تعلیم ،ریسرچ ، ٹیکنا لوجی کی ترقی سے کسی بھی قوم کے وقارکا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جو قومیں ان چیزوں میں پیچھے ہیں وہ ترقی کر سکتی ہیں اور نہ ہی دنیا کے لیے مثالی بن سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں ناخواندگی کی شرح خوفناک حدوںکو چھو رہی ہے اور اس وقت تقریباََڈھائی کروڑ بچہ بنیادی تعلیم سے محروم ہونے کے ساتھ اس شرح میں مزید تشویش ناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، جسے روکنے کی حکومتی کوششیںکہیں نظر نہیںآرہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے نوجوان پوری دنیا میں صف اول کے با صلا حیت شمارکیے جاتے ہیں ،اگرانہیں بنیادی تعلیم کے ساتھ جدید ٹیکنا لوجی ،حکومتی سرپرستی،حکام بالا کی حوصلہ افزائی مل جائے اور پھر ملک کے اندر ہی انہیں باعزت روزگار مہیا کیا جائے، تو ملک کے معاشی خدوخال اچھے ہو سکتے ہیں۔ لیکن معاملہ گزشتہ چار پانچ عشروں سے برعکس چل رہا ہے ۔
حکومت کواس کے لیے سرکاری اسکولوں میں معیار تعلیم کو بلند کرنا ہوگا،پہلے لیول سے تعلیم پرمکمل توجہ دینا ہوگی ۔ بہتر تعلیم کے ساتھ پر طلبہ کو پروان چڑھانا ہوگا ،تاکہ دنیا میں ایسے ذہین بچے تیار ہوں جن کا کوئی حریف نہ ہو۔ اس حوالے سے چین کی مثال ہمارے سامنے ہے اور ہم چین کے تعلیمی نظام سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔
ہم اکثر سوشل میڈیا پر ایسے نوجوان دیکھتے ہیں جو ٹیلنٹ سے مالامال ہوتے ہیں،لیکن وہ اپنے تابناک مستقبل کے لیے خود سنجیدہ نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کے مستقبل کو روشن کرنے کے لیے ریاستی مشینری متحرک دکھائی دیتی ہے۔ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے بعیدنہیں کہ ہر ایک نے یہ ویڈیو ضرور دیکھی ہوگی ،جس میں نوسالہ بچے کو دیکھاگیاتھا جو حیران کن صلاحیتوں کا مالک تھا،اس کی خوبی یہ تھی کہ وہ ماہر اسکیچر کی طرح سامنے کھڑے بندے کو ہوبہو کاغذ پہ اتار رہا تھا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے کان ، ناک،گال،بال آنکھیں غرضیکہ کسی بھی نقش میں غیر معمولی مماثلت سے پانچ منٹ میں انسان کا اسکیچ بنا کر دے دیا۔ اگراس کے بچے کو سرکاری سرپرستی مل جائے اور حکومت اس کی تعلیم کے اخراجات اٹھا لے تویہ بچہ آگے چل کراپنی صلاحیتوں سے دھماکہ کر دے گا ،لہذاایسے باصلاحیت ٹیلنٹ کی حفاظت کرناریاست کا فرض ہے، جس کے بعد ہی ملک کی ترقی کی راہیں ہموار ہوسکتی ہیں۔
اگر ایسا نہیں کیا گیا تو یقیناایسے کئی باہمت بچے زنگ آلود ہو مایوسی کی اتھا گہرائیوں میں گم ہو جائیں گے۔ ہم معیاری تعلیم کے قحط سے گزررہے ہیں، مگرالمیہ یہ بھی ہے کہ یہی طلبہ جن کا زمانہ طالب علمی کئی طرح کے چیلنجزوںسے گھرا ہوتا ہے، کالج ، یونیورسٹی کے دور سے انقلاب لانے کے خواب بننا شروع کردیتے ہیں،جبکہ انہیں نہیں بتایا جاتا کہ یہ کام ا سکول لیول سے شروع کرنا چاہیے تھا،طلبہ کی ذہنی پختگی کے لیے ان کو یہ نالج دینا بے حد لازمی ہے، جس کے نا ملنے سے وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ا سکول کی ابتدائی تعلیم ہی انقلابِ مستقبل کا باب ہے۔
پوری دنیا میں ٹیلنٹ کی قدر کرنے والے ممالک میں پاکستان کا 34 وان نمبر ہے،اس لحاظ سے ہم بہت سے ترقی پذیر ممالک سے بہت آگے ہیں۔ اگر ہم نے صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھایا اور ٹیلنٹ کی بے توقیری اسی طرح جاری رکھی تو وہ دن دور نہیں جب ہر شعبے میں نوجوان کاندھوں کا سہارا ملنا مشکل ہی ناممکن ہو جائے گا۔ تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی پر توجہ کے ساتھ طویل المیعاد معاشی امکانات کی پالیسیوں پر سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اب تک تقریباََ 50 فیصد باصلاحیت نوجوان باعزت روزگار کی تلاش میں یورپ اور عرب ممالک کا رخ کرچکے ہیںجس پر پاکستان کا مکمل حق تھا۔ ایسے باہمت ذہن، غیر معمولی صلاحیتوں سے مالا مال نوجوان، غیر ملکی ہڑپ کرتے جارہے ہیں۔ اور پاکستان میں باصلاحیت نوجوانوں کے قحط کا لامتناہی سحرا سامنے کھڑا ہے،جسے عبور کرنا آنے والے کئی سالوں میں ممکن نظر نہیں آتا۔
