حضرت آدم ؑ کاخلق،حضرت شیث ؑ کی معرفت،حضرت نوح ؑ کا جوش،حضرت ابراہیم ؑ کا ولولہِ توحید،حضرت اسماعیلؑ کا ایثار،حضرت اسحاقؑ کی رضا،حضرت صالحؑ کی فصاحت،حضرت لوط ؑ کی حکمت،حضرت موسیٰ ؑ کا جلال،حضرت ہارون ؑ کا جمال،حضرت یعقوب ؑ کی تسلیم ورضا،حضرت داؤد ؑ کی آواز،حضرت ایوبؑ کا صبر،حضرت یونس ؑ کی اطاعت،حضرت یوشع ؑ کا جہاد،حضرت دانیال ؑ کی محبت،حضرت الیاس ؑ کا وقار،حضرت یوسف ؑ کا حُسن، حضرت یحییٰ ؑ کی پاک دامنی،حضرت عیسیٰ ؑ کا ز’ہد جیسے کروڑھا اوصاف کو یکجاکیا جائے توسچوں کے سردار،صدیقوں کے بادشاہ، امینوں کے سرخیل،دیانتداروں کے سپہ سالارپیکر حسن وجمال حضرت محمدؐ کی شخصیت اور ذاتِ اقدس کا چاند سا چہرہ نظر آتا ہے،جن کی صداقت پر ان کے دشمن بھی اعتماد کرتے تھے،جن کی امانت ودیانت کا تذکرہ ان کے حاسدوں کی زبان پر بھی تھا۔ان کے خون کے پیاسے بھی انہیں صدیق وامین کے لقب سے یاد کرتے تھے۔
جن کی زبان نبوت ملنے سے پہلے بھی جھوٹ سے نہ آشنا ء تھی۔وہ کون سی صفت اور وہ کون سا کمال ہے ؟جو محبوبِ خدا،سرورِکائنات اور پیکرِاخلاق حضرت محمدؐ میں موجود نہیں تھا،حیا ء کا یہ عالم تھا کہ حضرت ابو سعیدخدریؓ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ؐ پردہ نشین کنواری عورت سے بھی زیادہ حیا دار تھے،تو اضع اور صلہِ رحمی کی اس منزل پر فائز تھے کہ ڈھونڈنے سے بھی کوئی مثال نہیں ملتی ہے،غلاموں اورخادموں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناکھالیتے،غریبوں کی عیادت فرماتے،فقراء کے ہمنشیں ہوتے،امتیازی شخصیت نہ اختیار فرماتے، ضعیفوں کا بوجھ خود اٹھالیتے،خوش اخلاقی کی یہ حالت تھی کہ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں دس سال تک حضور ؐ کی خدمت میں رہا، آپ نے مجھے کبھی اُف تک نہیں کہا،حضرت عبداللہ بن حارثؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی شخص کو حضورؐ سے زیادہ خوش اخلاق اور خوش مزاج نہیں دیکھا،شجاعت کے اس رتبے پر فائز تھے کہ جنگِ حنین میں جب مشرکوں کے سخت حملے کی تاب نہ لاکر مسلمان اِدھر ا’دھر بکھر گئے۔تو پیغمبرِ اعظم دشمنوں کوللکا رتے ہوئے خود میدانِ کا رزار میں مو جود رہے۔
عفودرگزرکی انتہا یہ تھی کہ فتحِ مکہ کے موقع پر اپنے خون کے پیاسوں، صحابہ پر مکہ کی زمین تنگ کرنے والے د رندوں، بلال وخبیب پر ظلم ڈھانے والے ظا لموں، سمیعہ اور یاسرکو شہید کرنے والے وحشیوں کو یہ کہہ کر معاف کردیا کہ’’آج تم پر کوئی الزام نہیں اللہ تم کو معاف کرے اور بے شک وہ رحم کرنے والوں میں سب سے بڑا رحم کرنے والا ہے‘‘۔حضرت حمزہ کی قاتل اور کلیجہ چبا نے والی ہندہ کومعاف کرکے عفودرگزر کی وہ اعلیٰ مثال قائم کی جو آج تک ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے، صبروشکر میں آپکا کوئی ثانی نہیں ہے،حضرت سیدہ عائشہؓ کے بقول بعض دفعہ ایک ایک ہفتہ تک گھر میں چولہا نہیں جلتا تھا،صرف کھجوروں اور پانی پر گزارہ ہوتا تھا مگر نبی اکرمؐ پھر بھی انتہائی صبر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتے،محبت وشفقت کا یہ عالم تھا کہ انسانوں کے علاوہ حیوانوں پر بھی آپ بہت شفیق تھے۔آپکی شفقت ومحبت کا نتیجہ تھا کہ جب حیوانوں پر ظلم ہوتا تو وہ بھی آپ کے پاس شکایت لے کر آتے، سچائی کی حالت یہ تھی کہ دشمن بھی آپ کے سچے ہونے کا اقرار کرتے تھے،جنگِ بدر میں احنس بن شریق نے ابوجہل سے پوچھا’’یہاں ہم دونوں کے علاوہ تیسرا کوئی نہیں ہے، سچ بتانا کہ محمدؐ سچاہے یا جھوٹا؟‘‘ (نغوذبااللہ) ابوجہل نے جواب دیا ’’.خداکی قسم! محمدؐسچ بولتا ہے، اور اس نے کبھی غلط بیانی نہیں کی‘‘۔
