آجکل ملک کے نام ور دانش وآگہی کے مجسم، انور مسعود رویائے خودساختہ کو یوں بیان فرما رہے ہوتے ہیں جیسے نعوذ باللہ الہامی خواب ہوں،ایسے خواب اکثر الہامی نہیں بلکہ’’ الحامی‘‘ہوتے ہیں،دوست سے انور مسعود کے الحامی خواب کا تذکرہ کیا تو پوچھنے لگا کہ الہامی تو سنا تھا یہ الحامی کون سے خواب ہوتے ہیں تو سوچا کہ اپنے قارئین کے لئے بھی الحامی کی تشریح کردی جائے تو بہتر ہوگا۔
الحامی سے مراد ایسے خواب جو چکن کھا کھا کر آنکھوں پر لحم(گوشت)چڑھنے کے بعد دیکھے جائیں تو انہیں الحامی خواب نہیں کہیں گے تو اور کیا کہیں گے۔انور مسعود کے خواب میں آنے والی معزز،معتبر اور عمررسیدہ ہستیوں کا سن کر ایک بات کی تسلی تو ہوگئی ہے کہ اب انہوں نے اپنے آپ کو بزرگ تسلیم کر لیا ہے۔تسلیم سے مراد یہاں ماننا ہی لیا جائے،کوثر وتسنیم کی ہمشیرہ ہرگز نہیں۔
اقبال،قائد اور غالب کے خوابی تذکرہ کے بعد میری رگِ ظرافت نے بھی انگڑائی لیتے ہوئے قلم میرے ہاتھ میں تھما دیا کہ کیوں نا انور کے خواب کے چرچہ کا چربہ بنا کر عظیم ہستیوں سے ایک ملاقات ہی فکس کر لی جائے۔ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ یوں لگا جیسے انور بھائی (جو کہ اب ’’بائی‘‘ہی لگتے ہیں)منہ چڑاتے ہوئے فرما رہے ہوں کہ یہ منہ اور مسور کی دال،میں نے عمر اور سفید بالوں کی حیا کرتے ہوئے بس اتنا کہنا ہی مناسب سمجھا کہ مسور کی بجائے مسعود کرلے تو بہتر رہے گا۔
باقاعدہ ناراضگی اور خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے گویا ہوئے کہ ہماری بلی اور ہمیں کو میائوں۔میاں کے لفظ کی لب کشائی فرماتے ہی چہرہ کا رنگ ایک دم سے زرد ہوگیا کہ کہیں نیب والے اس جرم میں ہی نا دھر لیں کہ تم بھی’’میاں‘‘کے دوست ہو۔حالانکہ میں صرف اپنی بیوی کا ہی’’ میاں ‘‘ہوں۔اڑی ،اڑی سی رنگت دیکھتے ہی میں نے دست بستہ عرض کیا کہ جناب دل گرفتہ نہ ہوں، بلی اسی کی جس کے ’’میاں‘‘۔کہنے لگے کہ وہ تو آجکل خود گرفت میں ہیں ۔اور نیب کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل رچا رہے ہیں تاہم اس کھیل میں ابھی تک یہ راز فاش نہیں ہوا کہ چوہا کون ہے اور بلی کون؟
چوہے بلی کاکھیل کوئی نیا گیم نہیں ہے پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد ہی جب کبھی کسی پارٹی کو گیم چینچ کی ضرورت پڑی یا نظریہ ضرورت کا اطلاق کرنا چاہا اسی کھیل کا سہارا لیا گیا۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ عوام کے ساتھ تو اب تک یہی گیم کھیلا جا رہا ہے۔بلکہ یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ اس کھیل کو ہمارے سیاستدان قومی کھیل بنا کر قوم کے ساتھ ۷۲ سالوں سے کھیل رہے ہیں۔پاکستان میں اس کھیل کے نتائج کا اندازہ لگانا اس لیے بھی مشکل ہے کہ لیاقت علی خان کے قتل سے رحیم شاہ کے ٹک ٹاک تک ہمارا عدالتی نظام منہ چڑا رہا ہے کہ ہم سا ہو تو سامنے آئے،اسی لیے ماسوا سیاستدانوں کے کوئی عدالتوں کا سامنا نہیں کرتا کیونکہ کوئی بھی عدالتوں کی طرح کا نہیں ہے۔
عدالتی اور شاہی نظام میں کوئی فرق نہیں ہوتا ،میرے ملک کا عدالتی نظام کچھ ایسا ہے کہ جنگل میں ہرسو شور بپا تھا کہ بادشاہ چوہے کی تلاش میں ہے،جنگل کے سب جانور جدھر کو منہ اٹھتا(جیسے ہمارے سیاستدان جدھر کی ہوا،ادھر ہی ادا)بھاگے جارہے تھے ۔بھاگنے والوں میں ہاتھی پیش پیش تھا ،ایک بندر نے ہاتھی کو روکتے ہوئے پوچھا کہ ہاتھی میاں تم کیوں بھاگ رہے ہو ،تم کوئی چوہے تھوڑی ہو۔ہاتھی نے کہا کہ بادشاہ کو یہ بات کون سمجھائے گا،اور اگر میرا کیس عدالت میں چلا گیا تو مجھے یہ ثابت کرنے کے لئے کہ میں چوہا نہیں ہاتھی ہوں اتنا عرصہ لگ جائے گا کہ میں اس وقت تک چوہا بن چکا ہونگا۔
