آپ کو صحابہ میں سے کس کی شخصیت بہت زیادہ متاثر کرتی ہے؟ مزاج کا اندازہ لگانا چاہ رہی ہوں ۔
میں کافی وقت سے علمی بحث و مباحث سے اخذ کردہ نکات پہ غور کر رہی تھی کہ اچانک بنت عبداللہ نے سوال کر دیا ۔
انہیں خبر نہ ہوئی کہ سوال کتنی مشکلوں اور کیسی محبتوں کے اثر میں ڈال گیا ہے ۔ کیا یہ ممکن تھا کہ بتایا جاتا ہمیں کون سی شخصیت بہت متاثر کرتی ہے ؟ ہمارا حال اور مقام تو ان سا ہے جو چھوٹے سے قد کے باعث کہیں ایک کونے میں عقیدت سے سمٹے کھڑے ہوں ۔ جن کے بارے میں سوال کیا گیا تھا وہ تو ایسے عظیم لوگ ہیں کہ جن کا ذکر سن کے، جن کا ذکر پڑھ کے آنکھیں نم نہ ہونے کو بغاوت سمجھتی ہیں، دل محبت سے معمور نہ ہونے کو گستاخی خیال کرتا ہے اور اس معاملے میں اختیار ہی کہاں؟ مگر یہ سچ ہے کہ اللہ کے ہاں بھی درجات ہیں ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علھیم اجمعین کا گروہ وہ کہکشاں ہے کہ ہر ستارہ جس کا درخشاں ہے ۔
سورہ فاتحہ میں انعام یافتہ لوگوں کا ذکر ہوا تو مفسرین نے ان انعام یافتہ کی وضاحت بمطابق تصریحِ قرآن انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی کی۔ مجھے صدیقین کا لفظ پڑھ کے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی یاد آ جاتی ہے ۔ ان کی قابل محبت شخصیت، ان کی عظمت و صداقت، ان کا یارِ غار ہونا ، محسنِ اسلام، خلیفہ اول اور سب سے بڑھ کے رفیقِ خاص ہونا ہر ہر پہلو اور ہر ہر لحظہ جو ان کے بارے میں پڑھا ہوا ہے، لمحات میں منظر بنا جاتا ہے ۔ سوچ کی رفتار کی تیزی ایسے مواقع پہ مفید ثابت ہوتی ہے ۔ چند مناظر بطور خاص ڈھیر سا پانی لیے چلے آتے ہیں ۔ صدیقؓ کا لقب آپ کو نبی اکرم ﷺ نے دیا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کے سچا ہونے ، سچائی کی گواہی دینے ، تصدیق میں سبقت اور کثرت کی سبب یہ خوبصورت لقب آپ کی شخصیت کی زینت بنا ۔ جسے نبیؐ نے صدیقؓ کہہ دیا اس کے صدق میں کیسا اور کس بدقسمت کو شائبہ ہو سکتا ہے ۔
واقعہ معراج کے وقت آپ رضی اللہ عنہ اس لقب کی صداقت کی گواہی دے گئے ۔ بعض نے آپ سے کہا تھا! “اپنے ساتھی کی خبر لیجیے ۔ اس کا خیال ہے کہ اسے رات ہی میں بیت المقدس کی سیر کرائی گئ ہے ۔” ابوبکرؓ نے پوچھا : “کیا واقعی آپؐ نے یہ فرمایا ہے؟ ” لوگوں نے کہا : “ہاں، آپ نے ایسا ہی فرمایا ہے۔” سیدنا ابوبکرؓ فورا بولے : “اگر یہ آپؐ ہی کا ارشاد ہے تو بالکل سچ ہے ۔” لوگوں نے کہا : “کیا آپ واقعی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ وہ ( نبیؐ) رات کو بیت المقدس گئے اور صبح ہونے سے پہلے واپس آ گئے؟”
سیدنا ابوبکر نے کہا ! “مجھے اس بات کی تصدیق کرنے میں کوئی عار نہیں بلکہ میں تو اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ ایمان رکھتا ہوں کہ آپ کے پاس صبح و شام آسمان کی خبریں آتی ہیں ۔
وہ ایمان تھا جو دلوں میں ایسا راسخ ہوا کہ کوئی جڑ نہیں کاٹ سکتا تھا ۔ سابقون الاولون کے ایمان کے کیا ہی کہنے ۔ اس عقیدہ توحید کی پاکی اور پختگی کے کیا ہی کہنے جس نے دلوں کو روشنی سے منور کیا اور کانوں کو جنت کی نوید سننے کا راستہ دیا ۔ صدیق لقب کو تو احد پہاڑ نے بھی سنا جب آپ اپنے پیارے صحابہ ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنھم کے ہمراہ پہاڑ پہ چڑھے تو وہ حرکت کرنے لگا ،رسول اکرمؐ نے فرمایا :
اے احد! پرسکون ہو جا، تجھ پر اس وقت ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید موجود ہیں ۔
دکتور علی محمد صلابی کے اپنی کتاب ‘سیدنا ابوبکر صدیقؓ ‘ میں درج کیے گئے دلنشیں، سحر میں لپٹے جملے بھی ذہن کے پردے پہ جگمگاتے رہتے ہیں ،لکھتے ہیں !”سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہؐ سے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم کی طویل اور بے مثل رفاقت کا حال یوں بیان فرمایا ہے : “میں رسول اللہؐ کی زبان مبارک سے اکثر ایسے دلنشیں جملے سنا کرتا تھا :
