’’جانتا ہوں کہ غریب طبقہ معاشی مشکلات کا شکار ہے،مہنگائی کا بوجھ کم آمدنی والے افراد کو اٹھانا پڑتا ہے،حکومت خاموش تماشائی نہیں رہ سکتی،ریلیف کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے ،عوام کو سہولت دینے کے لیے ہر حد تک جائیں گے،ہر آپشن آزمائیں گے‘‘۔ وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے یہ جملے کہے۔ اجلا س میں وفاقی وزراء سمیت حکومت کے معاشی ، تجارتی ہٹلر بھی موجود تھے۔ وزیر اعظم نے نئے سوشل میڈیا قوانین کے مقاصد کو عوام کا محافظ قرار دیا اور کہا کہ سوشل میڈیا کے قوانین کی عملداری پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیر اعظم کا وژن درست ہے ،مگر اقتدار میں آنے کے بعد جس ٹیم کا انہوں نے انتخاب کیا اس نے نہ خود کچھ کیا نہ وزیر اعظم کو کچھ کرنے دیا، جس کی وجہ سے عوام کی موجودہ حکومت سے جڑی تمام امیدیں دم توڑ تی جارہی ہیںاور لوگ مہنگائی،بے روزگاری کے بڑھنے سے مایوسی کا شکار ہیں۔
ہمارے ایک رفیق نے بتایا کہ حکومت کی قرض اتارنے والی ہنگامی مہموں کی وجہ سے اس کے گھر پر مہنگائی کا بہت برا اثر پڑاہے۔ اس نے بہت درد بھرے جملوں میں کہا کہ پہلے ہم دوبھائی مل کر دس گیارہ افراد پر مشتمل کنبے کاپورے مہینے کا گزر بسر آرام سے کر لیتے تھے، ایک بھائی فیکٹری ورکر ہونے کی وجہ سے دیہاڑی دار ہے، جسے دن کے پانچ یا چھ سو دیہاڑی ملتی ہے۔ لیکن حکومت نے جس طرح سے تاجروں پر سختیاں کی ہیں،جس کی وجہ سے تاجربرادری نے کاروباری مندی کے خوف سے میلیں ،فیکٹریاں بند کرنا شروع کردی ہیں، سول ورکروں کے سروں پر نوکری ختم ہونے کی تلوار لٹکتی رہتی ہے۔اس کا کہنا تھا کہ نہ حکومت کی اٹھارہ ماہ کی کارکردگی اطمنان بخش ہے ،نہ عوام اس کی پالیسیوں سے خوش نظر آتے ہیں۔ ملیں بند چکی ہیں، بے روزگار بڑھ چکی ہے۔
حکومت نے تبدیلی کے نام پر عوام کا جینا اجیرن کر دیا ہے۔ اندرونی مسائل کم ہونے کےبجائے زیادہ ہورہے ہیں، جس کی وجہ سے عوام کاوہ طبقہ جو ووٹ دے کر تبدیلیاںلانے پر خوش تھا،وہ بھی اپنے کیے پر نادم نظر آتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹرز میں جو مزدور دیہاڑی دار کام کرتے ہیں، ان کے لیے گھر کا چولہا گرم رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ حکومت کو تو چاہیے تھا کہ ملکی دولت لوٹنے والوں سے پیسا واپس لاکر عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کرتی مگر اس مشن میں بھی سوائے مایوسی کے کچھ ہاتھ نہ آیا۔
حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں ،پٹے ہوئے معیشت دانوں کی کاندھو ں پر تکیہ کرنا اندھے کے ہاتھ میں کار دینے کی مترادف ہے۔جنہوں نے انتہائی کم عرصے میں ملکی تاریخ کا ریکارڈ قرضہ لیا۔ جبکہ عوام کی حالت یہ ہے کہ 2019 میں دس کروڑ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، 42 فیصد دوقت کی روٹی کے لیے پریشان ہے۔اس کے برعکس حکومت تین ماہ، چھ ماہ میں حالات سدھارنے میں ناکامی کے بعد تسلیوں ، گھبرانا نہیںکی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے۔ مختلف حیلوں بہانوں سے عوام پر نت نئے ٹیکس لگائے جارہے ہیں، تاکہ حکومت بیرونی قرضوں کی مد میں سود واپس کرکے دوبارہ قرضہ حاصل کر سکے۔
