90 دن نہیں، سو دن نہیں، سال نہیں پورے ڈیڑھ سال کے بعد وزیر اعظم پاکستان کے علم میں یہ بات آئی کہ مہنگائی کے ہاتھوں ان کے عوام ان کے سامنے ہاتھ جوڑے، سر کو زمین پر ٹکائے اور ناک رگڑ رگڑ کر اس بات کی دہائی دے رہے ہیں کہ حضور ہمارے قصور معاف فرمائیں، نہ جانے کیوں ہم نے آپ کو اپنا نجات دہندہ جان کر اپنا دین دھرم سب آپ کے حوالے اس لئے کردیا تھا کہ آپ ملک کی دولت لوٹنے والوں کی چیخیں اور کراہیں نکال کر رکھ دیں گے اور قوم کی لوٹی ہوئی دولت کو واپس حکومتِ پاکستان کے خزانوں میں جمع کراکے ہمارے لئے اشیائے ضروریہ کو نہ صرف ارزاں کر دیں گے، بلکہ اتنے ترقیاتی کام جاری کریں گے کہ ہمارے لئے 100 لاکھ نوکریاں اور بے چھتوں کیلئے 50 لاکھ گھر کا انتظام بھی ہو جائے گا۔
لیکن آپ نے تو لگی لگائی روزی بھی چھین لی، کاروبار بھی تباہ کر دیئے، گھروں کو مسمار کرکے کھلے آسمان کے نیچے بھی نہیں ٹھہرنے دیا، ہم اپنے پیٹوں میں گھاس پھوس اور پتھر بھر کر بھوک کے شدید احساس کو مٹانے پر مجبور ہو گئے اور اب تو لگتا ہے کہ شاید قبر میں جاکر ہی کچھ سکون کی نیند آ سکے۔ چیخیں چوروں اور ڈاکوؤں کی کیا نکلتیں، آسمان تو غریبوں کی چیخوں اور آہوں سے لرز رہا ہے اور لگتا ہے کہ جب تک پاکستان کے 22 کروڑ عوام آہ و بکا کرتے کرتے مر نہیں جائیں گے، اس وقت تک آپ کے ظلم و جبر کا یہ چرخہ تھمنے کا نام نہ لےگا۔
حیرت اس بات پر نہیں کہ پورا پاکستان مہنگائی کے ہاتھوں خود کشی پر مجبور نظر آنے لگا ہے، افسوس اس بات پر ہے کہ جس انسان کو بجلی کے فی یونٹ 8 روپے عوام پر ظلم لگتے تھے، اس کو 20 روپے فی یونٹ بھی کم دکھائی دے رہا ہے، جو گیس کا بل جلا کر مہنگائی کی دہائی دیتا تھا، اسے گیس کی قیمت میں 4 گنا اضافہ بھی بھلا محسوس ہو رہا ہے، پٹرول کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ بھی حکمران کا چور ہونا لگا کرتا تھا، اسے 40 روپے کا اضافہ بھی کم لگ رہا اور ڈالر کی قیمت میں ایک روپیہ بڑھ جانے کو جو کھربوں روپوں کا قرض بڑھ جانا تصور کیا کرتا تھا، اسے 60 روپے تک کا اضافہ بھی برا کیوں نہیں لگ رہا؟
ٹیکسوں میں اضافے پر اضافہ، اشیائے ضروریہ کی ہر چیز یہاں تک کے ادویات کی قیمتوں میں بھی پچھلی حکومت کے مقابلے میں زمین و آسمان کا فرق پیدا کر دینے کے باوجود بھی جس کو آج سے چند دن پہلے تک مہنگائی نظر آنے کی خبر تک نہیں تھی، بلکہ جو ہر مرتبہ عوام کی کھال کھینچنے کے بعد یہی کہتا نظر آتا تھا کہ “آپ کو گھبرانہ نہیں ہے”، اسے اچانک کس نے احساس دلادیا کہ عوام مہنگائی کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں اور خود کشیاں تک کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ روزگار کے مواقع بڑھنے کی بجائے بے روزگاری کا ایک طوفان بپا ہے، ملیں اور کارخانے بند ہو گئے ہیں، جمے جمائے کاروبار اجڑ چکے ہیں، بازار کے بازار مسمار ہو چکے ہیں، لوگوں سے نہ صرف ان کی چھتیں چھین لی گئی ہیں بلکہ ان سے ان کے زندہ رہنے کا حق تک چھین کر انھیں مرجانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
