قصہ آدم علیہ السلام پڑھ رہی تھی کہ کیسے شیطان کے جھانسے میں آ کر حضرت آدم اور حضرت حوا نے وہ پھل کھا لیا، جس سے اللہ پاک نے منع کیا ہوا تھا اور پھر ان کے ستر کھُل گئے اور وہ جنت کے پتوں سے خود کو چھپانے لگے۔میں سوچنے لگی کہ ہم سب کو زندگی کی گزرگاہوں پہ بار بار جنت کے پتوں کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ شیطان مسلسل اپنے مشن پہ ہے کہ وہ نوعِ انسانی کو تا قیامت بہکائے گا اور اپنے ساتھ جہنم میں لے کر جائے گا۔
گو کہ اللہ پاک نے اس کو بتا دیا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب رہے گا کہ ہمیں متنبہ کر دیا یہ کہہ کر” جو میرے بندےہوں گےوہ تمہارے بہکاوےمیں نہیں آئیں گے“
لیکن ساتھ ہی اللہ پاک نے دعا سکھا دی کہ جب راہ راست سے ہٹ جاؤ تو دعا مانگو ”اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کئے ہیں اور اگر تو ہی ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحمت نہ کرے گا،تو ہم یقیناً نا مرادوں میں سے ہو جا ئیں گے“۔
یعنی اللہ سبحان و تعالی کو پتہ تھا کہ ہم بہت کمزور ہیں اور دشمن طاقتور۔ہمیں جب جب خود کو چھپانے کی ضرورت پڑے گی ہم سے صرف اخلاص کے ساتھ توبہ مطلوب ہو گی اور جنت کے پتے ہمیں ڈھانپ لیں گے انشااللہ۔