میرے کمرے میں کھڑکی کے پاس کرسی اور میز ہے ،جو خاص میرے حکم پر رکھی گئی ہے ۔ جب مجھے اپنے الفاظ کاغذمیں اتارنے ہوتے ہیں تو میں یہاں بیٹھ جاتا ہوں۔ کھڑکی سے نیم کے درخت کا نظارہ کرتے ہوئے میں اپنی تحریر لکھتا جاتا ہوں، درخت کے پتے ہوا کے جھونکوں سے جھولتے ہیں اور میری تحریر میں روانی بڑھ جاتی ہے۔یہ چند ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں بلکہ سالوں سے میرا اور اس درخت کا ساتھ بندھا ہے۔
آج میں حسب عادت ہاتھ میں قلم لئے اسی کرسی پر موجود ہوں۔مجھے جو موضوع ملا تھا وہ پانچ فروری، کشمیر ڈے، یو م یکجہتی تھا۔یہ موضوع مجھے جنوری میں ہی دے دیا گیا تھا مگر میں لکھ نہ پایا۔یہ پہلا سال ہے کہ کسی اخبار کسی رسالے میں کشمیر سے منسلک میری تحریر نہ لگی۔وجہ کچھ عجیب تھی۔ کہ میں جب بھی قلم سنبھالتا۔ میرے ذہن میں سوال گردش کرنے لگ جاتے کہ میں جو ہر سال کشمیر پر اپنے قلم سے لوگوں کو جذباتی جنجھوڑ دینے والی، جامع، پراثر تحریریں دیتا ہوں ،کیا یوں حق ادا کر دیتا ہوں؟
کشمیر کا موضوع سال کی دوسرے موضوعات کی طرح آتا ہے اور میں موضوع پر حالات کی عکاسی کرتے ہوئے قلم سے ترجمانی کر دیتا ہوں ہو کیا یہی کافی ہے۔۔۔؟
میری عمر 54 سال ہے اور 34 سالہ اس ادبی زندگی میں، میں نے ہر سال کشمیر پر لکھا۔ سال میں 25 دسمبر، یوم اقبال ،14اگست، ویلنٹائن ڈے، عید، رمضان، بسنت، سردی، گرمی غرض بارہ مہینے کے تمام موضوعات کی طرح میں نے کشمیر کے موضوع کو فروری کا موضوع بنا دیا۔ ہر فروری میری تحریر اخباروں اور رسالوں میں شائع ہوئی۔ میری قابلیت کو سراہا گیا۔ پذیرائی ملی۔ غرض داد وصول ہوئی اور قصہ ختم۔۔۔۔۔!
میں نے ایک لکھاری کی حیثیت سے پانچ فروری کو منایا تو کسی نے احتجاجی ریلی نکالی، کسی نے پرعزم تقریریں کر ڈالیں۔ ہم سب نے اپنی اپنی صلاحیتوں قابلیتوں اور مدار میں رہتے ہوئے حق ادا کیا۔ مگر ہم نے ان مظلوم لوگوں کا کیا یوں حق ادا کر دیا؟ جن کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جارہا ہے ان پر تاریخ کا طویل کرفیو لگایا جارہا ہے۔ نسل کشی کا برملا اعلان کیا گیا ۔ کیا ان کے مقابل یہ معصومانہ کوششیں کافی ہیں۔۔۔؟
یہ چند سالوں کی بات نہیں نصف صدی سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، مگر ہم قلیل مدار میں خود کو تسلی دیتے ہوئے حق ادا کر رہے ہیں ۔ ذرا خود سے پوچھیں آزادی کی کیا یہی قیمتیں ہیں؟ ہمارا دشمن دیدہ دلیری سے سے ظلم کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے ۔ وہ ہماری بہنوں کی عصمتوں کو تار تار کر رہے ہیں، تو بھائیوں کے لہو سے شہر کو رنگ رہے ہیں۔ کسی کا باپ چھین رہے ہیں، تو کسی کا سہاگ اجاڑ رہے ہیں، کسی کو بھوک کی شدت سے ستا کر مار رہے ہیں، تو کسی کے سر کو تن سے جدا کر رہے ہیں۔ اس شہر سے مستقل چیخوں، آہوں اور آرزوں کی صدائیں لگ رہی ہیں۔ ان کی امیدوں کا محور صرف ہم ہیں مگر ہم؟
میان میں تلوار رکھ کرانہیں روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تلوار کا جواب تلوار سے دینے کے بجائے ان کوششوں کے عوض آزادی کی راہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔ کیا ہمارے اسلاف کی یہی تاریخ ہے؟ کیا ہمارے عظیم سپہ سالار یہی سبق دے گئے ہیں؟ کیا ہمارے دین میں یہی رہنمائی دی گئی ہے؟ خود سے سوال کریں، کہ ظلم جب ان انتہاؤں کو چھو جائے اور ظالم بپھر کر سامنے آئے ۔تو جہاد کے علاوہ وہ کونسا لائحہ عمل ہے۔جو مظلوموں کی آواز بنے گا۔اور ان کو اس ظلم سے نجات دے جو 73 سال سے ان پر مسلط ہے۔