ایک اعرابی اپنے اوپر چادر ڈالے حاضر ہوا اور کہنے لگا’’آپ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں؟’’شاداب چہرے والے‘‘ صحابہ نے بتایا تو اعرابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا’’یامحمد صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ سچے نبی ہیں تو بتائیے کہ میرے پاس کون ہے؟ اگربتا دیا تو اسلام قبول کرلوں گا‘‘۔اعرابی نے ایمان لانے کا وعدہ کرلیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’سنو تم فلاں وادی سے گزر رہے تھے۔ تمہاری نظر فاختہ کے گھونسلے پر پڑی اس میں دو بچے تھے۔ تم نے پکڑلیے جب فاختہ نے گھونسلہ خالی دیکھا تووادی میں چاروں طرف اڑنے لگی۔ تمہارے سوا اسے کچھ بھی نظر نہ آیا تو فاختہ کو یقین ہوگیا کہ بچے تمہارے پاس ہیں۔ اپنے بچوں کی خاطر وہ تمہارے سامنے گرپڑی تو تم نے اُسے بھی دبوچ لیا‘ اس وقت دو بچے اور ان کی ماں تینوں تمہارے پاس ہیں‘‘۔ یہ سن کر اعرابی نے اپنی چادر اتار دی۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق تینوں پرندے اس میں موجود تھے۔ پھر کیا تھا؟ اعرابی کلمہ پڑھ کر ایمان لے آیا۔(مشکوٰۃ)۔
آپ کی نبوت کی صداقت و حقانیت کا ذکر آپ کی ولادت با سعادت سے پہلے بھی ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت و نبوتﷺسے ایک ہزار سال پیشتر یمن کا بادشاہ تْبّع خمیری تھا، ایک مرتبہ وہ اپنی سلطنت کے دورہ کو نکلا، بارہ ہزار عالم اور حکیم اور ایک لاکھ بتیس ہزار سوار، ایک لاکھ تیرہ ہزار پیادہ اپنے ہمراہ لئے ہوئے اس شان سے نکلا کہ جہاں بھی پہنچتا اس کی شان و شوکت شاہی دیکھ کر مخلوق خدا چاروں طرف نظارہ کو جمع ہو جاتی تھی، یہ بادشاہ جب دورہ کرتا ہوا مکہ معظمہ پہنچا تو اہل مکہ سے کوئی اسے دیکھنے نہ آیا۔ بادشاہ حیران ہوا اور اپنے وزیر اعظم سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس شہر میں ایک گھر ہے ،جسے بیت اللہ کہتے ہیں، اس کی اور اس کے خادموں کی جو یہاں کے باشندے ہیں ،تمام لوگ بے حد تعظیم کرتے ہیں اور جتنا آپ کا لشکر ہے اس سے کہیں زیادہ دور اور نزدیک کے لوگ اس گھر کی زیارت کو آتے ہیں اور یہاں کے باشندوں کی خدمت کر کے چلے جاتے ہیں، پھر آپ کا لشکر ان کے خیال میں کیوں آئے۔ یہ سن کر بادشاہ کو غصہ آیا اور قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں اس گھر کو کھدوا دوں گا اور یہاں کے باشندوں کو قتل کروا دوں گا، یہ کہنا تھا کہ بادشاہ کے ناک منہ اور آنکھوں سے خون بہنا شروع ہو گیا اور ایسا بدبودار مادہ بہنے لگا کہ اس کے پاس بیٹھنے کی بھی طاقت نہ رہی اس مرض کا علاج کیا گیا مگر افاقہ نہ ہوا، شام کے وقت بادشاہ ہی علماء میں سے
ایک عالم ربانی تشریف لائے اور نبض دیکھ کر فرمایا، مرض آسمانی ہے اور علاج زمین کا ہو رہا ہے، اے بادشاہ! آپ نے اگر کوئی بری نیت کی ہے تو فوراً اس سے توبہ کریں۔
