کشمیراور ہم

اسکول سے لے کر کالج تک اور وہاں سے یونیورسٹی تک یہ بات اساتذہ کرام سے سنتے آرہے ہیں، کتابوں میں پڑھتے آ رہے کہ تقسیم ہند کے وقت وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن نے کہا تھا کہ تقسیم ہند کے وقت کسی بھی ریاست کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہو گی، اگر کوئی ریاست میں موجود لوگوں کا اس بات پر اختلاف ہو کہ پاکستان کے ساتھ شامل ہونا ہے یا بھارت کے ساتھ تو ایسی صورتحال میں وہاں کی عوام سے رائے لے کراسکے نتائج کے مطابق فیصلہ حتمی اور قابل قبول ہوگا۔

اہلیان کشمیر کی کی جانب سے بھرپور مذاہمت پر بھارت نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں لے گیا اور بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے دنیا کے سامنے یہ وعدہ کیا کہ وہ جلد اس مسئلے پر تقسیم ہند کے وقت الحاق کے حوالے سے جو طریقہ کار اس وقت کے وائسرائے کے طریقہ کے مطابق رائے شماری کروا کر اس کے مطابق فیصلہ کروا دے گا، مگر تب سے آج تک بھارت اس وعدے سے مکمل طور پر مکر گیا اور یہ راگ الاپنے لگا کشمیر تو بھارت کا اٹوٹ انگ ہے ، حالانکہ مسلم اکثریت کی وجہ سے اسکا پاکستان کے ساتھ ملنا لازم ہے مگر اقوام متحدہ گونگی بنے دیکھ رہی ہے۔

دوسری جانب دنیا کے نزدیک کشمیر سب سے حسین اور خوبصورت ٹکڑا ہے، کیونکہ یہ وادی اپنے دامن میں پہاڑوں کے سائے تلے دریاوں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے اوراسی قدرتی حسن کے باعث و نسبت وادی زمین پر جنت تصورکی جاتی ہے، مگر دنیا والوں تم کیا جانو خطہ ارض پر وادی کشمیر سب سے زیادہ ظلم و جبر سہنے والے خطوں میں صف اول پر ہے، کیونکہ یہ وہ وادی ہے جہاں بارود اور خون کی مہک اب وہاں کے پھولوں اور پھلوں سے زیادہ تیز ہے، دریا اپنی موجوں میں خون لیے پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں، وہاں بسنے والے جوان ہوں، یا بوڑھے بچے ہوں یا عورتیں سب ہرآہٹ پر خود کو بھارتی فوجیوں کی گولی کا نوالہ بنتے محسوس کرتے ہیں۔ یہاں تک بھارت کے ظلم و ستم سے اب تک تقریبا تین لاکھ افراد شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوئے ہزاروں بچے یتیم، ہزاروں بہنیں بیوہ ہو چکیں 10 سے 12 ہزار نوجوان بھارتی آرمی کے ہاتھوں اغواء ہونے کے بعد لاپتہ ہوئے، سینکڑوں بہنوں کی عزت کو تار تار کیا، ہزاروں کی تعداد میں نا معلوم قبریں ملی ہیں، یہاں تک کے شاید کوئی ایسا ظلم نہیں جو مظلوم کشمیری پر آزمایا نا ہو بلکہ پچھلے سالوں میں میں پیلٹ گن اور کیمکلز کا بے جا استعمال کیے گئے اور سینکڑوں معصوم ان کا شکار ہو کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھوں کی بنائی کھو بیٹھے۔

حالات اس قدر خوف زدہ ہیں کے 9 لاکھ فوجی اس وادی میں تعینات ہیں ایک اندازے کے مطابق 7 کشمیریوں پر ایک ظالم فوجی تعینات ہے اور اسی غرور میں دنیائے کفر کے بڑے بڑے سرداروں کی مدد سے پچھلے سال اپنے کالے قانون میں ترمیم کر کے کشمیر کی آزادی کی حیثیت کو ختم کر کےاپنا علاقہ بنانے کی کوشش کی اور کشمیر میں پچھلے 6 ماہ سے تمام بنیادی سہولتیں مطعل ہیں، کھانے پینے کی اشیاء ، میڈیکل کی سہولیات سمیت موبائل فون اور انٹرنیٹ مسلسل بند ہیں، اس ظلم کے خلاف نا ہی کوئی ملالہ بولی، نا امن کی این جی اوز، نا کفار کی لونڈی اقوام متحدہ بولی، باوجود اتنے ظلم و بربریت وہ آج بھی پاکستان زندہ باد، کشمیر بنے گا پاکستان، پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ محمد الرسول اللہ جیسے نعرے بلند کرتے ہوئے قربانیاں دے رہیں ہیں، مسجدوں میں پاکستان کے ترانے گونجتے ہیں، شہداء کو پاکستان کے پرچم میں قبر میں اتارا جاتا ہے، دن رات لبوں پر ایک دعا رہتی ہے اے اللہ کشمیر کو پاکستان بنا دے آزادی کے لیے اس طرح مسلسل ڈٹے ہیں، وہاں موجود بھارتی فوج کا اپنی حکومت سے یہ کہنا ہے اگر فوج کودیے گئے مخصوص کالے قانون واپس لیے گئے تو کشمیر بھارت کے ہاتھ سے نکل جائے گا اور کالے قانون کی وجہ سے ہی ابھی تک کشمیر آزاد نہیں ہوا۔

