پروفیسر سُپریا گاندھی کی تازہ تصنیف کا سرسری جائزہ
مغلوں کی تاریخ میں شاہ جہاں کے بیٹوں میں سے ایک دارا شکوہ کو نہایت ذہین، تعلیم یافتہ اور فراخ دل شہزادہ تصور کیا جاتا ہے۔ دارا نے ویدک ادب کا مطالعہ کیا اور اسلام اور عیسائیت کا آپس میں موازنہ بھی کیا۔ دارا مذہبی رواداری، سماجی آہنگی، اتحاد پسندی، باہمی محبت، تنوع میں جدت اور مخلوط معاشرت اور ثقافت کا قائل تھا۔ دارا، شاہ جہاں کے بہت قریب تھا اور اُس کے اگلے شہنشاہ بننے کے ہر امکان موجود تھے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ گزشتہ منگل کی شام ییل یونیورسٹی کی پروفیسر سُپریا گاندھی کی تصنیف ’’وہ شہنشاہ جو کبھی نہیں تھا، دارا شکوہ مغلیہ ہندوستان میں‘‘ کی رسمِ رونمائی ممبئی کے کاما اورینٹل انسٹی ٹیوٹ میں منعقدہ تقریب میں عمل میں آئی۔ اِس موقع پر مقررین حضرات نے محترمہ سُپریا گاندھی کی اِس کوشش کی بھرپور پذیرائی کی اور کہا کہ اِس کتاب کے ذریعہ مصنفہ نے دارا شکوہ کی زندگی کے کئی پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔
مصنفہ سُپریا گاندھی نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’دارا شکوہ نہ تو آزاد خیال تھا اور نہ ہی سیکولر۔ اُس دور میں اِن تصورات کا وجود نہیں تھا۔ وہ ایک ایسا دور تھا جہاں ایک طاقتور شہنشاہ کے بغیر کسی دنیا کا تصور کرنا بھی ناممکن تھا۔ ایسا مانا جاتا تھا کہ ایک مملکت کی فلاح و بہبود کا انحصار ایک مضبوط اور انصاف پسند حاکم پر ہے۔ دارا کیلئے، اِس کا مطلب یہ تھا کہ اُس نے اپنے پردادا اکبر جیسے ماضی کے فلسفی بادشاہوں کی طرح خود کو تیار تو کیا، لیکن کسی کی بھی پرواہ کئے بغیر اپنی علیحدہ روش اختیار کی اور اُن کے اثر و رسوخ کو تسلیم نہیں کیا۔‘‘ دارا شکوہ کی عوامی شہرت ایک کمزور سپاہی اور نااہل منتظم کی سی تھی۔ شاہ جہاں کو دارا شکوہ سے اِتنی محبت تھی کہ وہ اپنے ولی عہد کو فوجی کارروائیوں میں بھیجنے سے ہمیشہ ہچکچاتا رہا اور اُسے ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے دربار میں رکھا۔
اورنگزیب کو فوجی مہمات میں بھیجنے میں شاہ جہاں کو کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی تھی حالانکہ اُس وقت اورنگزیب کی عمر محض سولہ سال رہی ہوگی۔ وہ جنوب میں ایک بڑی فوجی مہم کی قیادت کرتا ہے۔ اِسی طرح مراد بخش کو گجرات بھیجا جاتا ہے اور شاہ شجاع کو بنگال کی طرف روانہ کیا جاتا ہے، لیکن اُن کا سب سے عزیز فرزند دربار میں ہی رہتا ہے۔ شاہ جہاں دارا کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اُسے نہ تو جنگ کا تجربہ ہوا اور نہ ہی سیاست کا۔ شاہ جہاں دارا کو اپنا جانشین بنانے کیلئے اِس قدر بے چین تھا کہ اُس نے اپنے دربار میں اِس کیلئے ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا۔ دارا کو اپنے قریب تخت پر بٹھایا اور اُسے ’شاہِ بلند اقبال‘ کا لقب دیا اور اعلان کیا کہ اُس کے بعد دارا ہی ہندوستان کے تخت پر بیٹھے گا۔