بادشاہ نے دل ہی دل میں بیت اللہ شریف اور خدام کعبہ کے متعلق اپنے ارادے سے توبہ کی، توبہ کرتے ہی اس کا وہ خون اور مادہ بہنا بند ہو گیا، اور پھر صحت کی خوشی میں اس نے بیت اللہ شریف کو ریشمی غلاف چڑھایا اور شہر کے ہر باشندے کو سات سات اشرفی اور سات سات ریشمی جوڑے نذر کئے۔پھر یہاں سے چل کر مدینہ منورہ پہنچا تو ہمراہ ہی علماء نے جو کتب سماویہ کے عالم تھے وہاں کی مٹی کو سونگھا اور کنکریوں کو دیکھا اور نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت گاہ کی جو علامتیں انھوں نے پڑھی تھیں، ان کے مطابق اس سر زمین کو پایا تو باہم عہد کر لیا کہ ہم یہاں ہی مر جائیں گے، مگر اس سر زمین کو نہ چھوڑیں گے، اگر ہماری قسمت نے یاوری کی تو کبھی نہ کبھی جب نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں گے ہمیں بھی زیارت کا شرف حاصل ہو جائے گا ورنہ ہماری قبروں پر تو ضرور کبھی نہ کبھی ان کی جوتیوں کی مقدس خاک اڑ کر پڑ جائے گی جو ہماری نجات کے لئے کافی ہے۔یہ سن کر بادشاہ نے ان عالموں کے واسطے چار سو مکان بنوائے اور اس بڑے عالم ربانی کے مکان کے پاس حضور کی خاطر ایک دو منزلہ عمدہ مکان تعمیر کروایا اور وصیت کر دی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو یہ مکان آپ کی آرام گاہ ہو اور ان چار سو علماء کی کافی مالی امداد بھی کی اور کہا کہ تم ہمیشہ یہیں رہو اور پھر اس بڑے عالم ربانی کو ایک خط لکھ دیا اور کہا کہ میرا یہ خط اس نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کر دینا اور اگر زندگی بھر تمھیں حضور کی زیارت کا موقع نہ ملے تو اپنی اولاد کو وصیت کر دینا کہ نسلاً بعد نسلاً میرا یہ خط محفوظ رکھیں حتٰی کہ سرکار ابد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جائے یہ کہہ کر بادشاہ وہاں سے چل دیا۔وہ خط نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس مین ایک ہزار سال بعد پیش ہوا کیسے ہوا اور خط میں کیا لکھا تھا؟سنئیے اور عظمت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان دیکھئے:’’کمترین مخلوق تبع اول خمیری کی طرف سے شفیع المزنبین سید المرسلین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اما بعد: اے اللہ کے حبیب! میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور جو کتاب اپ پر نازل ہو گی اس پر بھی ایمان لاتا ہوں اور میں آپ کے دین پر ہوں، پس اگر مجھے آپ کی زیارت کا موقع مل گیا تو بہت اچھا و غنیمت اور اگر میں آپ کی زیارت نہ کر سکا تو میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے روز مجھے فراموش نہ کرنا، میں آپ کی پہلی امت میں سے ہوں اور آپ کے ساتھ آپ کی آمد سے پہلے ہی بیعت کرتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور آپ اس کے سچے رسول ہیں۔‘‘شاہ یمن کا یہ خط نسلاً بعد نسلاً ان چار سو علماء کے اندر حرزِ جان کی حیثیت سے محفوظ چلا آیا یہاں تک کہ ایک ہزار سال کا عرصہ گزر گیا، ان علماء کی اولاد اس کثرت سے بڑھی کہ مدینہ کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہو گیا اور یہ خط دست بدست مع وصیت کے اس بڑے عالم ربانی کی اولاد میں سے حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور آپ نے وہ خط اپنے غلام خاص ابو لیلٰی کی تحویل میں رکھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی اور مدینہ کی الوداعی گھاٹی مثنیات کی گھاٹیوں سے آپ کی اونٹنی نمودار ہوئی اور مدینہ کے خوش نصیب لوگ محبوب خدا کا