اکیسویں صدی کے آغاز سے ہی سال کے اکثر ایام کو مختلف واقعات سے جوڑ کر عالمی سطح پر منایا جاتا ہے ۔جن میں زیادہ تر تہوار ایسے ہیں جو معاشرے کو بڑی تیزی سے تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔تباہی کی طرف دھکیلتے ہوئے ان تہواروں میں یہ دو تہوار ہالووین اور ویلنٹائن ڈے بھی شامل ہیں ۔ہر گزرتے سال کے بعد ان تہواروں کو منانے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے ۔مغرب کی دیکھا دیکھی مشرقی اور اسلامی ممالک میں بھی ان تہواروں کی حقیقت جانے بغیر ان کوزور و شور سے منایا جا رہا ہے۔ہالووین اور ویلنٹائن ڈے یہ دو تہوار ہر سال اکتوبر اور فروری میں منائے جاتے ہیں۔
ہالووین کی حقیقت:
ہالووین (Halloween)امریکہ میں منایا جانے والا ایک تہوار ہے ۔اس تہوار کے بارے میں تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے، جہاں سیلٹک قبائل ہر سال 31 اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے۔ ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔ موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا۔ سیلٹک قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے کی رات یعنی 31 اکتوبر کی رات کو دنیا میں انسانوں اور بری ارواح کے درمیان ایک پردہ موجود ہوتا ہے، جو انسانوں کو ان بری ارواح سے محفوظ رکھتا ہے، ان کے خیال میں موسم ِ گرما کے اختتام پر یہ پردہ بہت باریک ہو جاتا ہے، اس پردے کے نازک ہونے کے سبب اس بات کا امکان بہت بڑھ جاتا ہے کہ یہ بری اروح دنیا میں آکر انسانوں، مال، مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان بد روحوں کو خوش کرنے کے لیے سیلٹک قبائل 31 اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے۔ اس موقع پر وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے اور اپنے سروں کو جانوروں کے سینگوں سے سجاتے تھے۔تاکہ ان کو ایسے دیکھ کر بدروحیں خوش ہو جائیں اور وہ ان پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔31 اکتوبر کو جب تاریکی پھیلنے لگتی ہے اور سائے گہرے ہونا شروع ہوجاتے ہیں تو ڈراؤنے کاسٹیوم میں ملبوس بچوں اور بڑوں کی ٹولیاں گھر گھر جاکر دستک دیتی ہیں اور trick or treat کی صدائیں بلند کرتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ہمیں مٹھائی دو، ورنہ ہماری طرف سے کسی چالاکی کے لیے تیار ہو جاؤ۔ گھر کے مکین انہیں ٹافیاں اورچاکلیٹیس دے کر رخصت کر دیتے ہیں۔
ویلنٹائن ڈے کی حقیقت:
اس دن کے ساتھ بہت ساری کہانیاں اور روایات منسوب کی جاتی ہیں ۔لیکن جو زیادہ معروف اور مستند مانی جاتی ہے وہ یہ ہے: تیسری صدی عیسوی میں ’’ویلنٹائن ‘‘ نام کا ایک پادری تھا ۔جو ایک راہبہ(نن) کی محبت میں گرفتار ہو گیا۔چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبات کے لیے نکاح ممنوع تھا۔ اس لیےایک د ن ویلنٹائن نے اپنی محبوبہ کی تشفی کے لیے اسے بتایا کہ اسے خواب میں یہ بتایا گیا ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اس میں اگر کوئی راہب یا راہبہ صنفی ملاپ کریں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جائے گا۔راہبہ نے اس کی بات کا یقین کر لیا اور وہ دونوں اس حد سے گزر گئے۔کلیسا کی روایات کی یوں دھجیاں اُڑانے پر ان کو سزائے موت کا حکم سنا یا گیا ۔اس واقعے کے بعد آزادخیال رکھنے والے لوگوں نے ویلنٹائن کو شہیدِمحبت کے درجہ پر فائز کر دیا اور اس کی یاد میں یہ دن منانا شروع کر دیا۔
