آپ قرآن کا مطالعہ کرلیں آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کوئی بھی قوم کیوں تباہ و برباد ہوتی ہے؟ اگر آپ اس غلط فہمی میں ہیں کہ ان کی تباہی کی وجہ صرف اور صرف خدا کی نافرمانی اور رسول خدا کی اطاعت سے فرارتھی، تو آپ بالکل غلط ہیں۔ اگر کوئی قوم صرف اس لئے تباہ ہوتی ہے کیونکہ وہ خدا اور رسول کی نافرمان بن جاتی ہے یا خدا کی ذات کا انکار کر بیٹھتی ہے تو آپ یقین جانیے اب تک امریکہ، روس، چین، جاپان اور یورپ پر خدا کا عذاب نازل ہو چکا ہوتا۔
لیکن آپ کمال ملاحظہ کریں کہ نہ صرف یہ قومیں دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہی ہیں، بلکہ خدا کی اس کائنات پر حق حکمرانی بھی جتا رہی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ محض خدا کی نافرمانی اور رسول خدا کی عدم اطاعت سرے سے وہ جواز ہی نہیں ہے، جس کی وجہ سے دنیا میں کسی بھی قوم کو تباہ کردیا جائے، بلکہ اصل میں تو یہ اللہ تعالی کی سنت ہی نہیں ہے کہ کسی قوم کو اس لئے صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمان تھی۔
سورۃ البقرہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنی اولاد اور ذریت کے لئے امامت کی دعا مانگی، تو اللہ تعالی نے فوری جواب دیا کہ امامت صرف صالحین کو ملے گی۔ اللہ تعالی کے اسی جواب کو پیش نظر رکھتے ہوئے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے صرف اپنی صالح اولاد اور ذریت کے لئے رزق کی دعا مانگی تو اللہ تعالی نے جواب دیا کہ “دنیا کی زندگی کا تھوڑا رزق تو میں سب کو ہی دوں گا”۔
دنیا میں کسی بھی قوم کی تہذیب، روایات، زبان، ثقافت اور مذہب کے غلبے کا تعین دراصل اس کے اخلاق اور کردار سے ہوتا ہے۔ اس قوم کے اندر تعمیری صلاحیتیں کتنی ہیں اور تخریب کتنی ہے؟ دنیا کے کسی بھی “باشعور” ملک اور شہر میں لوگ اسی کو منتخب کرتے ہیں، جو ان کے ملک اور شہر کی تعمیر کو ترجیح دے گا ،نہ کہ تخریب کو، تو آپ کے خیال میں کیا اللہ تعالی نعوذباللہ اس نام نہاد “باشعور” قوم سے بھی گیا گزرا ہے کہ وہ اپنی اس حسین و جمیل اور خوبصورت کائنات کو ان نااہل لوگوں کے حوالے کر دے گا ؟ جن کے لیے اقبال نے فرمایا تھا کہ!
جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن تم ہو
قوم شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی کی بنیادی وجوہات میں سے اہم ترین وجہ ناپ تول میں کمی اور لوگوں کے ساتھ بدتمیزی اور بداخلاقی تھی، حضرت صالح علیہ السلام کی قوم بنیادی طور پر اس لئے تباہ ہوئی کیونکہ اس قوم میں 9 بدمعاش تھے، جو ہر برے کام عمل، بگاڑ اور تخریب کے کاموں میں پیش پیش رہتے تھے اور پوری قوم ثمود ان کی پشت پناہ ہوتی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی قوم میں ہم جنس پرستی کی جو برائی در آئی تھی، وہ یقینا آج کی قوموں میں بدرجہاں زیادہ ہے لیکن اگر آپ ان کے تعمیری کاموکی شرح نکالیں گے تو وہ یقینا ہم جنس پرستی سے زیادہ ہی نکلیں گے۔ حضرت ہود علیہ السلام کی قوم کی جس خرابی کا بار بار قرآن نے ذکر کیا ہے وہ اپنے کمزوروں پر زیادتی اور بڑوں پر نرمی تھی۔
کسی بھی قوم کی ترقی اور تنزلی کی دوسری بڑی اور اہم وجہ بحیثیت قوم اور ریاست غلط کاموں، بداخلاقی اور بدکرداری پر اتر آنا ہے۔ مسلمانوں کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ لوگ ان کے انفرادی اعمال دیکھ دیکھ کرمسلمان تو ہو رہے ہیں، لیکن آپ دلچسپ امر ملاحظہ کیجئے کہ یہ تمام لوگ رہنا اور زندگی بسر کرنا ان ہی ریاستوں میں چاہتے ہیں، جو پکے کافروں اور خدا سے بد کے ہوئے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ ان ریاستوں میں رہ کر اسلام کی دعوت دینے والے اور انہی ریاستوں میں اسلام قبول کرنے والوں کے لیے اس کرہ ارض پر کوئی “مدینہ” جیسی اسلامی، فلاحی اور آئیڈیل ریاست موجود نہیں، جہاں پر وہ اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بلکہ اس کے بہت بعد بھی حتی کہ مغلوں تک کے دور میں بھی غیر مسلم رعایا اسلامی ریاستوں میں رہنا ٹھیک اسی طرح اپنا فخر سمجھتی تھی، جس طرح آج مسلمان غیر مسلم ریاستوں میں رہنا اپنا فخر سمجھتے ہیں۔