استقبال کرنے کو جوق در جوق آ رہے تھے اور کوئی اپنے مکانوں کو سجا رہا تھا تو کوئی گلیوں اور سڑکوں کو صاف کر رہا تھا اور کوئی دعوت کا انتظام کر رہا تھا اور سب یہی اصرار کر رہے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اونٹنی کی نکیل چھوڑ دو جس گھر میں یہ ٹھہرے گی اور بیٹھ جائے گی وہی میری قیام گاہ ہو گی، چنانچہ جو دو منزلہ مکان شاہ یمن تبع خمیری نے حضور کی خاطر بنوایا تھا وہ اس وقت حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی تحویل میں تھا، اسی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی جا کر ٹھہر گئی۔ لوگوں نے ابو لیلٰی کو بھیجا کہ جاؤ حضور کو شاہ یمن تبع خمیری کا خط دے آؤ جب ابو لیلٰی حاضر ہوا تو حضور نے اسے دیکھتے ہی فرمایا تو ابو لیلٰی ہے؟ یہ سن کر ابو لیلٰی حیران ہو گیا۔ حضور نے فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں، شاہ یمن کا جو خط تمھارے پاس ہے لاؤ وہ مجھے دو چنانچہ ابو لیلٰی نے وہ خط دیا، حضور نے پڑھ کر فرمایا، صالح بھائی تْبّع کو آفرین و شاباش ہے۔سبحان اللہ!
اعلان نبوت کے چند روز بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھے کہ انہیں ایک گھر میں سے کسی کے رونے کی آواز آئی۔ آواز میں اتنا دردتھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے۔دیکھا تو ایک نوجوان جو کہ حبشہ کا معلوم ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زارو قطار رو رہا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ میں ایک غلام ہوں۔سارا دن اپنے مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو، میرا مالک مجھے گندم کی ایک بوری پیسنے کے لیے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے۔ میں اپنی قسمت پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے؟ میں بھی تو ایک گوشت پوست کا انسان ہوں۔ میرا جسم بھی آرام مانگتا ہے مجھے بھی نیند ستاتی ہے لیکن میرے مالک کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہیں آتا۔کیا میرے مقدر میں ساری عمر اس طرح رو رو کے زندگی گزارنا لکھا ہے؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں تمہارے مالک سے کہہ کر تمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتا،کیوں کہ وہ میری بات نہیں مانے گا،ہاں میں تمہاری تھوڑی مدد کرسکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیستا ہوں۔ وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کرکے سو گیااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسکی جگہ چکی پیستے رہے، جب گندم ختم ہوگئی تو آپ اسے جگائے بغیر واپس تشریف لے آئے۔ دوسرے دن پھر آپ وہاں تشریف لے گئے اور اس غلام کو سلا کر اسکی جگہ چکی پیستے رہے۔ تیسرے دن بھی یہی ماجرا ہوا کہ آپ اس غلام کی جگہ ساری رات چکی پیستے اور صبح کو خاموشی سے اپنے گھر تشریف لے آتے۔