پاکستان کی تاریخ میں قرضوں کی وجہ سے حکومت پرجو واجب الادا سودکی رقم عائد ہوتی ہے وہ بڑھتے بڑھتے اربوں کھربوں میں ہو چکی ہے ۔ قرضے کی مد میں لیا جانے والاسود حکومت ہر شہری سے ٹیکس کی شکل میں وصول کرتی ہے، جس کا صاف مطلب ہے کہ ناچاہتے ہوئے بھی ہر پاکستانی معیشت کے استحکام اور قرضے اتارنے کے لیے سود دیتاہے۔
خان صاحب نے عوام سے ایک عہد یہ کیا تھا کہ ملک کے کرپٹ سیاست دانوں، مافیاز کو نچوڑ کر غریب عوام سے لوٹا گیاپیساواپس لائیں گے۔ ایک وزیرصاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ان کی پارٹی اقتدار میں آئی تو ہر طرف شہد کی نہریں بہیں گی اور آئی ایم ایف کا قرضہ اس کے منہ پر دے ماریں گے۔ مگر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ قرضہ لینے کے لیے اسی آئی ایم ایف کی قدم بوسی کی جانے لگی،جسے موجودہ حکومت دروغ جہنم سمجھتی تھی۔ عوام نے یہ بھی دیکھا کہ کالا دہن واپس لانے ، کرپٹ لیڈروں کی تجوریاں توڑکر ملکی خزانہ بھرنا بھی سراب ہو ا، ایک کروڑ نوکریاں ،پچاس لاکھ گھر وں کا وعدہ بھی بھلا دیا گیا۔
خان صاحب نے عوام سے یہ بھی وعدہ کیا تھاان کی پہلی ترجیح پسے ہوئے غریب طبقے کی بحالی ہوگی، اس لیے انہوں نے صوبہ پنجاب میں وزیراعلیٰ کی سیٹ پر ایسے شخص کا انتخاب کیا جو غریبوںکے حالات کا باخوبی ادراک رکھتا ہو۔ لیکن ملک کا سب سے بڑا صوبہ محرومیوں کی اتھا گہرائیوں میں ڈوباہواہے۔ کسانوں کے ساتھ صنعتی زیادتیاں کی جارہی ہیں۔ زراعت میں صوبہ پنجاب ملک کی مجموعی اقتصادی کا 80 فیصد بوجھ برداشت کرتا ہے اور پنجاب کا کسان حکومت سے زراعتی ریلیف کا خواہاں ہے، مگر کھاد ،اسپرے اور دوسرے زراعتی پیکجز پر کسان کو کوئی سبسٹی نہیں دی گئی ہے۔ پچھلے اٹھارہ ماہ میں زراعت کا شعبہ بھی دوسرے شعبوں کی طرح زوال پذیر ہے۔
اب ملک کا ایک اکثریتی آبادی والا صوبہ ایسے انسان کے ہاتھ میں دے دینا نالائقی کے سوا بھلا کیا ہوسکتا ہے ۔ حکومت کا سب سے زیادہ ووٹ بینک پنجاب تھا، جہاں سے اس نے نون لیگ کو اؤٹ کرتے ہوئے بہترین وکٹری حاصل کی تھی، پھرکیا وجہ ہے کہ اسی صوبے میں وزیر اعظم صاحب کے وسیم اکرم پلس ایک بھی کامیاب وکٹ نہیں لے سکے ؟کہ جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکے کہ خان صاحب کی ٹیم کم بیک کررہی ہے۔
نتائج تسلی بخش نہیں ہیں۔ اربا ب اقتدار اپنے وعدے پورے کریں اور عوام کے لیے حقیقی ریلیف پیکجز جن کا فائدہ براہ راست عوام تک پہنچے ان کااجرا کرے تاکہ عوام کی مایوسیاں ختم ہوں۔اس گمبھیر صورت حال میں محض18 ارب روپے کا ریلیف پیکج عوام سے مذاق ہے۔