کہتے ہیں کہ دارا شکوہ صوفی منش تھا، وہ شہزادے سے زیادہ عالم تھا۔ مغل شہزادہ دارا شکوہ شہنشاہ شاہ جہاں کے بہت قریب تھا اور اُس کے اگلے شہنشاہ بننے کے ہرقوی امکان موجود تھے مگر ایسا ہو نہ سکا۔ اِس کی وجہ اُس کی بدمزاجی، غرور اور جنگی مہارت میں کمزوری تھی۔ اُس نے طبیعت بھی اپنے بھائیوں سے کچھ مختلف پائی تھی۔ رفتہ رفتہ دارا وقت کے ساتھ اتنا مضبوط ہو گیا تھا کہ شاہی دربار میں شاہ جہاں کے قریب ہی اپنا تخت بنوا لیا تھا۔ اُس نے شہنشاہ کی طرف سے احکامات جاری کرنا شروع کر دیئے۔ دارا اورنگزیب سے بہت زیادہ خوفزدہ تھا۔ اُس نے ایک نہیں کئی بار اورنگزیب کے خلاف احکامات روانہ کئے۔ اِس سے اورنگزیب اور دارا کے درمیان دشمنی مزید گہری ہوگئی۔
مصنفہ بتاتی ہیں، ’’اکبر اور جہانگیر جیسے دوسرے مغلوں کی طرح، دارا نے ہندو مذہبی فکر کی توحید پسندی کی دھاروں کو تلاش کرنے کا انتخاب کیا، مثلاً ویدانت کو سمجھنے کی کوشش کی۔ وہ متجسس اور فکری طور پر فراخ دل تھا۔ دارا کا ’’کھوجی من‘‘ اسلام کے پوشیدہ رازوں کو جاننے کا مشتاق رہتا۔ لیکن دارا کی فکری مشقوں کا مقصد اُس کی اپنی روحانی بیداری کو فروغ دینا تھا۔ جس کے ذریعے وہ حتمی فلسفی بادشاہ بن سکتا تھا۔‘‘ مصنفہ کہتی ہیں، ’’قرآن میں آیات کا ایک سلسلہ ہے جو ایک چھپی ہوئی کتاب یا ’کتابِ مکنون‘ کا حوالہ دیتا ہے۔ حالانکہ قرآن کے روایتی ترجمان ’کتابِ مکنون‘ کی لفظی، ٹھوس کتاب کے طور پر شناخت نہیں کرتے ہیں۔ اِس کے برعکس، دارا شکوہ نے فارسی متن سرِّ اکبر (سب سے بڑا راز) میں اعلان کیا ہے کہ اپنشد ہی ’کتابِ مکنون‘ ہے۔ اُس کے جواز کا ایک حصہ ’اپنشد‘ کو بطور ’خفیہ‘ حکمت سمجھنے پر منحصر ہے۔‘‘
سُپریا گاندھی امریکا میں تیسری سب سے قدیم ترین ییل یونیورسٹی میں بطور پوفیسر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔ سُپریا گاندھی کی تحقیق جنوبی ایشیاء میں اسلام اور ہندوستانی مذاہب کے مابین ربط اور یکسانیت کی جانچ کرتی ہے۔ سُپریا مغلیہ سلطنت کی مذہبی اور ثقافتی تاریخ، اسلامی تصوف، ہندوستانی متون کا ابتدائی جدید فارسی ترجمہ اور جدید ہندو فکر جیسے موضوعات میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ اُنہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔ دارا شکوہ اور فارسی کی متنی ثقافت، اُن کے پی ایچ ڈی مقالہ کا عنوان رہا۔ اُنہوں نے اِس کتاب کیلئے مغل شہزادہ اور قادری صوفی دارا شکوہ کی تحریروں اور سیاسی سیاق و سباق کی بڑی گہری جانچ پڑتال کی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اِس موضوع پر اپنی دلچسپی کا سبب بتاتے ہوئے سُپریا کہتی ہیں، ’’دارا شکوہ کی سوانح رقم کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ہمارے عوامی تخیل میں مغلوں کا ایک خاص مقام ہے۔ ہندوستانی تاریخ میں فراموش کر دیا گیا، یہ شخص شاہی مغل کنبہ میں ایک انوکھی اور حیرت انگیز شخصیت کا مالک تھا۔‘‘
’’دارا مغل شہزادہ ہونے کے ساتھ ایک نامور مصنف تھا۔ جس کی تخلیقات میں تقریباً پچاس اپنشدوں کا فارسی ترجمہ بھی شامل ہے۔‘‘ مصنفہ بتاتی ہیں کہ ’’شاہ جہاں نے دارا کو قادری صوفی حضرت میاں میر سے متعارف کرایا، جو دارا کی روحانی تلاش پر اثر انداز ہوا۔ دارا میر کے ایک بزرگ شاگرد مُلا شاہ کا شاگرد بھی بن گیا۔ تصوف میں دارا کی دلچسپی کو اُس کے والد اور اُس کی بڑی بہن جہاں آرا بیگم کی شراکت سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔‘‘ یہ ایک ایسا نقطہ ہے، جس سے سُپریا گاندھی کو یہ ثابت کرنے میں مدد ملتی ہے کہ دارا مغلوں میں تنہا نہیں تھا جو مادی دنیا کے علاوہ دوسری دنیا میں دلچسپی رکھتا ہو۔ فرق یہ تھا کہ دارا کو زندگی کے روحانی پہلوؤں کے ساتھ گہری رغبت رہی اور اِسی رغبت کے نتیجہ میں دارا نے سفینۃ الاولیاء، سکینۃ الاولیاء، رسالہ حق نُما، مکالمۂ بابا لال و شکوہ اور حسنات العارفین (قابلِ ذکر صوفیوں کے اقوال کی تالیف) جیسی شہرہ آفاق کتابوں کی تصانیف فرمائی۔
مجموعی طور پر نَو کتابیں دارا شکوہ سے منسوب کی جاتی ہیں، جو سبھی فارسی میں لِکھی گئیں۔ دارا شکوہ نے ایک کتاب بعنوان مجمع البحرین (دو سمندروں کی ملنے کی جگہ، سنگم) لِکھی جس میں اسلام اور ہندو مذہب کی توحیدی لکیر کے مابین مماثلت پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے۔ مذاہب کے تنوع کو تلاش کرنے کیلئے مجمع البحرین کو اُن ابتدائی کاموں میں سے ایک مانا جاتا ہے جو اسلام اور ہندو مذہب کے علاوہ دوسرے مذاہب کے درمیان اتحاد کی وکالت کرتے ہیں۔ دارا شکوہ رامائن سے خاصا واقف تھا۔ اکبر اور جہانگیر کے توسط سے شاہ جہاں کی شاہی لائبریری میں دارا کا سامنا اُن کتب سے ضرور ہوا تھا۔ ۱۶۵۰ء کی دہائی کے وسط میں، دارا کو ہندو مذہب کے بارے میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ دارا نے نہ صرف تصوف پر متعدد تخلیقات مرتب کیں بلکہ ہندو اور اسلامی تصورات کے موازنہ پر کام کرتے ہوئے دونوں مذاہب کو برابر سمجھا۔