یہ تھی ان دونوں تہواروں کی بے معنی اور بے مقصد حقیقت ۔جس کو جاننے کے بعد کوئی بھی شعور رکھنے والا انسان ان تہواروں کو منانے کی حمایت نہیں کر سکتا۔گزشتہ چند سالوں سےپاکستان میں ان دونوں تہواروں کو منانے کی کھلم کھلا ترغیب دی جارہی ہے ۔ویلنٹائن ڈے کے ساتھ ساتھ اب ہالووین کے تہوار کو بھی معاشرے میں ہوا دی جا رہی ہے ۔یہ تہوار اب ایک بہت بڑی کا روباری سرگرمی کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ کاروباری شعبے نے بھی ہالووین اور ویلنٹائن سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے کاسٹیوم اور ان سے متعلقہ بہت سی چیزیں مارکیٹ میں لانا شروع کردی ہیں۔ یہاں تک کہ اب یہ تہوار اربوں ڈالر کے بہت بڑے ثقافتی تہوار بن چکے ہیں۔
گزشتہ دو تین سالوں سے ہالووین سے متعلقہ سامان بھی مارکیٹ میںایک ماہ پہلے سے ہی دستیاب ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہا ہےاور ہمارا معاشرہ اس سازش کو کامیاب بنانے میں برابر کا شریک ہے۔ اس کی تشہیر میں پرنٹ میڈیا اور الیکڑونک میڈیا کو بھرپور طریقے سے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ان دو تہواروں کے دن میڈیا پر خصوصی ٹرانسمیشن چلا کر یہ باور کروانے کی کوشیش کی جاتی ہے، جیسے کہ یہ مسلمانوں ہی کے تہوار ہوں۔میڈیا کے ذریعے ان تہواروں کو جس طرح لوگوں کی زندگیوں میں شامل کیا جا رہا ہے ۔آج اس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے مسلم معاشرے کے لوگ اپنی روایات ،تہذیب،مذہب ہر چیز کو پسِ پشت ڈال کر ان تہواروں کوہر صورت منانے کے لیے ہزاروں دلائل پیش کرتے ہیں ۔
ہالوین اور ویلنٹائن ڈے منانے کے حوالے سے پیش کیے جانے والے دلائلــ:
جیسے کہ ہالووین ایک سیزنل تہوار ہے اسے منانے سے کیا ہو گا ؟اگر بچےایک دن انجوائے کر لیتے ہیں تو کیا حرج ہے؟ویلنٹائن ڈے کے دن اگر خاوند اپنی بیوی کو ازراہِ محبت پھول پیش کر ے یا بیوی اپنے شوہر کو محبت آمیز کلمات کہہ دے تو اس میںآخر حرج کیا ہے ؟یہ محبت کے اظہارکا دن ہے، تو اس پہ پابندی کیوں لگائی جائے ۔انسانی زندگیوں میں نفرتیں اسقدر زیادہ ہو چکی ہیں، اگر ایک دن محبت کے نام کر دیا تو اس میں کیا برائی ہے ؟یہ وہ تمام دلائل ہیں جو ان تہواروں کو منانے اور ان میں شرکت کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔ بظاہر دیکھا جائے تو ان سارے دلائل میں کوئی برائی نہیں ۔لیکن کبھی کسی نے یہ سوچا کہ ان دلائل سے معاشرے میں ان تہواروں کو منانے کے بڑھتے ہوئے رحجان سے آئندہ سالوں میں آنے والے نتائج کتنے خوفناک ہیں۔ان دلائل سے ان تہواروں کو منانے کی ترغیب دینےسے معاشرے میں کیسی برائیاںجنم لیتی ہیں۔
