جن پہ تکیہ تھا ۔ ۔ ۔

پاکستان کی ریاست میں جب چوتھے ستون کی طاقت میں اضافہ ہوا تھا ،تو خوش فہم افراد نے اس کو ملک وملت کی تعمیر وترقی کے لیے خوش آئند قرار دیا تھا۔کہا جاتا تھا کہ حکومت اپنے محدود وسائل سے اس طرح گلیوں گلیوں نہیں پہنچ سکتی جیسا کہ پہنچنا چاہیے ، لہذا میڈیا کا کردار خوش آئند ہو گا اوراس سے اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کا کام بخوبی لیا جا سکے گا۔

میڈیا ریاست کو مضبوط کرتا ہے اور عمومی طور سے پوری دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں ریاست کے ہر ستون کو بہت جلد کرپشن کا ایسا گھن لگ جاتا ہے کہ اس کا مقصد گہنا جاتا ہے۔شاید”مایا چیز ہی ایسی ہے”۔

ساری دنیا اس وقت میڈیا کی افادیت سے فائدہ اٹھارہی ہے۔تعلیم ،طب ،سیاست، معیشت غرض کون سی فیلڈ ہے جس میں میڈیا سے فائدہ نہ اٹھایا جا رہا ہو؟خاص طور سے ریاست کے نظریہ کی ترویج میں میڈیا کا خاص کردار ہوتا ہے لیکن ہمارے ہاں یہ صرف سیاست کا پتلی تماشہ دکھاتا ہے۔

الیکٹرانک میڈیا نے گزشتہ کچھ برسوں میں اپنا قبلہ مکمل طور سے تبدیل کیا ہے ، حلانکہ تکنیکی اعتبار سے ترقی بہرحال کی ہے اور ہندوستان کے چربہ ڈراموں سے بھی نجات ملی ، لیکن جس انداز سےتعلیم و تربیت کو نظر انداز کر کے بے حیائی کو فروغ دیا جا رہا ہے ، یہ حیران کن اور قابل افسوس ہے ۔

آخر تفریح اور تعلیم کا کوئی تو تناسب ہو،صبح دوپہر شام ہر وقت سب کچھ انٹرٹینمنٹ کے خانے میں ہی ہو رہا ہے ۔

کبھی کبھی کسی شو میں کوئی علمی شخصیت بلائی بھی جا رہی ہے، تو اس کا وقت ایسا ہوتا ہے جب صارفین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے ۔

اب تو ٹاک شوز بھی مزاحیہ پروگراموں میں شامل ہو گئے ہیں، جس میں مہمان جوتے دکھاتے ہیں۔قصہ مختصر اس وقت کوئی تعلیمی چینل نہیں ہے اور تربیت کا سارا کام مارننگ شوز نے اور ڈراموں نے سنبھالا ہوا ہے ۔

مارننگ شوز میں جتنا تعمیری کام ہو رہا ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اب خواتین اداکاروں سے ان کی ذاتی زندگی کے حوالے سے سوال جواب کے علاوہ ان کے پاس کوئی موضوع ہی نہیں ۔مہمانوں سے فلور پر رقص کروانا لازمی کر دیا گیا ہے،پروگرام کی میزبان کی زبان معیار سے گری ہوئی ہوتی ہے ان میں کوئی بھی علم دوست شخصیت نہیں ۔

اشتہارات کا تو اور برا حال ہے جبکہ کسی زمانے میں ہمارے ملک کے صاف ستھرے اشتہارات دنیا بھر میں سراہے جاتے تھے اور ہمارا پی ٹی وی فیملی چینل کہلاتا تھا۔

نیوز کاسٹرز کے حلیہ اور ادائیگی قابل تقلید تھا۔ہمارے ڈرامے بہترین ہوتے تھے، موضوعات میں تنوع ہوتا تھا جبکہ اس وقت سارے ہی ڈرامے عورت کی محبت،اس کے اغوا، اسکے ساتھ زیادتی ،اس کی سازشوں اور دھوکہ بازیوں پر بنائے جارہے ہیں ۔

اس دوڑ میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے اور ٹرینڈ سیٹر بننے کے شوق نے ہماری مت ہی مار دی ہے۔