دارا شکوہ مغل شہنشاہ شاہ جہاں اور ملکہ ممتاز محل کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ مضافات اجمیر میں پیدا ہوا۔ دارا مغل سلطنت کا وارث تھا اور اپنے والد کا چہیتا بیٹا تھا۔ دارا کی کہانی اُس کے متجسس من کی کہانی ہے جو اُس کی طاقت بھی تھی اور اُس کی تباہی کی وجہ بھی بنی۔ شاہی دربار سے ملنے والی پوری رقم کو دارا اپنی مذہبی فکر کی دھن، مذہب اور فلسفہ سے متعلق نصوص کا ترجمہ اور مغل طرز کے فن پارے بنوانے میں خرچ کرتا تھا۔ دارا کی اِسی دھن نے اُسے اپنے وقت کا سب سے زیادہ ٹھگا گیا شخص بنا دیا۔ دارا کی دلچسپی مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں تھی۔ وہ صوفیوں اور الگ الگ مذاہب کے رہنماؤں سے گھرا رہتا تھا۔ ۱۶۵۶ء کے شروعات میں اُس نے اپنشدوں کا ترجمہ شروع کروایا۔ اُس وقت مغلیہ سلطنت کے وارث کے علاوہ یہ کام کوئی نہیں کر سکتا تھا۔ کسی کے پاس اِس طرح کے وسائل نہیں تھے۔
اُس نے سنسکرت سیکھنے کی کوشش کی۔ لیکن ایک اور کہانی بھی ہے جو دارا کی کہانی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔ دارا کے مذہبی جنونی بھائی اورنگزیب عالمگیر کی کہانی۔ دونوں کی اِسی مقابلہ آرائی کے نتیجہ نے شاید ہندوستان کی تاریخ کا رخ ہی موڑ دیا۔ دارا کسی جاسوس کی طرح مذاہب کے درمیان بھائی چارے کی تلاش کرتا رہا۔ قرآن کے ایک حصہ میں چھپی کتاب کا ذکر پا کر دارا اِس بات کا قائل ہو گیا کہ یہاں اشارہ اپنشدوں کی طرف ہے۔ دارا نے فلسفہ وحدت الوجود کے اصولوں کو ماننا شروع کیا، جس کے مطابق تمام مذاہب خالق کی تلاش میں کسی توحید پسند سچائی میں ملتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسے ندیاں سمندر میں ملتی ہیں۔ دارا کا ماننا تھا کہ ہندو ویدانتی فلسفہ کے مطالعہ سے اسلام کے پوشیدہ راز اُس کے سامنے آ رہے ہیں۔ جس سے اُسے اتنا خاص علم حاصل ہوگا کہ وہ بغیر کسی چیلنج کے تخت پر جا بیٹھے گا۔
دارا نے مغل تاج کی اپنی راہ کو کچھ ایسے دیکھا کہ وہ ایسا شخص ہے جو تمام مذہبی راز ظاہر کر دے گا۔ وہ انتہائی خود اعتمادی سے بھرا ہوا تھا۔ دارا خود کو ہر کام میں قابل مانتا تھا اور اُسے لگتا تھا کہ اُسے صلاح کاروں کی ضرورت نہیں ہے۔ جو صلاح و مشورے دیتے اُن سے وہ نفرت کرتا۔ اِسی لئے اُس کے دوست اُسے ضروری باتیں بھی نہیں بتاتے تھے۔ اُسے لگتا کہ سب اُس سے محبت کرتے ہیں اور قسمت آخر اُسی کا ساتھ دے گی۔ وہ مذہبی رواداری کے بارے میں زیادہ فکر مند رہتا اور انتظامیہ کے متعلق کم۔ اِس درمیان اورنگزیب خود کو مظبوط کر رہا تھا۔ وہ اپنے رسوخ کا دائرہ بڑھا رہا تھا۔ شاہی تخت پر قبضہ کی تیاری کر رہا تھا۔ اورنگزیب نے اپنی شخصیت کو ایک جنگجو، ایک منتظم کے طور پر ڈھالا۔
