پوچھتا ہوں میں اکثر دل سے
کیوں روٹھ گیں خوشیاں مجھ سے
شبِِ کرب کا عادی ہوں برسوں سے
نیند بھی رہتی ہے خفا مجھ سے
دل کو بہلانے کا نسخہ لاوُں کہاں سے
رگ جاں سُلگ رہی ہے برسوں سے
گزار دی زندگی کچھ اسطرح سے
فطرًتا خار دامن سے اُلجھتا ہو جیسے
ڈرتا ہوں حالِ دل کی رُسوای سے
بابر گزاردی زندگی تم نے سزا ہو جیسے