گئے برسوں بلکہ ربع صدی پہلے کی بات ہے جب ابا جان نے عید کی خریداری کے لیے رقم دی۔
اتفاق سےاسی دن سامان بیچنے والا ایک لڑکا گٹهر اٹهائے آیا ۔ اس کے مطابق خاندان کے بڑے جہاد افغان میں ختم ہوگئے ہیں اور وہ گهر چلانے کے لیے یہ کام کر رہا ہے ۔اس کے زری اور تلے کے کام والے زرق برق کپڑوں میں ہمیں قطعا دلچسپی نہ تهی، مگر مجاہدین کی مدد کا سوچ کر کئی سوٹ اور جوتے سینڈل خرید لیے ۔ ابهی اس سامان کا کچھ مصرف سوچ ہی رہے تهے کہ ہماری عزیزہ رقیہ باجی آگئیں ۔وہ کشمیری مجاہدین کے لیے فنڈ اور سامان جمع کر رہی تهیں ۔ ہمیں افسوس ہوا کہ ناحق ہزاروں روپے کا فضول سامان خرید لیا ورنہ ہم بهی جہاد کشمیر میں اپنا حصہ ڈال لیتے ! وہ امی سے فنڈ لے کرجانے ہی والی تهیں کہ ہم نے نہ جانے کیا سوچ کر گذشتہ روز کی اپنی تمام خریداری ان کے حوالے کردی ۔ پہلے تو وہ سٹ پٹائیں کہ مجاہدین کے لیے جوتے، کپڑے اور اسلحہ کی ضرورت ہے ۔ان نسوانی سامان کا وہ کیا کریں گے ؟ مگر پهر ہنس کر قبول کر لیے کہ ان مجاہدین کی شادی میں کام آجائیں گے ۔ ( اسکول کے زمانے میں سیلاب زدگان کے لیے امدادی سامان کے پیکٹ بناتے ہوئے ڈائجسٹ کی بڑی تعداد دیکھ کر ہم نے اپنی ٹیچر سے سوال کیا کہ انہیں اس کی تو ضرورت نہیں ہوگی ؟ تو انہوں نے بہت حکمت سے بتا یا کہ دینے والے کی نیت اور استطاعت اہم ہے ۔ ہم اسے ردی میں بیچ کر پیسے جمع کر سکتے ہیں ۔ بس اسی سوچ نے ہماری اس امداد کو اپنی نظر میں معتبر اور اہم بنا دیا تھا)
یہ 93/ 94ء کی بات ہے جب جہاد کشمیر عروج پر تها. 5 فروری کی چهٹی کا آغاز بہت جوش سے ہوتا تها ۔ جہادی ترانے سننا، کشمیر کانفرنس میں شرکت کے لیے پوسٹر کی تیاری ،ہم جسمانی طور تو محاذ پر نہ جاسکتے تهے، مگر روحانی، ذہنی، مالی اور جذباتی لحاظ سے پوری طرح شریک تهے ۔ جذبوں کی شدت میں ہم تنہا نہ تھے، ہماری بہن نے بڑے بهائی کی شادی پر بننے والا خوبصورت گولڈن سیٹ بهی فنڈ میں دے ڈالا اور پهر ایک منظر کچھ یوں بهی تها کہ گهر میں موجود تمام گرم کپڑے بڑے بڑے سفری بیگوں میں ڈال کر ہم دونوں بہنیں شیرازکوچ میں بیٹھ کر ادارہ نور حق جا پہنچے ۔ کوچ کے مسافر ہمیں مصیبت زدگان سمجھ کر رحم بهری نظروں سے دیکھ رہے تهے تو ادارہ کے منتظمین حیرت اور تجسس سے !
عزیز ساتھیو! اان یادوں کو آپ سے شیئر کرنے کا ہر گز مقصد اپنی سخاوت کا ڈھنڈورا پیٹنا نہیں ہے بلکہ انٹر نیٹ استعمال کرنے والوں کی اکثریت( جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئی ہوگی یا شاید بہت چھوٹی ہوگی !) کو کشمیر کے حوالے سے پوری قوم کے جذبات کی جھلک دکھانی ہے، جو اکیسویں صدی کے آغاز میں ٹوئن ٹاور پر حملے کے بعد صورت حال میں تغیر آنے سے طاق بن گئی اور ترجیحات کی فہرست سے بڑی خاموشی سے مٹا دی گئی ۔ دہشت گردی کا لیبل اپنے سے ہٹانے کے لیے ہم 180 کے زاویے سے منحرف ہوگئے ۔ مظلوم کشمیری اپنے ہی غم میں ڈوب کر رہ گئے !