اورنگزیب عالمگیر کو ایسے شخص کے طور پر دیکھا گیا جو لوگوں کی پرواہ کرتا ہے، مذہبی عقیدت رکھتا ہے، ریاستوں پر حملوں میں ملی رقم کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرتا ہے اور یہ حیرانی کی بات نہیں کہ جب جانشین کی لڑائی ہوئی تو اُن میں سے کئی لوگوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ جب ۱۶۵۷ء میں شاہ جہاں بیمار پڑا تو شاہی تخت ایک طرح سے خالی ہو گیا۔ اورنگزیب نے اِس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چال چلی۔ وہ نہ صرف اپنے بھائی کو فوجی امور میں نادان مانتا تھا بلکہ اُس کا یہ بھی خیال تھا کہ دوسرے مذاہب میں اُس کی دلچسپی سے وہ مرتد ہو گیا ہے اور حکومت کرنے کے لائق نہیں۔ اب دونوں بھائیوں کی ٹکر میدان جنگ میں ہونی تھی۔
جون ۱۶۵۹ء میں دونوں افواج آگرہ کے نزدیک ساموگڑھ میں آمنے سامنے تھیں۔ شہزادہ مراد بخش نے اپنے سب سے بڑے بھائی دارا شکوہ کو شکست دینے کیلئے منجھلے بھائی اورنگزیب سے ہاتھ ملا لیا۔ جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب دارا شکوہ نے اپنی توپوں کو اورنگزیب کی فوج کی طرف فائرنگ شروع کرنے کا حکم دیا۔ آخر کار دونوں فریقوں نے ایک دوسرے کے خلاف زبردست گولہ باری کا آغاز کرنا شروع کر دیا۔ بارش کے باعث گولہ باری ملتوی کرنا پڑی۔ جنگ بیحد مختصر رہی۔ کچھ مورخین کے مطابق اورنگزیب ایک راجپوت فوجی کے وار سے مرتے مرتے بچا لیکن جلد ہی سنبھل گیا۔ وہیں دارا کے ہودے کو ایک راکٹ لگا اور وہ تیزی سے ہاتھی سے اُتر گیا۔ اُس کے فوجیوں نے جلد ہی اُس کے ڈر کو سمجھ لیا۔ لڑائی ختم ہو چکی تھی۔
محض تین گھنٹے کی لڑائی میں دارا کے دس ہزار فوجی ہلاک ہو گئے۔ جو بچ گئے اُنہوں نے دارا کا ساتھ چھوڑ دیا۔ دارا کو راہِ فرار اختیار کرنا پڑا۔ دارا کے ریشمی کپڑوں کی جگہ بے کار کُرتے اور سستے جوتوں نے لے لی تھی۔ آخر میں اُسے ایک افغان سردار ملک جیون نے دھوکہ دے دیا۔ ملک جیون نے اُس کی حفاظت کا وعدہ کیا اور پھر اورنگزیب کو سونپ دیا۔ اُس کے بعد پھٹے حال دارا کا ایک چھوٹے سے، معمولی سے ہاتھی پر جلوس نکلا۔ بیحد اُداس نظارہ تھا۔ جس نے بھی اُسے دیکھا اُسے ترس آ گیا کیونکہ اتنے کم وقت میں اتنا طاقتور، اتنا مشہور شہزادہ اتنی بری حالت میں پہنچ چکا تھا۔ دورِ جدید کے صفِ اول کے ناول نگار قاضی عبدالستار نے اپنی ایک ناول میں دارا کے کردار کو حق پرست، مشترکہ تہذیب کا ترجمان، اکبرِ اعظم کا جانشین اور شعر و ادب کے معمار کے طور پر پیش کیا ہے۔ بقول قاضی صاحب، ’’ساموگڑھ کے سینے میں وہ میزان نصب ہوئی، جس کے ایک پلڑے میں روایت تھی اور دوسرے میں دل، ایک طرف سیاست تھی دوسری طرف محبت، ایک طرف فلسفہ حکمت تو دوسری طرف شعر و ادب اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک طرف تلوار تھی اور دوسری طرف قلم۔‘‘