افسوس کے ہم مسلمان ہوتے ہوئےایسے بہت سے نازک معاملات کے بارے میں نہیں جانتے کہ ہمیں ایسی صورت ِ حال میں کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ۔اللہ اور اس کے رسول کی پسند نا پسند کا خیال کیے بغیر سوچے سمجھے ٹرینڈ اور انجوائے منٹ کے نام پہ ایسےتہواروں کی تقلید کرتے چلے جاتے ہیں۔ٹرینڈ اور انجوائنمنٹ میں ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہم اللہ کو ناراض کر رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ اہل ِایمان کی خاصیت سورہ البقرہ کی آیت نمبر 165میں فرماتے ہیں کہ ’’وہ اللہ سے محبت کرنے میں شدت پسند ہوتے ہیں‘‘۔اس آیت کو پڑھنے کے بعد سوچئیے کیا ہم ایسے اہل ِایمان ہیں؟جس طرح ہمارا دین زندگی کے دوسرے معاملات میںہماری رہنمائی کرتا ہے اسی طرح اس معاملے میں بھی خاموش نہیں۔
غیر مسلم تہواروں کی شرعی حیثیت:
عرب میںبتوں کے ناموں پر بھی عرس منائے جاتے تھے ۔مگر آپؐ نے ان کی پوجا پاٹ اور نذر ونیاز وغیرہ کے لیے کبھی ان میں شرکت نہ فرمائی بلکہ آپ نے چونکہ مشرکانہ عقائد کی سخت تردید فرمائی اور فتح مکہ کے بعد ان تمام بتوں کو نذر آتش کروا دیا، اس لیے یہ مذہبی عرس اور تہوار بھی اپنی موت آپ مر گئے۔ان تہواروں کے حوصلہ شکنی میں آپ کتنے حساس تھے، اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایاجا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ آپ کے پاس ایک صحابی آئے اور کہنے لگے کہ میں نے ’بوانہ‘ نامی مقام پر اونٹ ذبح کرنے کی منت مانی ہے (کیا میں اسے پورا کروں؟) آپ ؐنے فرمایا: کیا دورِ جاہلیت میں وہاں کسی بت کی پوجا تو نہیں ہوا کرتی تھی؟ اس نے کہا نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا ” کیا وہاں مشرکین کے تہواروں /میلوں میں سے کوئی تہوار تو منعقد نہیں ہوا کرتا تھا؟“ اس نے کہا! نہیں۔ تو آپ نے فرمایا کہ ”پھر اپنی نذر پوری کرو کیونکہ جس نذر میں اللہ کی نافرمانی کا عنصر پایا جائے اسے پورا کرنا جائز نہیں۔“ (ابوداوٴد؛۳۳۱۳)
گویا آپ نے سائل سے جو دو باتیں پوچھیں، یہ دونوں گناہ کی صورتیں تھیں اور اگر ان میں سے کوئی ایک صورت بھی ہوتی تو آپ نے اس صحابی کو اپنی نذر پوری کرنے سے ضرور منع کردینا تھا۔ گویا غیر مسلموں کے تہواروں کو منانا تو بہت دور کی بات، جہاں وہ تہوار منایا کرتے تھے، وہاں کوئی ایسا کام کرنا جو ان کی مشابہت کا شک پیدا کرے وہ بھی آنحضرت کے نزدیک جائز نہیں۔
نبی ؐ نے فرمایا تھا!جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے (سنن ابو داود:4031)
ایسے تہوار اسلام میں غیر مسلموں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے حرام ہیں۔آج ہم جس طرح ان تہواروں کو منانے میں پیش پیش ہیں۔ایسے وقت کے لیے ہی نبیؐ نے فرمایاتھا ! ’’تم اپنے سے پہلی امتوں کی ایک ایک بالشت اور ایک ایک گز میں اتباع کرو گے ،یہاں تک کے اگر وہ کسی گوہ کے سوراخ میں داخل ہوئے ہوں گے تو تم اس میں بھی اس کی اتباع کرو گے ۔‘‘ صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا یہود و نصاریٰ مراد ہیں؟فرمایا پھر اور کون۔(بخاری:7320)