ایک معروف ڈرامے میں جب تک ہیروئن ولن کے ساتھ ناجائز رہ رہی تھی اس کی بیوی اور نوکر کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی، لیکن جیسے ہی وہ بڑی منت کہ بعد اس رشتے کو حلال کرنے کی کوشش کرتی ہے، خاندانی ملازم کو لگتا ہے کہ اب یہ “اونچا اڑنے” کی کوشش کررہی ہے، سو وہ اپنی مالکن کو خبر کرتے ہیں، جو عرصے سے شوہر کو تنہا چھوڑ کے دوسرے ملک میں رہ رہی تھی اور جس کو بغیر شادی کے اس تعلق سے کوئی بے چینی نہ تھی اسی لیے وہ پردیس سے واپس نہیں آ رہیں تھیں۔

لیکن” نکاح ” رکوانے وہ پہنچ گئیں۔

اور یوں تو ان کا دل ان کے شوہر کی اس نئی محبوبہ پر تھوکنے کو چاہتا تھا، لیکن انھوں نے ان دنوں کی ادائیگی کر دی ، جس میں ان کے شوہر محبوبہ کے ساتھ بغیر نکاح کے رہے ۔

آ خری قسط میں ہیرو آدھے گھنٹے تک مرتا رہا لیکن کلمہ پڑھنے کی توفیق نہ ہوئی اس سے شاید مصنف کو اسلامائزیشن کی” بو” آتی ہو۔

سچ ہے شہرت سنبھالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی۔

ایک مارننگ شو میں ٹرانس جینڈر کو بلوایا گیا اور عورت سے مرد بننے کے لیے کیا مسئلے ان کو جھیلنے پڑے اس عظیم کام پر بھی روشنی ڈالی گئی۔

ایک اور ڈرامہ میں بھی جب جب ہیروئن کو اللّہ کا خیال آیا تو وہ مزار پر پائیں گئیں اور ان کے پیچیدہ ترین دماغی مرض میں مبتلا شوہر جن کے علاج میں بڑے بڑے ڈاکٹر ناکام ہو چکے تھے،وہ قبروں پر چرسیوں کے حلیے میں ٹہلنے سے صحت یاب ہو گئے ۔حد ہے بھئی۔

پاکستانی معاشرے میں آج بھی بڑے خاندان ہوتے ہیں اور پورے عزت و احترام کے ساتھ خواتین وہاں زندگی گزارتی ہیں، بعض کیسسز میں تو شوہر کی موت کے بعد بھی بیوہ نے سسرال میں رہنا پسند کیا ،لیکن ہمارے ڈراموں نے جیٹھ ،دیور ،بہنوئی سالی ہر رشتے کو پلید کر دیا ہے ۔

سوال یہ ہے کہ کوئی ہے جو ان چیزوں کو کنٹرول کرے ؟کیا ریاست نے جن اداروں کو اس کام کے لیے بنایا ہے وہ ایمانداری سے اپنا کام انجام دے رہے ہیں؟

یہ تو طے ہے اسلامی نظریے کے خلاف کوئی تفریح نہ ہو ،یہ کنٹرول رکھنا حکومت کا کام ہے اور عوام کا کام ہے دباؤ ڈالنا تاکہ قبلہ کچھ تو درست ہوسکے۔

عوام اپنا جائزہ بھی لے کہ سارے کام اس کی پسند کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں، ہر پروڈیوسر یہی کہتا ہے کہ عوامی مقبولیت کے لیے ہمیں یہ سب کرنا پڑتا ہے ۔

یہ جائزہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہمارہ معاشرہ آہستہ آہستہ اس دلدل کی طرف جا رہا ہے جس سے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں اور جس میں گرفتار قومیں اس وقت اپنے خاندان کے تصور کو گم کر چکی ہیں ۔

الیکٹرانک میڈیا میں موجود سلجھا طبقہ اپنی ذمہ داریوں کو دینی اور قومی فریضہ سمجھے اور اس بے لگام میڈیا کی باگ ڈور سنبھالے ۔

1 تبصرہ

جواب چھوڑ دیں