افسوس کی بات یہ ہے ایک طرف ہم کشمیریوں کی حق خوداریت کے حق میں اور بھارتی قبضہ کے خلاف بات کرتے ہیں اور دوسری جانب ہمارے سابقہ وزیر اعظم کا رویہ ایسا ہے کہ بھارت میں جا کر حریت قیادت سے ملاقات نہیں کرنا چاہتا تھا، پچھلے دور حکومتوں میں خارجہ کے اہم امور کے لئے ہمارا وزیر خارجہ نہیں جو عالمی سطح پر کشمیر پر بات کر سکے، دنیا کو یہ بتاسکے تحریک آزادی کشمیر ایک نظریہ کی بنیاد پر ہے، کشمیر اور پاکستان کے رشتے کی نظریاتی بنیاد دنیا کے سامنے رکھ سکیں، یہاں تک کہ کشمیر کے لئے بین الاقوامی فورم پربات کرنے والے افراد کشمیر کے نقشے و تاریخ کے متعلق نہیں جانتے ،سول سطح پر کشمیر پر ہماری کوئی منظم پالیسی نہیں، کشمیر کمیٹی پر کئی سال براجمان رہنے والے صرف سہولیات اور دعوتیں اڑانیں میں حالات کی سنگینیوں سے غافل سوتے رہے ۔

پچھلے سال وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے اقوام متحدہ کشمیر کا کیس بہت اچھے انداز میں پیش کیا گیا، دنیا کے سامنے سیکولر اور جمہوریت کا دعویدار بھارتی ظلم و بربریت کا پردہ فاش کیا، جب بھارت کو دنیا کے سامنے رسوائی کا سامنا کروایا بلکہ حریت قیادت نے خان صاحب کا شکریہ ادا کیا۔

کشمیر کی آزادی کے لئے ہمیں خود ہی محمد بن قاسم پیداء کرنا ہوگا، ہمیں خالد بن ولید رضی اللہ جیسے بہادر نڈر حوصلہ اپنانا ہوگا، حیدر کرار جیسی شجاعت پیدا کرنی ہوگی، ہمیں اپنے اندر ایسا محمود غزنوی تلاش کرنا ہوگا جو کشمیر کی آزادی کا مجاہد بن سکے اور اگر ایسا کچھ کر نہیں سکتے، تو کم از کم انکے لیے میسر سوشل میڈیاکے ذریعے مظلوموں کی آواز بنیں فیس بک پوسٹ پر، واٹس ایپ، ٹویٹر یا دیگر سماجی سائٹس پر انکے لیے لکھیں بولیں۔

آخرمیں اپنی قوم سے حکمران جماعت و اپوزیشن سے ایک درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اب پھر 5 فروری کا دن آگیا ہے،جس کو دنیا بھر میں پاکستانی اور کشمیری یوم یکجتی کشمیر کے طور پر ہر سال کی طرح سرکاری سطح پرمنانے کا اعلان کرتاہے،یہ مسئلہ ہمارا اپنا ہے ،نیند سے بیدار ہو کر اب ہمارے جاگنے کا وقت ہے کیونکہ اگر ہم مشترکہ آواز بلند کریں گے تو دنیا بات سنے گی، اگر بکھر کر ماضی دہرائیں گے تودنیا بھی ہماری بات پر توجہ نہیں دے گی، مختصر یہ کہ ا گر آج نہ جاگے تو کبھی جاگ نہ پائیں گے۔

دعا ہے اللہ رب العزت کے حضور کے دنیا کی جنت نظیر وادی جلد آزاد ہو۔

جواب چھوڑ دیں