وہ نسل جو پی ٹی وی پر ہر منگل کی رات کشمیر میڈیا سیل کی رپورٹ دیکھ کر اپنے جذبات کو گرماتی تھی ،مصلحتوں اور اندیشوں کے غلاف اوڑھ کر سوگئی ۔۔۔! آہ
لیکن ہر شر میں سے خیر ضرور بر آمدہوتا ہے کہ مترادف یہ ہوا کہ کشمیری خود انحصاری کی مجبوری میں اندر سے مضبوط ہونا شروع ہوئے ۔ بھارتی ایجنڈے اور واویلے کو ناکام بناتے ہوئے بہادری اور جراءت کی نئی تاریخ رقم کی ! نئی جد و جہد مضبوط بھی اور منظم بھی، جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہوکر نوجوان نسل جب میدان جہاد میں اتری تو برہان وانی کی داستان نے جنم لیا ، علی گیلانی کو تقویت ملی ۔
یادوں کی پٹاری بند کر کے آج کا منظر دیکھتے ہیں !
یہ 5 فروری 19ء ہے ۔ جماعت اسلامی نے حسب سابق کشمیر کانفرنس منعقد کی ہے ( یقینا یہ واحد جماعت ہے جو کشمیریوں سے اسی طرح وابستہ ہے جیسے روز اول تھی )اور ہم بھی رسم نبھانے حاضری کوموجود تھے !
ضعیف علی گیلانی کی توانا آواز میں کمزوری کا شائبہ تک نہیں ہے، وہ کشمیر کو یاد کرنے پر ہمارا شکریہ ادا کر رہے ہیں اور میں اپنے آپ کو ندامت میں ڈوبا محسوس کر رہی ہوں ، کہاں تو یہ کہ فرنٹ لائن پر پہنچنے جستجو رہتی تھی اور اب یہ کہ کشمیر کانفرنس میں پہنچنا محال ہے ! کتنی بے دلی اور بے رغبتی سے وقت نکال کر پہنچے ہیں اور آرام سے دھوپ سینکتے ہوئے گویا پکنک منارہے ہیں ، ہر طرف انواع و اقسام کے کھانے پینے کا اہتمام ہے، اور مجاہدین کے لیے فنڈ جمع کرنے والوں کو ایک روپیہ بھی نہ دے پائے ، ایسا نہ تھا کہ سکت نہ تھی بلکہ ہمارے پاس وقت کی کمی تھی، کون بیگ کھولے اور رک کر پیسے نکالے ؟ گھر پہنچنے کی جو جلدی تھی ! ہمارے جذبوں کی شدت کہیں کھوگئی تھی ، گھر جاکر سینکڑوں کام نبٹانے تھے ۔
اس سے زیادہ وقت ہم نہیں دے سکتے تھے، جذبے سرد یا پھر ہم جمود کا شکار ہوچکے تھے ۔
7 فروری کی سرد شام جذبوں کو گرمانے کی خواہش میں یہ تحریر لکھی گئی ۔
٭ 5 اگست 2019 ء٭
اور پھر 5 اگست 2019 ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے گویا اسے ہڑپ کرنے کی بھارتی کوشش پرمہر لگادی گئی ۔ اس کے بعد کشمیر پھر خبروں کی زینت بن گیا ۔ 5 اگست کی شام کراچی کی خواتین نے سڑک پر جمع ہوکر اس کے خلاف فوری اور بھرپور احتجاجی مظاہرہ کیا ۔ اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی اور پھر عید الاضحیٰ کی مصروفیات کے باوجود پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو ا ۔ جس کے تحت یکم ستمبر کی شام برستی بارش میں اہل کراچی اپنے کشمیر کے لیے پھر سڑکوں پر جمع تھے ۔
*یکم ستمبراور یکم محرم الحرام*
یہ اتفاق کبهی کبهار ہوتا ہے جب قمری اور شمسی مہینے یک جان ہوجائیں
اور یہ حسن اتفاق ہجری سال 1441ہ کے آغاز میں آیا جب اہل کراچی کشمیر مارچ کے لیے جمع ہورہے تهے .