بات خواب میں عظیم ہستیوں سے ملاقات کی ہو رہی تھی کہ میں نے دیکھا کہ تختِ طائوس پر تشریف فرما علامہ اقبال پوچھنے لگے کہ میرے نوجوانوں کا کیا حال ہے؟میں نے صدقِ مقال سے کام لیتے ہوئے عرض کیا کہ حضور خوب مزے میں ہیں۔کہنے لگے بڑوں کا احترام کرتے ہیں کہ نہیں،ایک بار پھر دست بستہ عرض کیا کہ سر !ادب واحترام کا عالم یہ ہے کہ ’’پب جی‘‘اور’’فائیو جی‘‘کے علاوہ کسی کو بھی ’’جی‘‘کہہ کر پکارنے سے قاصر ہیں۔
انسٹاگرام کا استعمال شب وروز بغرض ثواب کرتے ہیں۔ہاں جب ماں کہہ دے کہ بیٹا بازار سے 1000گرام چاول لادو تو پریشان ہوتے ہوئے گویا ہوتے ہیں کہ اماں میں بابا کی طرح سرکاری ملازم تھوڑی ہی ہوں جو اتنا ’’وزن اٹھائوں ‘‘گا۔اقبال نے ایک گہری سانس لی اور پوچھنے لگے کہ کتابوں سے ان کا شغف کیسا ہے،تو جواباًعرض کیا کہ فیس بک کے علاوہ انہیں کوئی بھی بک اچھی نہیں لگتی،آپ کے اشعار میں متذکر سحر گاہی کا پوچھ لیں تو اپنی کلاس فیلو’’سحر‘‘سے داستان عشق کے قصے شروع کر دیتے ہیں۔اور تو اور آپ کے شاہین صفت نوجوان اب ’’مسرت شاہین‘‘کا گیٹ اپ دھارے چٹانوں کی بجائے پڑوس کی منڈیروں پر آشیانہ بنائے شاہینہ کی تاک میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔
یکا یک اقبال کے چہرے کا رنگ بدلنا شروع ہوگیا، اور کہنے لگے کہ نوجوانوں نے اپنے آپ کو اب تک نہیں بدلا،میں نے بدلتے ہوئے چہرے کے تاثرات دیکھتے ہوئے کھڑے ہوکر دست بستہ عرض کیا کہ حضور آج کے نوجوانوں نے تو اپنے آپ کو اتنا بدل لیا ہے کہ بس’’ صنف ‘‘بدلنا ہی باقی ہے،وگرنہ ظاہری شباہت سے تو صنف نازک ہی دکھائی دیتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ نوجوانوں کا یہ حال سن کر اقبال اتنا رنجیدہ ہوئے کہ ایک اشک ندامت ان کی چشمِ حیا سے پھسل کر دائیں رخسار پر آجما،اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ مراد تم تو ایک استاد ہو تم بتائو میرے نوجوان ایسا کیوں کرتے ہیں؟ تو میں نے عرض کیاکہ سر وہ مجھ سے بھی’’استادی‘‘کرجاتے ہیں۔کہتے ہیں بننا سنورنا ہمارا جمہوری حق ہے ،اچھا ایسا ہے تو پھر وطن کی خاطر کون لڑے گا؟سر انتہائی معذرت کے ساتھ لڑنے جھگڑنے کا کام ہم نے اپنے سیاستدانوں کو دے رکھا ہے۔
کیونکہ اچھا سیاستدان اسی کو سمجھا جاتا ہے جو سب کو سناتا ہو مگر کسی ایک کی بھی نہ سنتا ہو۔کہتے ہیں سیاستدان سارا دن جھوٹ بولتے ہیں،نہیں ایسا ہرگز نہیں کیونکہ کبھی کبھار انہیں اپنی بیوی سے بھی واسطہ پڑتا ہے۔جس کا بیوی سے واسطہ پڑجائے اس کا جھوٹ سے کبھی واسطہ نہیں رہتا۔سیاستدانوں کی حالت زار سنتے ہی اقبال ہکے بکے رہ گئے،پوچھنے لگے کہ اصنافِ نظم ونثر سے واقفیت نہیں رکھتے کیا؟میں نے پھر سے عرض کیا کہ صنف میں صرف’’صنفِ نازک‘‘سے ہی واقفِ حال ہیں۔
قائد جو سکوتِ بحر کی سی خامشی اختیار کیے ہوئے اب تک بیٹھے ہوئے تھے ایک دم چلائے کہ اس کا مطلب ہے میں نے جو احسان پاکستان کی صورت میں ان پرکیا انہیں اس کا بھی کوئی پاس نہیں۔جی حضور میں نے بھی ایک دن اپنی کلاس میں آپ کے احسانات کی فہرست اپنے طالب علموں کے سامنے رکھتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان عظیم قائد کا ہم پراحسان ہے تو ایسے میں ایک نوجوان اٹھا اور نہایت غیرسنجیدہ لہجے میں کہنے لگا کہ سر ہم نے قائد کا آدھا احسان(اشارہ مشرقی پاکستان کی طرف تھا)اتار دیا ہے جو ملکی حالات چل رہے ہیں (میرے منہ میں خاک)بقیہ آدھا بھی اتار دیں گے۔
یہ سب سنتے ہی قائدنے اپنی بارعب اورگرجدار آواز میں فرمایا، there is no power on earth that can undo pakistan ،میں نے بھی موقع کو غنیمت جانا اور کھڑے ہوتے ہوئے بآواز بلند نعرہ لگایا کہ پاکستان زندہ باد, جواب میں موجود سب عظیم ہستیوں نے بھی پاکستان کے لیے ایک نعرہ زیست بلند فرمایاکہ پاکستان پائندہ باد۔