مجھے اس بات سے کوئی سر و کار نہیں کہ اجلاس پر اجلاس کیوں طلب کئے جارہے ہیں؟ وزرا کی کھنچائی پر کھنچائی کیوں ہو رہی ہے؟ اپنی ہی معاشی و انتظامی ٹیم پر عدم اعتماد کا اظہار کیوں کیا جارہا ہے؟ اپنی ہی کابینہ کے سامنے ہاتھ جوڑ کر اس بات کی خوشامد کیوں کی جارہی ہے؟ کہ خدا کیلئے کچھ بھی کرو لیکن مہنگائی کا علاج کرو اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لاؤ۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مہنگائی، یہ قیمتوں کا آسمان کی بلندیوں تک کا چھو جانا، یہ ٹیکسوں میں اضافہ، یہ گیس، بجلی اور پٹرول کی قیمتوں کا بڑھ جانا، یہ ڈالر کی عمودی پروازیں اور یہ جان سے ماردینے والے مصنوعی بحران، سب کچھ راتوں رات برس پڑے تھے، جس کی پیش گوئی پاکستان کا کوئی بھی ادارہ نہیں کر رہا تھا۔
پاکستان کے میڈیا سے اس بات کا شکوہ تو دن رات کیا جاتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف الزام تراشیاں کرتا رہتا ہے، یہ تک کہا گیا کہ اگر اخبارات نہ پڑھے جائیں اور ٹی وی چینلز نہ دیکھیں جائیں،تو پاکستان میں عوام کو سب کچھ اچھا ہی دکھائی دے گا۔ یہ باتیں اس بات کے ثبوت کیلئے کافی ہیں کہ اربابِ اختیار اور تختِ حکومت پر بیٹھے حکمران ساری باتوں اور عوام کی بے کیفیت سے خوب اچھی طرح واقف تھے، لیکن وہ تمام تر چیخ و پکار سننے کے باوجود بھی یہ ماننے کیلئے تیار نہیں تھے کہ ایسا سب کچھ عوام کے ساتھ ظلم و زیادتی میں شمار ہوتا ہے۔ ان کے خیال میں عوام “جناب” کو اتنی دیوانگی کے ساتھے چاہتے اور پسند کرتے ہیں کہ اگر ان کی کھال کھینچنے کے بعد ان کی ہڈیوں سے گوشت تک بھی اتار لیں گے تو وہ اف تک نہیں کریں گے اور “گھبرانہ نہیں” کا نعرہ مستانہ سن کر وہ مزید اپنے آپ کو حاضر کرکے یہ کہتے نظر آئیں کہ
ستم گر آ اپنا ہنر آزمائیں
تو تیر آزما ہم جگر آزمائیں
اگر دیانتدارانہ تجزیہ کیا جائے تو جس انداز میں مہنگائی کے جن نے بے قابو ہوکر لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا تھا، اس کا عشرہ عشیر بھی اگر گزشتہ حکومتوں میں سے کوئی ایک حکومت بھی کر گزرتی تو یہی عوام ان سب کو سر کے بالوں سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹ رہے ہوتے، لیکن موجودہ حکومت کی تمام تر نالائقیوں کے باوجود لوگ اب تک یہی خیال کرتے رہے کہ شاید اگلے دن کا سورج ان کیلئے کوئی آسانی کی خبر لائے۔ عوام کی اسی خاموشی نے حکمرانوں کو اتنا بے حس بنادیا کہ وہ یہ بھول ہی گئے ان سے کوئی پوچھنے والا دنیا میں کوئی اور بھی ہے۔
