر میں ہم ذلیل و خوار ہیں ، پٹ رہے ہیں، قتل ہورہے ہیں اور ہم سدھرنے کا نام نہیں لے رہے۔
زینب الرٹ بل کامطلب کیا ہے؟، بچوں کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والا یا قتل کرنے والا صرف 7 یا 14 سال تک جیل میں رہے گا،مگر ضمانتوں پرجلدی باہر آئے گا جسے دیکھ کر دوسرے مجرمانہ اذہان کو شہہ ملے گی، معاشرے کی نجاست میں اضافہ ہوگا۔ جو اس سے متاثر ہوں گے وہ حکومت کی بے حسی کا رونا روئیں گے اور قاتل کی موت کا مطالبہ کریں گے لیکن اس وقت دیر ہوچکی ہوگی۔
اگر ابھی اس کے خلاف قوم نے متحد ہوکر آواز نہ اٹھائی تو کل پھر کوئی انسان نما گدھ کسی والدین کے لختِ جگر کو نشانہ بنائے گا ۔یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ ایسے بہت بل منظور ہوئیں ہیں اور بل تو دور کی بات ہماری عدالتوں کے قانون اور اس ملک کے حکومتی انتظامات خلاف شریعت پر مبنی ہیں۔ جب جب ان حکومتی نمائندگان کے سامنے یا عدالتی قانون کے سامنے شریعت کو لایا گیا تو اللہ اور رسولؐ کے احکامات کو ردی سمجھ کر پسِ پشت پھینک دیا گیا اور انگریزوں کے نظامِ زندگی کو اور اپنی منطق کو شریعت بنایا گیا۔ اسلام کو لانے کے لیے جب جب کوئی جماعت یا فرد کھڑا ہوا اس کو قتل کردیا گیا یا جیل میں ڈال دیا گیا ۔
اب اس کے بعد بھی اگر ہم اللہ کے عذاب کے مستحق نہ بنیں تو اللہ کی جانب سے نا انصافی ہوگی لیکن اللہ رحم و کرم کا بھی معاملہ کرتا ہے، ڈھیل بھی دیتا ہے اور فضل بھی کرتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قیامِ پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمان ماؤں اور شیر خوار بچوں کی جانی قربانیاں ہمارے اور عذابِ الٰہی کے بیچ میں آڑے آجاتی ہیں یا پھر لیاقت علی خان کے وہ آخر الفاظ جو انہوں نے مرتے دم ادا کیے تھےکہ، ” یا اللہ! پاکستان کی حفاظت کرنا”۔