آپ بہت اچھے، آپ کے اخلاق بہت اچھے، آپ پاکباز اور باکردار ہیں تو آپ سمیت آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرنے والے لوگ اپنا ٹھکانہ وہاں بنانے کی فکر کیوں کرتے ہیں جو “خدا کے نافرمان” اور “اخلاقی زوال کا شکار” لوگ ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ آج مسلمان انفرادی اور اجتماعی سطح پر بحیثیت قوم اور بحیثیت ریاست بھی اتنے زوال کا شکار ہوچکے ہیں کہ ان کا مجموعی کردار میں بہرحال وہ “کافروں” کا مقابلہ کرنے تک سے قاصر ہیں۔ آپ اندلس سے لے کر بغداد اور دہلی سے لیکر ڈھاکہ تک کے زوال کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جب آپ اخلاقی طور پر تنزلی کا شکار ہوئے تو دنیا کے غلبے اور اقتدار کی رسی آپ کے ہاتھ سے پھسلنا شروع ہوگئی اور آپ کی جگہ ان لوگوں کو اقتدار اور غلبہ نصیب ہوا جو آپ سے زیادہ اس کائنات میں تعمیر و ترقی کے شوقین اور دلدادہ تھے۔
سراج الدولہ کی صبح دوپہر دو بجے ہوتی تھی اور ہندوستان میں موجود برطانیہ کے لارڈز اس وقت اپنے قیلولہ کی تیاریاں کر رہے ہوتے تھے۔ آج بھی سارے یورپ، چین اور جاپان میں بازار، مارکیٹیں اور دکانیں صبح پانچ بجے کھل جاتی ہیں اور میرے ملک کا تاجر دوپہر دو بجے اپنی دکان کا شٹر جمائیاں لیتے ہوئے اٹھتا ہے۔ آپ انفرادی طور پر شاید اچھے پڑوسی ہوں بھی تو بھی آپ کی ریاست برے پڑوسی کے طور پر دنیا میں جانی جاتی ہے، جبکہ جاپان اورسنگا پور کا چور بھی اپنی ریاست کی وجہ سے چوری کرتے ہوئے ڈرتا ہے، کیونکہ اس کی ریاست ایک انصاف پسند ریاست ہے۔ جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے مسلمان پروفیسر حسین عسکری کی ہی تحقیق کے مطابق “اسلامی اقدار” کو اپنانے والی قوموں میں آئرلینڈ پہلے نمبر پر براجمان ہے، جبکہ مزید 37 ممالک کسی بھی دوسرے مسلمان ملک کے مقابلے میں اس فہرست میں آگے ہیں۔ اسی لیے اقبال نے کہا تھا!
یہ مسلمان ہیں، جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر اور یورپ کے کلیساؤں سےلےکر افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں تک اذانیں دینے والوں کی اب زبانیں تک گنگ ہو چکی ہیں۔
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاؤں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
قہاری وغفاری وقدوسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلماں
ایسے مسلمان کو آنکھیں ڈھونڈنے کے باوجود تلاش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہم زوال کے آخری حدوں کے بھی آخر میں پہنچ چکے ہیں۔ صفائی ستھرائی، ناپ تول میں کمی، بداخلاقی، بدکرداری، دھوکے بازی، جھوٹ، فریب، سستی، کاہلی اور جمود کا شکار قوم سے کسی تعمیر کی توقع رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ آپ کبھی سڑک پر نکل جائیں “مدینہ گوشت والے” سے لے کر “مکہ چپل والے” تک اور “صادق بریانی والے” سے لے کر “امین کباب ہاؤس” تک 90 فیصد سے زیادہ لوگ آپ کو بے ایمان ہی ملیں گے۔ اور اس کے بعد ہم توقع رکھتے ہیں کہ آسمان سے رحمتیں اتریں گی؟ ایسے کرتوتوں کے ساتھ رحمتیں نہیں عذاب کے فرشتے اترتے ہیں اور وہی ہم پر اتر بھی رہے ہیں۔
یاد رکھیں آپ کے اکیلے کی نیکی بھی اس وقت تک بے وقعت ہے، جب تک آپ کی ریاست ایماندار، دیانتدار، انصاف پسند اور نیکو کار نہیں بن جاتی ورنہ دوسری صورت میں آپ لوگوں کو کلمہ پڑھواتے رہیں اور یورپ کے ویزے لگاتے رہیں، ذہن میں رہے کہ فرد سے زیادہ ریاست اہم ہوتی ہے۔