گزشتہ چند دنوں سے ایوانِ اقتدار میں عجیب سے کھل بلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ عوام تو خیر مہنگائی کے ہاتھوں چیخ و پکار کر رہے تھے لیکن یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے ہے کہ ایوان اقتدار سے کس قسم کی چیخ و پکار بلند ہو رہی ہے۔ ہر صاحبِ مسند نشین ہر دوسرے صاحبِ مسند نشین سے کیوں بگڑا ہوا ہے؟ یہ مخالفین پر کرپشن کے الزامات لگانے والے ایک دوسرے کو چور چور کیوں کہہ رہے ہیں؟ یہ پاک صاف، ایماندار، متقی اور پرہیزگار لوگ ایک دوسرے کے گریبانوں میں جھانک جھانک کر ایک دوسرے کو بے لباس کرنے میں کیوں مصروف نظر آنے لگے ہیں؟ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ کون ہے جس نے ان کو یہ احساس دلایا ہے ؟کہ تمہارے ایوانوں کے در و دیوار کے چاروں جانب غربت و افلاس کے مارے دہائیوں دیتے پھر رہے ہیں۔ بھوک کے ستائے اپنے آپ کو یا تو سر عام بیچنے پر مجبور ہو چکے ہیں یا اپنی زندگیوں کو اپنے ہی ہاتھوں ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
جس دن سے “تبدیلی” والی حکومت آئی ہے، اس دن سے مارکیٹ کے ریٹ ہر ایک سیکنڈ کے بعد اوپر کی جانب محوِ پرواز ہیں اور جس میڈیا کے متعلق ان کی رائے یہ ہے کہ میڈیا ان کے خلاف زہر اگل رہا ہے، وہی میڈیا ان کو پل پل بدلتی کیفیت اور حالات سے حکومت کو مسلسل آگاہ کر رہا ہے لیکن تختِ حکومت پر بیٹھا کوئی فرد بھی یہ بات ماننے کیلئے تیار و آمادہ دکھائی ہی نہیں دیا کہ ملک میں مہنگائی کا جن بے قابو ہو چکا ہے، ذخیرہ اندوزوں نے اشیائے ضروریہ کا بحران پیدا کر دیا ہے۔ زندگی کے سانسوں کو بحال رکھنے والے والی تمام اشیا غریبوں کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں اور لوگ سخت حیران و پریشان ہیں کہ وہ اپنی آنکھوں میں خوشحالی کے سجے خوابوں کو لے کر جائیں تو کہاں جائیں؟
مجھے کوئی غرض ہے تو صرف اور صرف اس بات سے ہے کہ وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کو یہ احساس دلانے والا کون ہے کہ لوگوں میں مہنگائی کے خلاف شدید درد و کرب اور حکومت سے نفرت بڑھتی جارہی ہے اور بعید نہیں کہ عوام ایک سیلاب کی صورت گلیوں اور سڑکوں پر امڈ پڑیں اور پھر سب تخت و تاج تنکوں کی مانند بہا کر لے جائیں۔
جس صورت حال پر آج سے چند دن پہلے تک وزیر اعظم کی پیشانی پر ایک ہلکی سے سلوٹ تک نظر نہیں آ رہی تھی، اچانک انھیں کس نے آکر با خبر کیا کہ حضور ہنوز دلی دور است سے باہر نکل آئیں اور تیزی کے ساتھ بگڑتی ہوئی صورت حال پر نظر کریں۔
حالات بہتر ہوتے ہیں یا نہیں، معاشی صورت حال میں بہتری آتی ہے یا نہیں اور مہنگائی کا گراف نیچے کی جانب جھکتا ہے یا نہیں، جنابِ عالی! آپ سے ہو سکے تو بس اتنا بتادیں کہ آپ کو یہ سب کچھ بتانے اور سمجھانے والا کوئی تھا، تو وہ کون تھا؟