ہر روز نیا سورج طلوع ہوتا ہے۔ دن راتوں میں بدلتے اور راتیں سحر میں بدل جاتی ہیں ۔ خزاں کے اداس موسموں سے گُل رنگ شگوفے پھوٹ نکلتے ہیں۔ گرم لو کے جھکڑوں سے سرد ہواؤں کی لہریں ہم آغوش ہوتی ہیں۔ ساون رتیں برس کر طویل خشکی کا دور بھی گزر جاتا ہے۔ تغیرات کا یہ سلسلہ اور چکر رواں دواں رہتا ہے۔ اپنے وقت اور روٹین کے مطابق سب چلتا رہتا ہے۔ کوہسار برف کی چادر لپیٹ بھی لیتے ہیں اور آہستہ آہستہ وہ ڈھلنا بھی شروع ہو جاتی ہے۔
سورج غضب کی گرمی بھی برساتا ہےاور رگوں میں لہو جما دینے والی سردی میں نرم و گرم گرمائش کا سامان بھی مہیا کرتا ہے۔
مگر روئے زمین پر بستے انسان، ان تمام موسموں میں اپنے اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں اور انہیں حاصل کرنے کے لیئے سرگرداں ہو جاتے ہیں۔
وہ خطے جو صدیوں سے جنگ و جدل اور ظلم و نا انصافی کی بھینٹ چڑھے ہوئے ہیں ، وہاں کے باسیوں کے چہروں پر بھی نا انصافی کی یہ تاریخ پختہ لکیروں کی صورت تحریر ہے۔
ایسے ہی دل سوز و دلدوز جغرافیہ کے حامل خطہ کا نام کشمیر بھی ہے۔
جس کے مکین،بڑے،بچے بوڑھے،عورتیں ایک طویل عرصے سے ظلم و زیادتی کی منہ زور آندھی سے نبرد آزما ہیں ۔
فولاد عزم کشمیری نہ جھکے ہوئے ہیں، نہ بکے ہوئےہیں اور بچے بچے کی زباں اور خون میں ایک ہی نعرہ رواں ہے!
ہم کیا چاہتے ہیں”آزادی
ہم لے کے رہیں گے آزادی
وہ پھولوں والی آزادی
وہ جاں سے پیاری آزادی
کرۂ ارض کا یہ خطہ اپنی منفرد نوعیت و تاریخ کا حامل ہے، جہاں محض 80 ڈیڑھ لاکھ باسیوں کے جذبۂ آزادی کو بزورِ ظلم و ستم روکنے کے لیئے آٹھ لاکھ فوج تعینات ہے۔ ۔ ۔ ؟
کیا ہی مقامِ حیرت ہے؟
یہ تحریکِ آزادی مختلف مراحل سے گزرتی گزرتی آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے ، جہاں گزشتہ چھ ماہ سے کرفیو کی صورتحال ہے۔
کشمیریوں کو سوشل میڈیا اور انٹر نیٹ سے کاٹ کر رابطوں کے تمام ذرائع مسدود کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
بچوں اور عورتوں کے بے پناہ صحت و خوراک کے مسائل عالمی میڈیا کی زینت بن چکے ہیں۔
بے گناہ نوجوانوں پر تشدد اور شہادتیں جہاں معمول ہیں۔
بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں پر خوف کے پہرے ہیںاور مطب علاج و سہولیات کے فقدان کا شکارہیں۔
دنیا زباں و بیاں کی حد تک تو کشمیریوں کی حقوق تلفی کا احساس کرتی اور رکھتی ہے، مگر یہ طویل جدوجہد آزادی اب اپنے انتہائی نازک موڑ میں داخل ہو چکی ہے۔
اور اس سخت ترین صورتحال میں بھی کشمیری اپنے مطالبے پر ڈٹے دکھائی دیتے ہیں اور اپنے عزمِ ہمالیہ سے غاصب کے ہر ہتھکنڈے کے لیئے رکاوٹ بن رہے ہیں۔
نہتے و آبلہ پا آزادی کے مسافروں کی منزل تک پہنچنے تک ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔
جو صبحِ آزادی کے تعاقب میں اپنی تین نسلیں قربان کر چکے ہیں، جن کے کندھے لڑکھڑائے نہیں اور قدم ڈگمگائے نہیں۔
کشمیر کے سبزہ زاروں کو، اپنے لہو کی قبا پہنا کر قبرستانِ شہداء آباد کرتے یہ لوگ یقیناً لہو سے سینچی تحریک کو کامیابی تک پہنچا کر دم لینے کے حوصلوں سے مالامال دکھائی دیتے ہیں۔
ظلم ڈھانے والے اس عزم،جذبہ اور منزل سے یقیناً نا آشنا ہیں۔
تمہید سے تم گزرے ہی نہیں،
اب قصہ سارا کیا جانو؟
اس خطے کا امن بالخصوص اور دنیا کا بالعموم نا انصافی اور ظلم کی زنجیروں کو کاٹ دینے سے جڑا ہوا ہے۔
ہے کوئی انسانیت کے درد کو سمجھنے والا؟ رِستے زخموں پر کوئی پھاہا رکھنے والا؟
یومِ یکجہتی کا یہی تقاضا و سوال ہے۔
سفرِ پیہم میں،بھاری عزم میں،گہرے نشیب سے،بلند کوہسار سے،اداس چمن سے،
گرتی آبشار سے،آتی اک ہی صدا ہے،خوں سے لکھیادائے وفا ہے،کہ ہم کیا چاہتے ہیں؟
“آزادی”۔