ان احادیث کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایسے تہوار غیر مسلموں سے مشابہت کی وجہ سے بالکل حرام ہیں۔
لیکن افسوس کے ساتھ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں مغرب کی ہر غلط صحیح بات اپنانے کو اپنا ایمان سمجھنے والے ہمارے ایکڑ ،ایکڑیسیس اور میڈیا ان تہواروں کو اپنانے اور خوشنما بنا کر دیکھانے میں پیش پیش ہیں۔لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ موجودہ دور کا مسلمان انہی کو اپنا مرشد مان بیٹھا ہے ایکٹر اور ایکٹریسیزز جو کچھ کر رہے ہیںہم بغیر سوچے سمجھے تفریح کے نام پران کی پیروی کرتے ہوئے اپنی آخرت برباد کیے جا ر ہےہیں۔افسوس کے ساتھ اب یہ تہوار صرف ٹی وی سکرین تک محدود نہیں رہے ۔بلکہ سکول ،کالج اور یونیورسٹیز میں خاص طور پر ہالووین اور ویلنٹائن ڈے کو پورے اہتمام سے منایا جاتا ہے ۔اسکولز میں ڈیکوریشن اور آرٹ کے نام پر ہالووین اور مغرب تہواروں کی نمائندگی کرنے والے بہت سے کردار دیواروں پر سجے نظر آتے ہیں۔
ان تہواروں کے دن خاص طور پررات دیر تک پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔ان تہواروں میں رات دیر تک ہونے والی پارٹیز کی آرڑ میں نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں اکٹھا کرنا صرف اور صرف نوجوانوں کو بے حیائی اور گناہ کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔مغربی تہواروں کو فروغ دینے کے لیے مسلم معاشروں میںخاص طور پر شاپنگ مالز کوخوب سجایا جاتا ہے تاکہ عوام سجاوٹ کی چکا چوند میں گم ہو کراپنے اس اہم مقصد کو چھوڑ دے، جس کے لیے اسے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ان تہواروں کے دن کھانے اور پہننے کی اشیا پر خاص طور پر ڈسکائونٹ دیا جاتا ہے ، جس کا مقصد ہرخاص اور عام طبقے کے نوجوان کو ان تہواروں کو منانے کی ترغیب دینا ہے۔
ان بے مقصد اور فضول تہواروں کو پاکستان میں فروغ دینے کے پیچھے صرف ایک ہی مقصد پوشیدہ ہے وہ ہے نوجوانوں میں فحاشی پھیلانا اور ان کو ایسے تہواروں میں الجھائے رکھنا جن میں الجھ کروہ حقیقی مقصدِ حیات کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیںاور آسانی سے بے مقصدیت کا شکار ہو تے رہیں۔یاد رکھیے مغرب کا ہمیشہ سے مسلمانوں کو زوال میں دھکیلنے کا یہی ہتھیار رہا ہے کہ نوجوانوں میں فحاشی کو پھیلا کر مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی سازشوں کو کامیاب بنایا جائے ۔ صلاح الدین ایوبی نے بھی یہی فرمایا تھا!’’اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اس کے نوجوانوں میں فحاشی پھیلا دو‘‘۔مسلمانوں کے زوال کی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جب جب مسلمانوں نے اپنے دین کو پسِ پشت ڈالااور عیاشیوں میں پڑ گئے ، تب تب وہ دینی ،اخلاقی اور علمی لحاظ سے زوال پذیر ہو ئے۔دین کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے ہی آج معاشرے میں پڑھے لکھے جاہلوں کی تعداد زیادہ ہے، کیونکہ ہم دینی لحاظ سے عمل میں بہت کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔
حکومت کے کرنے کے کام:
2002اور2008 میں سعودی پولیس نے ویلنٹائن کے حوالے سے کسی بھی چیز کی فروخت پر پابندی لگا دی،اس پابندی نے وہاں ایک کالابازار(بلیک مارکیٹ) بنا دی جہاں ویلنٹائن کے پھول اور دیگرچیزیں ملتی تھیں۔2012میں مذہبی پولیس نے 140مسلمانوں کو یہ تہوار مناتے ہوئے پکڑا اور دوکانوں پر فروخت ہوتے تمام پھول قبضے میں لے لیے ۔سعودی عرب میںمسلمان یہ تہوار نہیں منا سکتے جبکہ غیر مسلم اسے اپنے گھروں میں مناتے ہیں ۔سعودی حکومت کی طرح پاکستانی حکومت کو بھی اس اسلامی ریاست میں ایسے تہواروں کی روک تھام کے لیے ایسا قانون بنا کر نافذ کرنا چاہیے ۔
ہمارے کرنے کے کام:
بحیثیت مسلمان دنیا کے کسی خطے میں بھی ہوتے ہوئے ہمیں ایسے تہواروں کا نہ صرف بائیکاٹ کرنا چاہیے بلکہ ان تہواروں کے خلاف پوری تحریک چلانی چاہیے ۔ایک دوسرے کو ان تہواروں کے آنے سے پہلے ہی آگاہ کرنا چاہیے خاص طور پر کم پڑھے لکھے طبقے کوجو ایسے معاملات کے بارے میں اسلامی تعلیمات سے بالکل نہ واقف ہیں ۔ہم سب کو ایسی جگہوں پہ جہاں ان مغربی تہواروں کی تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہو ہر گز نہیں جانا چاہیے۔
ٹی وی پرایسے تہواروں سے متعلق کوئی بھی پروگرام نہیں دیکھنا چاہیے ۔تاکہ میڈیا کو پروگرام کی ریٹنگ سے عوام کی ناپسندیگی کا اندازہ ہو سکے ۔اس کے علاوہ سوشل میڈیا پہ ان تہواروں سے متعلق کسی بھی تصویریا ویڈیو کو لائک یا شئیر نہ کیا جائے۔ان سے متعلق کسی بھی چیز کو ہر گز نہ خریدا جائے نہ کسی کو تحفے میں ان تہواروں سے متعلق کوئی چیز دی جائے۔ان تہوار وںکے حوالے سے خاص طور پر والدین کو اپنے نوجوان بچوں کو روکنے کی ضرورت ہے ۔ٹرینڈ اور انجوائمنٹ کے نام پر سب سے پہلے نوجوان ہی ایسے تہواروں کا شکار ہوتے ہیںاور انجوائمنٹ کے نام پر ماں باپ ہی سب سے پہلے اولاد کے دھوکے کا شکار ہوتے ہیں۔نوجوان کسی ملک و قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں ایسا سرمایہ جو وقت اور حالات کا رُخ بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔دنیا کی ابتدا سے لے کر آج تک جتنے بھی نرم اور گرم انقلابات رونما ہوئے ہیں۔ان کا ہر اول دستہ نوجوان ہی رہے ہیں۔
عام لوگوں کے مقابلے میں نوجوان تہواراور انجوائمنٹ کے نام پر بچھائے جانے والے جال میں جلدی پھس جاتے ہیں۔عصر حاضر کے والدین کی اس حوالے سے دوہری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مغرب کی طرف سے نوجوانوں کے لیے پھیلائے گئے ایسے جالوں میں پھنسنےسے بچائیں۔اگر ہم یورپ کی بات کریں تو یورپ میں ان تہواروں کو آوارہ نوجوانوں کی عیاشی سے منسوب کیا جاتا ہے اور ان غیر اسلامی معاشرے میں بھی عوام کی اکثریت ان تہواروں کو غلط سمجھتی ہے ۔والدین کو چاہیے کے وہ اپنے نوجوان بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔تاکہ اسلام اور پاکستان کی حفاظت کی جا سکے ۔