ان عام سے جملوں میں مقام و مرتبت کا اندازہ لگانا کس قدر سہل ہے اور اس قدر ہی دلپذیر بھی ۔ اپنے ساتھی حضرت ابوبکرؓ کی عظمت کی گواہی خود سیدنا عمرؓ نے ان الفاظ میں دی :
آپ ہمارے سردار، ہم میں سے بہتر اور رسول اکرمؐ کو سب سے زیادہ عزیز ہیں ۔
اللہ کے نبیؐ کے عزیز جس کے بارے میں کہا کہ “میں امت میں سے کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا، مگر وہ میرے بھائی اور ساتھی ہیں ” وہ اللہ کے نزدیک بھی کتنا عزیز ہوگا ۔ خالق کائنات، بادشاہوں کے بادشاہ ،رب پاک کے پیامبر کو جس وقت تکلیفوں ،اذیتوں اور جا بجا رکاوٹوں کا سامنا تھا ،کفار جس کے قتل کے درپے تھے، اس وقت اس پہ ایمان لانے والا، اس کی تصدیق کرنے والا اور پیغام الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والا اللہ کو بھی کتنا عزیز ہو گا کہ اس کی محبت اب بھی سوائے بدبختوں کے اور کسی کے دل سے نہیں نکل سکتی ۔ اس پاک نفس رضی اللہ عنہ کے ذکر کے ساتھ ہی سورہ مومن کی آیت بھی ذہن میں آتی ہے اور ہمیشہ دل کو درد بھرا جھٹکا لگا جاتی ہے ۔
کیا تم ایسے آدمی کو قتل کرتے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے
تم ہلاک ہو جاؤ!” یہی الفاظ اس وقت حضرت ابوبکرؓ نے کہے تھے جب کفار نے آپؐ پہ تشدد کیا تھا ۔
آپ رضی اللہ عنہ اس واقعے کو بیان کر کے رونے لگے کہ آپ کی داڑھی آنسوؤں سے تر ہو گئی، پھر فرمایا : “اللہ کی قسم! مجھے بتاؤ : “کیا آل فرعون میں سے ایمان لانے والا آدمی بہتر ہے یا ابوبکر صدیقؓ بہتر ہیں؟ ” لوگ خاموش رہے ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” اللہ کی قسم! ابوبکر کی زندگی کی ایک گھڑی آل فرعون کے مومن آدمی کی پوری زندگی سے بہتر ہے۔
وہ یارِ غار دو میں سے دوسرا اور جن کا تیسرا اللہ تھا ، کیا ہی اعلی درجہ پایا ۔ مکہ میں بھی اپنے نبی ﷺ کی حفاظت کے لیے پروانہ بن کے آپ کے ارد گرد رہے، ہجرت کے وقت بھی ساتھ کی سعادت نصیب ہوئی اور مدینہ میں بھی رفیق خاص رہے ۔ خلیفہ بنے تو امت پہ وہ احسان کر گئے جن کا جواب دینا کسی کے بس کی بات نہیں ۔ نبیؐ کا مرض الموت شروع ہوا تو تب ایک تاکید یہ بھی کی کہ مسجد میں ابوبکرؓ کے علاوہ کوئی دروازہ کھلا نہ رہنے دیا جائے ۔ بخاری کی حدیث ہے : ” مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر ابوبکر نے اپنی صحبت اور مال سے ممنونِ احسان کیا ہے۔اگر میں اپنے رب کے سوا کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا،لیکن ہمارا باہمی تعلق اسلامی بھائی چارے اور محبت کا ہے۔ مسجد(نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جائیں لیکن ابوبکر کا دروازہ کھلا رہنے دیا جائے۔
باتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں، مناظر کی دھند ہے کہ آنکھوں سے چھٹتی نہیں مگر ان سب کو بیان کر دینے کی سکت بھی نہیں ۔
میں نے بنت عبداللہ کے سوال کے جواب میں چمکتی آنکھوں اور محبت و عقیدت سے معمور دل سے کہا : “مجھے ہمیشہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھہ اور حضرت ابوبکرؓ کی شخصیات نے بے حد متاثر کیا ہے ۔ ان کا ایمانی، باوقار، بارعب، ٹھرا ہوا سا پرنور تاثر ہمیشہ میرے دل کو ٹھنڈک سے بھر دیتا ہے ۔
اللہ کرے جنت کے دروازے ہم پہ بند نہ ہوں اور ہم وہاں انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین سے ملاقات کریں کہ چشم منتظر ہےاور قلب تڑپتا ہے ۔
حوالہ جات:
1 ۔ المستدرک للحاکم : 63،62/3
2۔ صحیح البخاری، حدیث : 3675
3۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، ص : 26
4۔ صحیح البخاری، حدیث: 3668
5۔ المؤمن، آیت : 28
6 ۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ، ص : 100،99
7۔ صحیح البخاری، حدیث : 3654