چوتھی رات جب آپ وہاں گئے تو اس غلام نے کہا، اے اللہ کے بندے آپ کون ہو؟ اور میرا اتنا خیال کیوں کر رہے ہو؟۔ہم غلاموں سے نہ کسی کو کوئی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوئی فائدہ۔تو پھر آپ یہ سب کچھ کس لیے کر رہے ہو؟؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں یہ سب انسانی ہمددری کے تحت کر رہا ہوں اس کے علاوہ مجھے تم سے کوئی غرض نہیں، اس غلام نے کہا کہ آپ کون ہو؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں علم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے؟اس غلام نے کہا ہاں میں نے سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمدﷺ ہے اپنے آپ کو اللہ کا نبی کہتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں وہی محمدﷺ ہوں۔یہ سن کر اس غلام نے کہا کہ اگر آپ ہی وہ نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھائیے ،کیوں کہ اتنا شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہوسکتا ہے جو غلاموں کا بھی اس قدر خیال رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کلمہ پڑھا کر مسلمان کردیا۔حضورؐ حسنات وکمالات کا اعلیٰ ترین مرقع تھے۔آپ حُسن وجمال میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے زیادہ خوبصورت کسی کو نہیں دیکھا۔
حضرت جابربن سمرہ کہتے ہیں کہ حضورؐ کا چہرہ آفتاب ومہتاب جیسا تھا۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ چاند سے تشبہہ دینا بھی کوئی انصاف ہے چاند کے چہرے پر چھائیاں مدنی کا چہرہ صاف ہے حضرت حسانؓ کہتے ہیں،میری آنکھ نے آپ سے زیادہ حسین کبھی دیکھا ہی نہیں آپ سے زیادہ جمیل کسی ماں نے جنا ہی نہیں،کسی شاعر، کسی مفکر نے حضرت جبرائیل ؑ کے جذبات کی ترجمانی کچھ اس طرح کی ہے ’’میں کائنات کا کونہ کونہ پھرا ہوں،میں نے مشرق ومغرب کی سیاحت کی ہے، میں نے حسن وجمال کے اعلیٰ شاہکار دیکھے ہیں،میں نے ایسے بھی دیکھے ہیں، جن کے حسُن کی بتوں کی طرح پرستش ہوتی ہے لیکن آمنہ کے لال کے رخِ انور کو دیکھا تو میں اس نتیجے پرپہنچا کہ آپ انوکھے اور بے مثال حسُن کے مالک ہیں‘‘۔
محسنِ انسانیت وہ رسولِ ہاشمی ہیں،جنہوں نے ہمیں خد ا سے ملوایا. جنہوں نے انسانوں کو خدا کا جلوہ دکھایا۔جنہوں نے فلک کی بلندی،زمین کی پستی،رات کی تاریکی،دن کی روشنی، سورج کی چمک،جگنو کی دمک،ذرہ کی پرواز اور قطرہ کی طراوت میں عرفانِ ربانی کی سیر کرائی جن کی تعلیم نے درندوں کو چو پانی،بھیڑیوں کوگلہ بانی،راہزنوں کو جہا ں بانی،غلاموں کو سلطانی اور شاہوں کو ا خو انی سکھائی،جنہوں نے خشک میدانوں میں علم و معرفت کے دریا بہائے،جنہوں نے اونٹوں کے چرواہوں کو زمانے کا امام بنایا،جو غریب کے محب،مسکین کے ساتھی،غلاموں کے محسن یتیموں کے سہارا،بے آسروں کا آسرا،بے خانماؤں کے ماوی،دردمندوں کی دوا اور چارہ گروں کے دردمند تھے،آپ کواپنی امت سے بہت محبت تھی،ہر وقت،ہرلمحہ، ہر گھڑی اور ہر آن اپنی امت کی فکر رہی پیغمبر ِ اعظم کو جس حالت میں دیکھیں امت کی فکر تھی، رات کی خلوتوں میں امت کی فکر،دن کی جلوتوں میں امت کی فکر،مکہ اور مدینہ میں امت کی فکر،بدروحنین میں امت کی فکر،صحت وتندرستی میں امت کی فکر،بڑھاپے اور بیماری کی حالت میں امت کی فکر،فرش پرامت کی فکر،معراج پر امت کی فکر،دنیا میں امت کی فکر،دنیا سے جانے کے بعد بھی امت کی فکر،قیامت کے ہولناک منظر میں جب انبیاء اکرام نفسی نفسی کہہ ر ہے ہوں گے توآقائے دو جہاں،سردار کون ومکاں شفیع عاسیاں امتی امتی کہہ رہے ہوں گے.جذبہ ایمانی کاتقاضہ ہے کہ ہم بھی اپنے پیارے رسول ؐسے اپنی جان ومال،اولاد اور ہر چیز سے بڑھ کر محبت کریں اپنی زندگی کو اطاعتِ رسول میں گزاریں اور یہی کامیابی کا راستہ ہے۔