ساموگڑھ کی شکست کے بعد جب دارا کو اِس طرح گھمایا جارہا تھا تو اُس نے ایک بھکاری کی آواز سنی۔ بھکاری اونچی آواز میں کہہ رہا تھا، ’’اے دارا، ایک زمانے میں تم اِس زمین کے مالک ہوا کرتے تھے۔ جب تم اِس سڑک سے گزرتے تھے تو مجھے کچھ نہ کچھ دیتے جاتے تھے۔ آج تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے۔‘‘ یہ سن کر دارا نے اپنے کندھوں کی طرف ہاتھ بڑھایا اور اُس پر رکھی ہوئی شال اُٹھا کر اُس بھکاری کی طرف پھینک دیا۔ اِس واقعہ کے چشم دیدوں نے یہ کہانی شہنشاہ اورنگزیب تک پہنچائی۔ پریڈ ختم ہوتے ہی دارا اور اُس کے بیٹے سِپہر کو خضرآباد کے جیلروں کے حوالے کر دیا گیا۔ اورنگزیب کے دربار میں ہوئے ’’دکھاؤٹی مقدمہ‘‘ میں درباریوں نے تقریباً ایک آواز ہو کر دارا کو سزائے موت کی سفارش کر دی۔ اور پھر ۹/ستمبر ۱۶۵۹ء کو اُسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اُس کا سر کاٹ کر اورنگزیب کو پیش کیا گیا۔ اُس کے جسد خاکی کو ہمایوں کے مقبرے کے اُسی میدان میں دفن کر دیا گیا۔
مغلوں کے معیار کے مطابق دارا ایک ناکام شخص تھا۔ اُسے بدنصیب بھی کہا گیا۔ اُن شہزادوں میں سے ایک جو جانشینی کی لڑائی میں آگے نہیں بڑھ سکے۔ دارا نے اپنشدوں اور دوسری کتابوں کے جو تراجم کروائے اُن سے یورپ کے اسکالرز کی نظر اُن پر پڑی۔ دارا کی موت کے بعد اُس کا کام نہ صرف اسلام اور ہندو مذہب کے درمیان ایک اہم کڑی بن گیا بلکہ ہندوستان اور مغرب کے بھی درمیان۔ دورانِ گفتگو مصنفہ سُپریا گاندھی نے راقم الحروف کو بتایا، ’’طباعت کے زمانہ سے پہلے بہت سے تعلیم یافتہ ہندو فارسی پڑھتے تھے۔ اُس دور میں کسی حد تک فارسی کو وہی حیثیت حاصل تھی جو آج انگریزی کو حاصل ہے۔ بالکل اُسی طرح جیسے اب کچھ ہندوستانی گیتا یا اپنشدوں کے انگریزی تراجم پڑھتے ہیں، ماضی میں یہ نصوص فارسی زبان میں بھی پڑھے جاتے تھے۔ دارا کے اپنشد کے ترجمہ میں ہندو اور مسلمان دونوں کیلئے پائیدار اہمیت ہے۔‘‘
دارا شکوہ کے حوالے سے تاریخ میں مختلف روایات موجود ہیں، تاہم اِس سے انکار ممکن نہیں کہ وہ مغلیہ سلطنت کا ایک صاحبِ علم چشم و چراغ تھا۔ وہ برصغیر میں مذہب کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی منافرت اور تنگ نظری کو ختم کرنے کا خواہاں تھا۔ دارا شکوہ کی حیثیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ دارا شکوہ کی شخصیت کا احاطہ کرتے ہوئے دارا کے فرانسیسی ذاتی معالج فرانسوا برنیئر لکھتے ہیں، ’’اگرچہ دارا مذہبی اُمور میں وسیع الخیال تھا، فلسفہ وحدت الوجود کا معتقد تھا لیکن متلون مزاج، مغرور، چڑچڑا اور بے عمل تھا۔ وہ خوشامد پسند تھا۔ دربار کی زندگی اور شہنشاہ شاہ جہاں کی بے پناہ محبت نے اُس کو برباد کر کے رکھ دیا اور تسخیر قلوب کے فن سے بیگانہ کردیا، اِس لئے مزاج و ترتیب کے لحاظ سے وہ اِس کا اہل نہیں تھا کہ کسی سخت آزمائش کا مقابلہ کر سکے۔‘‘