میرا پڑوسی بھی کتنا عجیب تھا۔ پکاتا بھی تھا اور کھلاتا بھی تھا۔ ظالم کے ہاتھ میں ذائقہ ایسا تھا کہ سارے گھر والے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے۔ ہم اپنا غم بھول کر اس کے پکوان کے ذائقے کو اس وقت تک یاد کرتے رہتے تھے جب تک ایک اور غم نہیں لگا دیا کرتا تھا۔ پھر کسی دن لذیذ قورمہ کڑاہی، پھر وہی انگلیاں چاٹنا اور پڑوسی کو دعائیں دینا۔ پڑوسی بے شک چھڑا تو نہیں تھا لیکن جب جب اس کے بیوی بچے دوسرے شہر چلے جاتے تو اس کے گھر سے طرح طرح کے پکوان آنا شروع ہوجاتے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب محلے والے عزیزوں سے بھی زیادہ محبت کرنے والے ہوا کرتے تھے۔ مکانات اگر پختہ ہوتے بھی تھے تو صحن اور گلیاں کچی ہی ہوا کرتی تھیں۔ لوگ کچھ شوق میں اور کچھ ضرورت کی وجہ سے مرغیاں اور بطخیں پال لیا کرتے تھے۔ جن کے گھرکے صحن بڑے ہوا کرتے تھے وہ مال مویشی بھی اپنے صحن میں باندھ لیا کرتے تھے۔ میرا گھر اور صحن دونوں کافی بڑے تھے لیکن مجھے گائے بکریاں پالنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا، البتہ چھوٹی بطخیں اور مرغیاں کافی تعداد میں پالی ہوئی تھیں۔ ان سے انڈوں کے علاوہ گوشت کی ضرورت بھی پوری ہو جایا کرتی تھی۔ محلے کی دوسری مرغیوں اور بطخوں کی طرح اکثر میرے گھر کی مرغیاں بھی باہر گلی میں گھوما پھرا کرتی تھیں۔ جانور کوئی بھی ہو ان سب کو اپنے اپنے مالکوں کے گھروں کا خوب اچھی طرح علم ہوا کرتا ہے اور جب وہ واپس اپنے اپنے ٹھکانوں کی جانب پلٹتے ہیں تو کسی اور گھر کا رخ کبھی نہیں کیا کرتے۔ لیکن کچھ عرصے سے ایسا ہونے لگا تھا کہ مرغیوں یا بطخوں میں سے کوئی ایک کم ہو جاتا۔ آس پاس جس جس گھر میں مرغیاں اور بطخیں پلی ہوئی تھیں ان سے معلومات کرنے پر یہی پتہ چلتا کہ ان کی مرغیوں یا بطخوں کے ساتھ کسی اور کی کوئی مرغی نہیں آئی۔ ڈھونڈنے والوں میں مجھ سے زیادہ میرا پڑوسی پیش پیش ہوا کرتا تھا لیکن پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ مرغی یا بطخ گئی تو کہاں گئی۔ کافی عرصے بعد اس بات کا علم ہوا کہ ہم جس قورمے اور کڑاہی کو بہت مزے لے لے کر کھایا کرتے تھے وہ ہماری ہی مرغی یا بطخ کا گوشت ہوا کرتا تھا۔
سنا ہے کہ کل 5 فروری 2020 کو پاکستان کی حکومت کشمیریوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر اظہار یکجہتی منانے والی ہے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی پاکستان کب نہیں مناتا رہا۔ ایک طویل مدت سے ہر سال 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ کبھی ہاتھوں کی زنجیر بنا کر اور کبھی جمعہ کے جمعہ آدھا گھنٹہ کھڑے ہو کر کشمیریوں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کرتا چلا آیا ہے۔ میں آج تک یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یک جہتی کے اس اظہار کا مقصد و مدعا پہلے کیا تھا اور اب کیا ہے؟ جب تک کشمیر پر بھارت کا تسلط بھارت ہی کے آئین و قانون کے مطابق غیر قانونی تھا اس وقت تک تو ان سے یک جہتی کے زبانی کلامی اظہار کا مطلب و مفہوم کسی حد تک سمجھ میں آتا تھا، لیکن جب سے وہ وادی کشمیر جس پر بھارت نے بزورِ شمشیر قبضہ کیا ہوا تھا، اس کو اپنی آئینی حدود میں لیکر اس کو مکمل طریقے سے اپنی گرفت میں لے لیا ہے تو پھر آنے والی کل کی تاریخ (5 فروری) کو کیا جانے والا یکجہتی کا اظہار میرے نزدیک ایک بے معنیٰ بات ہو کر رہ گئی ہے۔
اگر اس یکجہتی کے اظہار کو حکومت پاکستان کی جانب سے خیال کیا جائے تو کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ ہم بھارت کا کشمیر پر قانونی و عسکری تسلط جائز سمجھتے ہیں؟۔ اگر اس یک جہتی کو آزاد کشمیر کے کشمیریوں کی جانب سے لیا جائے تو کیا دونوں جانب کے کشمیراب ایک کشمیر سمجھے جانے چاہئیں؟۔ پہلے تو پوری وادی “کشمیر” ہی ہوا کرتی تھی اس لئے کہ اقوام عالم کے نزدیک کشمیر ایک متنازع علاقہ تھا اور اس کو پورا حق حاصل تھا کہ وہ خواہ آزاد رہے، چاہے بھارت یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لے لیکن اب اقوامِ عالم کے نزدیک جو پاکستان کے پاس ہے، وہ پاکستان کا ہے اور جس کو اب بھارت نے قانونی طور پر اپنا قرار دیدیا ہے وہ بھارت کا حصہ ہے۔ اگر یہ بات اقوام عالم میں طے شدہ نہ سمجھی جاتی تو بھارت کی اتنی جرات کب ہو سکتی تھی کہ وہ اپنی آئین و قانون میں ترمیم کرکے کشمیر کو بھارت میں ضم کر لیتا؟
بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہو رہی بلکہ یہ گمان یقین سے بھی بڑھ کر ذہن و دل میں اپنی جگہ بنا چکا ہے کہ کشمیر کا سودا کر لیا گیا ہے ، جس کی وجہ سے نہ تو حکومت پاکستان کشمیر کے سلسلے میں کوئی عملی قدم اٹھانے کیلئے تیار ہے اور نہ ہی کشمیر (آزاد) والوں کو یہ اجازت دینے کیلئے تیار ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کی عملی مدد و اعانت کر سکیں۔ اگر کشمیر (آزاد) ایک آزاد و خود مختار علاقہ ہے تو ان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے ظلم و ستم کے خلاف آواز اٹھانے اور ان کی مدد کرنے کیلئے اپنے ہی کشمیر میں داخل ہونے سے پاکستان کشمیریوں (آزاد) کیلئے کیوں رکاوٹ بنا ہوا ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو یہ ابہام پیدا کرتا ہے کہ یا تو آزاد کشمیر بھی بھارت کے مقبوضہ کشمیر کی طرح پابند کشمیر ہے یا پھر بین الاقوامی سطح پر کوئی ایسا معاہدہ ہو چکا ہے جو پاکستان کو کسی بھی قسم کی عملی جدوجہد سے روکے ہوئے ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے قانونی قبضے کو 6 ماہ ہونے کو آ رہے ہیں اور پاکستان کا یہ عالم ہے کہ اب تک لفظوں کے گولے اور ٹوئیٹروں کے مزائیل داغنے کے علاوہ کوئی اور مثبت پیشرفت نہیں کر سکا ہے۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد پاکستان کی زود پشیمانی ملاحظہ کریں کہ خبروں کے مطابق کشمیر کے سلسلے میں “قومی اسمبلی کا مسئلہ کشمیر کے حوالے سے خصوصی اجلاس شروع ہو گیا۔ اسپیکر ڈائس پر پاکستان کے ساتھ کشمیر کا پرچم بھی رکھ دیا گیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان کی مقبوضہ کشمیر کے بھارتی محاصرے کو زیربحث لانے کی تحریک کو اتفاق رائے سے منظور کر لیا گیا اور بھارتی جارحیت کے خلاف مشترکہ قرارداد پیش کردی گئی ہے”۔ مزید زود پشیمانی اظہار کچھ یوں کیا گیا کہ “چیئرمین پارلیمانی کشمیر کمیٹی سید فخر امام نے مسئلہ کشمیر کے تاریخی پس منظر سے ارکان کو آگاہ کیا۔ اپوزیشن نے مقبوضہ کشمیر میں تاحال کرفیو کے نفاذ کا ذمے دار وفاقی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ مقدمہ کشمیر پر کارکردگی رپورٹ پیش کی جائے جبکہ جماعت اسلامی نے مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جہاد کے اعلان کا مطالبہ کر دیا ہے”۔
خبر سن اور پڑھ کر ایسا لگ رہا ہے جیسے کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے، جس سے پاکستان کی اعلیٰ پارلیمنٹ کے ارکان تک نا واقف ہیں اور ان سب کیلئے بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ انھیں کشمیر کے تاریخی پس منظر سے آگاہ کیا جائے۔ کشمیر ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے ایک نوزائیدہ بچہ بھی خوب اچھی طرح واقف ہوتا ہے لیکن ہمارے ذمہ داران اس حد تک غیر ذمے دار ہیں کہ ان کو پرائمری اسکول کے بچوں کی طرح سمجھنا اور بتانا ضروری خیال کیا گیا۔
جماعت سلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے جہاد کا اعلان حکومت کی جانب سے کئے جانے کا مطالبہ بے شک بہت درست ہے لیکن سوال یہ ہے کہ روس کی افغانستان میں مداخلت پر پاکستان کی کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی طرف سے اس قسم کے کسی اعلانِ جہاد کو کیوں ضروری خیال نہیں کیا گیا تھا؟ بلکہ صورت حال ایسی تھی کہ اگر حکومت کی جانب سے جہاد کے اعلان کی مخالفت سامنے آتی تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ اعلان جہاد کرنے والی جماعتیں پہلے حکومت اور ریاست کے خلاف ہی جہاد شروع کر دیتیں۔
حکومت پاکستان کی جانب سے کل 5 فروری 2020 کو کشمیریوں کے ساتھ اعلانِ یکجہتی اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اس بات کا مطالبہ کہ حکومت جہاد کا اعلان کرے، مجھے آج اپنے مرحوم پڑوسی کی یاد بہت شدت کے ساتھ آ رہی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ کیا خوب آدمی تھے کہ حلال بھی میری ہی مرغی کرتے تھے، شام کو “اظہار یکجہتی” کے طور پر میرے ہی ساتھ پورے محلے میں اسے تلاش بھی کرتے تھے۔ مجھ سے تعزیت بھی فرماتے اور میرے ہی گھر اپنے ہاتھوں حلال کیا اور پکایا ہوا نہایت لذیذ اور ذائقے دار کھانا بھجوا کر مجھی سے شکریہ بھی وصول کیا کرتے تھے۔ کیا ایسا ہی کچھ حال ریاستِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام، سیاسی پارٹیوں اور حکومت کا نہیں؟۔