تیاریاں اور انتظامات ہفتے بهر سے شروع تهے۔بریفنگ کے پروگرامز جاری تهے ۔جگہ جگہ کیمپ لگا کر خوب شہیر کی جارہی تهی۔ کشمیر پر اطلاعاتی اور معلوماتی فلائرزتقسیم کیے جارہے تهے۔
جمعہ کے دن وزیر اعظم کی ہدایت کے مطابق کهڑے ہونے والوں کو جماعت اسلامی کی جانب سے کشمیر مارچ میں شرکت کی بهرپور دعوت دی جارہی تهی ۔یہ گویا ایک اڈوانٹیج تها جو جذبوں کو مہمیز کرنے کا باعث بن رہا تها اور شاید حکومت کا پروگرام بهی اس وجہ سے زیادہ موثر رہا۔گویا دوطرفہ سود مند رہا لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ کشمیر ایشو پر اہل پاکستان ویسے بهی یکجان اور یکسوہیں اس لیے مومنٹم بہت اچها بن رہا تها ۔
ممکنہ شرکاء موسم کی پیشن گوئی پر بهی نظر رکهے ہوئے تهے ۔ذمہ داریاں تفویض کی جارہی تهیں ۔دستے تشکیل پارہے تهے۔ہمارا نام بهی رضاکاروں میں درج تها ،جنہیں وقت سے پہلے پہنچنا تها۔ہم 5 خواتین اور 3 نوعمر بچے ہائ روف کے ذریعے مقررہ وقت اور جگہ پر پہنچے تو سورج انتہائی شدت پر تها۔
تپتی ہوئی سڑک ابهی ویران تهی مگر استقبالیہ میں ذمہ داران پہنچ چکے تهے۔ آہستہ آہستہ شرکاء پہنچ رہے تهے ،گرمی کے باعث گاڑیوں سے اترتے جهجک رہے تهے،اس شدید موسم میں کئی گهنٹے کس طرح ہم کهڑے ہوں گے ؟ دل بہت فکر مند تها،یا اللہ آپ اپنا سایہ کردیں ، دل مستقل دعا میں مصروف تها۔
وفود کی آمد میں یکایک تیزی آگئی تهی۔ہمیں اپنی ڈیوٹی کی جگہ سمجها دی گئی تهی، اس سےپہلے نماز عصر کی ادائیگی کرنی تهی۔نماز سےفارغ ہوئے ہی تهے کہ شہر کے مختلف علاقوں سے تیز آندهی اور بارش کی خبریں آنے لگیں،دیکهتے ہی دیکهتے بادل یہاں بهی چها گئے اور بوندا باندی شروع ہوگئی جو جلد ہی موسلادهار بارش میں تبدیل ہوگئی، ہم نے اپنی چهتری نکالی مگر وہ اس شدید ہوا میں ناکافی ثابت ہورہی تهی۔ پروگرام کا آغاز ہی ہوا تها کہ خدشات نے سر اٹها نا شروع کردیا ،کراچی میں تو بارش ایمرجنسی کا باعث بن جاتی ہے،اسکول بند، کاروباری اداروں اور دفاتر میں حاضری متا ثر ہوتی ہے۔
خراب سڑکیں ، بجلی کا کرنٹ ، کهلے گٹر ،اف خطرے ہی خطرے !
کون مصیبت اٹهائے گهر سے نکلے۔مگر یہاں تو آنے والوں کی رفتار تیز تر ہورہی تهی ۔
ہم جس جگہ تهے وہاں ہل پارک اور بلند علاقوں سے آنے والا پانی تیزی سے دریا میں تبدیل ہورہا تها اور جلد ہی گهٹنوں گهٹنوں پانی جمع ہوگیا اور قریبی شامیانے میں رکهی کرسیاں اور سامان تیرنے لگا،ایسے میں وہاں افراد باہر نکل گئے ،اللہ کی رحمت برس رہی تهی اور جذبوں کو مہمیز کر رہی تهی،چند گھنٹے پہلے پڑهی سورہ الانفال اور سورہ توبہ لگ رہاتها، آج ہی کے لیے اتری ہیں۔اللہ کی سکینت دلوں کو نرم کر رہی تهی۔
اسٹیج سے آتی آوازیں تهوڑی دیر کو معطل رہیں اور پهر نارمل انداز میں پروگرام جاری رہا جسےشرکاء سکون سے سن رہے تهے۔ مجمع میں کسی قسم کی بهگدڑ یابد نظمی نہیں ہوئی۔ہم اکثر سنتے ہیں کہ گولیوں کی بوچهاڑ میں لوگ سکون سے رہے، تو حیرت ہوتی ہے ،مگر آج اپنی آنکهوں پر یقین آگیا تها کہ جب فرشتوں کا نزول ہوتا ہے تو سکینت طاری ہوجاتی ہے۔جب ہماری ذمہ داری کی ضرورت نہ رہی تو گاڑی میں جاکر بیٹھ گئے،پانی میں شرابور کچھ لوگ کپکپا بهی رہے تهے۔تهوڑی دیر میں گهر پہنچ کر خشک ہوجائیں گے۔ گرم مشروب سے گرمی پہنچا لیں گے، مگر اہل کشمیر کرفیو میں بهوک اور خوف سے کس طرح لڑ رہے ہیں؟ ہم نے چند گهنٹے بهوکا پیاسا رہ کر اندازہ لگا لیا۔یا اللہ ہمارے دل ان کے ساتھ ہیں، نئے ہجری سال پر یہ مہم بات کا شگون ہے کہ اہل کشمیر کے دل ضرور آزادی اور سکون سے ہم کنار ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
٭5 فروری 2020٭
اور 30 سال بعدپھر وہی 5 فروری کادن ہے جب پہلی دفعہ جماعت اسلامی کے اس وقت کے امیر قاضی حسین احمد کی کوششوں سے کشمیر ڈے یکجہتی کشمیر کا آغاز ہوا تھا اور آج اہل کراچی جماعت اسلامی کے ہی تحت 20 کلو میٹر انسانی زنجیر بنائی جارہی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے ۔ موسم ضرور سرد ہے مگر جذبے وہی ہیں ۔