دورحاضرسے ملتے جلتے وقتوں کی بات ہے کہ کسی ریاست کابادشاہ بہت ظالم تھا۔عوام سے بہت زیادہ ٹیکس وصول کرتا۔بادشاہ کے دوست احباب عوام کے گھر، کھیت کاروبارچھین لیتے۔اشیاء خوردونوش ذخیرہ کرکے مہنگے داموں فروخت کرتے۔جب مظلوم لوگ بادشاہ کے دربارمیں مقدمہ پیش کرتے توانصاف فراہم کرنے کی بجائے مزید ظلم کرتا۔مظلوموں کوتشددکانشانہ بنواتا۔بادشاہ کی موت کاوقت قریب آیاتواسے محسوس ہواکہ اس کے مرنے کے بعدلوگ اسے برے الفاظ میں یادکریں گے، لہٰذااس نے سوچاکہ کچھ ایساکیاجائے کہ مرنے کے بعد لوگ اچھے لفظوں سے پکاریں۔اس نے اپنے بیٹے کوبلاکرکہامیرے مرنے کے بعد تم بادشاہ بنوگے۔میری نصیحت یادرکھنا۔ایسی حکومت کرناکہ کوئی مجھے برانہ کہے۔بیٹابھی باپ کے مرنے کامنتظرتھا، اس نے فوری کہابادشاہ سلامت فکرنہ کریں ایساہی ہوگا۔چندروزبعدبادشاہ فوت ہوگیا۔
تدفین کے بعد بیٹے جوبادشاہ بن چکاتھانے ریاست کے ملازمین کواکٹھاکرکے فرمان جاری کیاکہ آئندہ کسی مقدمہ کافیصلہ اس کی غیرموجودگی میں ہوگانہ کسی کوسزادی جائے گی۔جب کوئی مقدمہ پیش ہوتاتوبادشاہ اپنے باپ کے دورکے وزاء سے پوچھتاکہ اسے کیاسزادی جائے ؟ وہ بتاتے کہ بادشاہ کے والدکے دور حکومت میںایسے مجرموںکے کان پکڑوائے جاتے تھے۔بادشاہ فیصلہ کرتاکہ اس مجرم کودھوپ میں کان پکڑوائے جائیں اور دس اینٹیں بھی اس کے اوپررکھی جائیں۔وزراء کہتے کہ اس قسم کے کیس میں مجرم کواس قدرگھسیٹاجاتاتھاکہ اس کا جسم چھل جاتا۔بادشاہ حکم دیتاکہ اس مجرم کوگھسیٹاجائے اورپھرجسم پرنمک چھڑک دیاجائے اورمزید اسی قسم کی سزائیں دینے لگاچنددن کے اندرہی یہ بات دور دورتک پھیل گئی کہ نیابادشاہ اپنے باپ سے بھی ظالم ہے، اس سے تواس کا باپ ہی بہتر تھا۔ بادشاہ جب ایسی باتیں سنتاتوخوش ہوکرباپ کی قبرپرجاتااورفاتحانہ اندازمیں کہتادیکھااباجان لوگ آپ کواچھے لفظوں میں یاد کررہے ہیں۔
بادشاہ سلامت میرے پاکستانی کہہ رہے ہیں کہ لگان لینے اورجوتے مارنے کیلئے بندے بڑھانے والی بات پرانی ہوگئی آپ یوں کریں کہ عوام کی چیخیں پہلے سے اس قدر زیادہ نکلوائیں کہ گزشتہ حکمرانوں کی کرپشن بھلی لگنے لگے۔مہنگائی اس قدرکردوکہ عوام گزشتہ حکومتوں کی بدعنوانیاں دوبارہ قبول کرنے کی جستجوکریں۔بادشاہ سلامت کے منظورنظردرباری بادشاہ سلامت کوبتاتے ہیں کہ مہنگائی کاکوئی مسئلہ نہیں ملک میں کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتیں آج بھی دیگرترقی یافتہ ممالک کے مقابلے بہت کم ہیں۔ گندم چینی،چاول،گھی،تیل وغیرہ فلاں فلاں ملک میں دوگناسے بھی زیادہ مہنگے ہیں، لہٰذابادشاہ سلامت کی خیرہوعوام تویونہی چیخوپکارکرتے رہیں گے۔ بادشاہ سلامت بے فکررہیں ابھی تومہنگائی مزید بڑے گی۔بادشاہ سلامت غریبوں کے خیرخواہ ہیں لہٰذاانہوں نے غریبوں کی غریبی مرجانے کے بعدنوٹس لیاکہ مہنگائی کے ستائے عوام کواشیاء خوردونوش سستے داموں ملنی چاہئے اورپھرفرمان جاری ہواکہ یوٹیلٹی اسٹورز پر سستی اشیاء فراہم کرنے کیلئے 15 ارب کا پیکج دیاجائے گا۔ چینی کی درآمد پر پابندی ختم۔2ہزار یوتھ اسٹور قائم ہونگے۔رمضان المبارک سے قبل غریبوں کو راشن کارڈدیاجائے گا۔
شاہی فرمان کے مطابق یوٹیلٹی اسٹورزپرآٹے کا تھیلا 800، چینی 70،گھی 175روپے کلو،چاول،دالوں کی قیمتوں میں 15سے 20روپے تک کمی،50ہزار تندوروں ،ڈھابوں کو رعایتی نرخوں پر اشیا فراہم کی جائینگی۔بادشاہ سلامت کے نوٹس اورریلیف پیکج کے اعلان سے قبل یوٹیلٹی اسٹورز پرچینی کی قیمت فی کلو68روپے تھی، جسے بعد میں 70روپے فی کلوکردیاگیااسی طرح گھی کی قیمت میں بھی 5روپے فی کلوتک اضافہ کردیاگیا۔بادشاہ سلامت کوایک نیک دل خاتون باربارغریبوں کے ساتھ اچھے سلوک کامشورہ دیتی ہیں تاکہ غریب بادشاہ سلامت کودُعائیں دیں پربادشاہ سلامت نہیں جانتے کہ اب غریب عوام بادشاہ سلامت کو جھولیاں اُٹھاکربدعائیں دیتے نظرآتے ہیں۔بادشاہ سلامت ہوش میں آئیں اورغریبوں کی بدعائوں سے جان کی امان پائیں۔یہ بدعائیں کہیں قبرکاسکون اورحوروں والے ٹیکے کی سہولت سے محروم نہ کردیں۔
تبدیلی سے قبل بھی غریبوں کیلئے اسی طرح کے ریلیف پیکج آیاکرتے تھے۔جب بادشاہ سلامت مافیاکوپہچان چکے ہیں توپھرنکیل کیوں نہیں ڈال رہے؟ یوٹیلٹی اسٹورزپر ریلیف پیکج دینے کامطلب یہی ہوسکتاہے کہ حکومت مصنوعی مہنگائی کے سامنے بے بس ہوچکی ہے۔ آج یہ باتیں ہرگلی ،چوراہے پرسننے کومل رہی ہیں کہ تبدیلی والے بادشاہ سے توبدعنوانی والے بادشاہ اچھے تھے۔تبدیلی والے بادشاہ نے توسچ میں غریب مکائومہم چلارکھی ہے۔ اس قدرمہنگائی توکرپٹ حکمرانوں کے دورمیں بھی نہ تھی جتنی صادق وامین کے دورمیں ہوگئی۔