جیسے کسان بیج بوتا ہے،کونپل سر نکالتی ہے،کسان اس پہ محنت کرتا ہے اوراس کی خوب دن رات حفاظت میں جتا رہتا ہے،تب کسان اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اس اناج کو منڈی میں بیچ کر اس سے نفع حاصل کرے۔ہمارے ہاں کے بھی کچھ اس طرح کے ملتے جلتے مسائل قابل توجہ ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ غیر معیاری اسکولوں میں بچوں کی وہ عمرجس میں اسے قابل فخر شہری بناناہوتا ہے،
دیکھا گیا ہے کہ تعلیم کے میدان میںپوزیشنیںسب سے زیادہ متوسط اور پسے ہوئے غریب طبقے کے بچے بازی لے جاتے ہیں،جس کے بعدعدم توجہ کی وجہ سے ان باہمت نوجوانوں کے وقت کابے دریغ غلط استعمال ہوتا ہے ۔ حالت یہ آن پہنچی ہے کہ نوجوانوں میںریسرچ کا رجحان عنقاہوچکا ہے،بہت سے ڈگری ہولڈرزباکمال نوجوان غیر اخلاقی رویوں کا شکار ہیں اور یہ ہمارے ملک کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔
ا س سلسلے میں کوئی اگر کسی شعبے میں ترقی کر بھی جائے تو وہ تسلسل قائم نہیں رکھ پاتا۔ آگے چل کر وہ اپنی معیشت مظبوط کرنے کے لیے کرپشن کرے گا اورملک کو قومی وحدت کو زہر آلود کرے گا۔ ہمارا ملک کئی سالوں سے عدم مساوات،کرپشن،اقربا پروری جیسے مرض میں مبتلا بیماروں کا بوجھ سہ رہا ہے۔جب تک ملک کے سینے پہ یہ زخم موجود ہیں ،ہم اپنے بچوں کو معاشی ،سماجی ،معاشرتی صحت دے سکتے ہیں اور نہ ہی ہم ملک کو غیر معیاری تعلیم دینے والوں،کرپشن کرنے والوں کو لگام ڈال سکتے ہیں۔لہذا اس موذی مرض کا تریاق ڈھونڈنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ دنیا تعلیم کے معاملے میں لاپرواہی نہیں برت رہی،مگر ہمارے ہاں غیر ضروری امور میں طلبہ کی انوولمنٹ پر بہت زور دیا جاتاہے۔ایسی سرگرمیوں میں ان کو بے جا کھپادیاجاتاہے ،جن کاتعلیمی قابلیت میں کوئی عمل دخل ہوتاہے نہ ہی صحت کی وسعت میںبہتری کی توقع کی جاسکتی ہے۔ طلبہ میں صلاحیتیں لمیٹڈ ہوتی ہیں ،جو محدود وقت کے بعد یہ خوبیاں بے جان ہونے لگتی ہیں،اس عرصے میں ان طلبہ کی گرومنگ نہ کی گئی تو ان کے ٹیلنٹ کی سطح گرناشروع ہوجاتی ہے۔
اچھی تعلیم اچھی صحت کی ضامن ہے۔والدین بچوں میں عمر کی بڑوہتری کے ساتھ ساتھ ان میں خود اعتمادی پیداکریں،بہت سے والدین بچوںمیںانتہائی صلاحیت دیکھنے کے بعد معاشی ترقی کو نعمت کے طور پر بچوں کے سامنے پیش نہیں کرتے ،بلکہ وہ انہیں ناآشنا رکھتے ہیں۔بچوں کو بتایا جائے کہ والدین کی دولت پر انحصار بے کار ہے۔اسی طرح بہت سے والدین اپنے بچوں کی اچھی کارکردگی کے بعد مسرت کے دولفظ نہیں بولتے،ایسے والدین کو سمجھنا ہوگا کہ ان کے اس رویے سے بچوں کی معاشرت اور تعلیم پر کتنا برا اثر پڑ سکتا ہے ۔
ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں توازن کا نہ ہونا بہت متاثر کرتاہے،بچوں کو حوصلے سے ملنے والی انرجی ان کی نشونما اور صحت پر بھی اثرانداز ہوتی ہے،اگر ہم مشاہدہ کریں تو ہمارے بچے ذہنی بیمار یوں کا شکار نظر آئیں گے،اگر ہمیں انفرادی ،اجتماعی ،خاندانی زندگی میں طویل المیعاد معاشی امکانات پیداکرنے ہیں تو ہمیں مذکورہ آلودگیوں سے اپنی نسل کی حفاظت کرناہوگی،بصورت دیگر ہماری معیشت ،تعلیم اور صحت کا بیڑا غرق ہوجائے گااور ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