پاکستانیوں کے نام کھلا خط
چند توجہ طلب گزارشات
اے آر وائی ڈیجیٹل سے پیش ہونے والا ڈرامہ میرے پاس تم ہو تقریبا اختتام پذیر ہے، اس ڈرامہ کی کوئی خاص کہانی نہیں ، مگر مصنف نے اس ڈرامے میں ہمارے اسلامی اقدار ، پاکستانی تہذیب اور عورت کے تقدس کی دھجیان اڑا دیں، ڈرامے میں شروع سے بےغیرتی دکھائی جارہی ہے،جب مہوش اسلام آباد سے آتی ہے ، شہوار کے ساتھ ائیرپورٹ پر دیکھ دانش کی غیرت سو جاتی ہے،طلاق دینے سےپہلے شادی کی سالگرہ منانا ۔
اپنے ہاتھ سے اپنی بیوی کو دوسرے مرد کے حوالے کرنا۔
طلاق کے بعد مہوش کا بغیر عدت گذارے، شہوار کے ساتھ چلے جانا۔
مہوش کا شہوار کے ساتھ بغیر نکاح کے رہنا۔
اس ڈرامے کے ذریعے ہمارے خاندانی نظام پر ضرب لگائی جا رہی ہے۔ نکاح، طلاق، عدت، زنا کی سزائیں یہ سارے الفاظ ختم کرکے عشق کا نام استعمال کیا جارہا ہے اور ہماری اخلاقی پستی کا یہ حال ہے کہ ڈرامہ سپر ہٹ ۔
کوئی عورت کسی غیر مرد کے ساتھ ایک رات گذارے تو شوہر تو کیا گھر والے بھی قبول نہیں کرتے۔ جبکہ سوشل میڈيا پر یہ سوال پوچھا جارہا ہے کہ کیادانش ایک زانیہ عورت کو معاف کرکے دوبارہ اسکے ساتھ رہنے لگےگا؟
اس ڈرامے نے بے حیائی اور بے شرمی کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور اس سے بڑا صدمہ اس بات کا ہے کہ عوام کی آنکھوں میں ایسی پٹی بندھ گئی ہے کہ برائی کے اس دلدل میں وہ جس تیزی سے گر رہے ہیں ان کو احساس تک ہی نہیں۔
ایک بدکردار لڑکی کو مظلومیت کے روپ میں ڈھال کر اس کو معصوم دکھانا۔ ننھے بچے رومی کے ذریعے تمام بچوں کی برین واشنگ کرنا۔باپ اور بیٹے کے رشتے میں عزت احترام کے بجائے بے شرمی اور بے تکلفی والے تعلق کو پروان چڑھانا۔
ان کا ننھا منا سا بچہ ماں باپ کے درمیان ہوئی طلاق سے لا تعلق اپنی استانی سے اپنے باپ کی سیٹنگ کراتا پھر رہا ہے۔
مستزاد یہ کہ وطن عزیز کی اسلامی روح اور پاکستانی تہذیب و ثقافت کو مجروح کرتے ہوئے ڈرامے میں انگریزی ڈانس اور ہندو بھگوان کی مورتیوں کو بھی پرموٹ کیا گیا ہے۔
اب اس فضول اور بکواس ڈرامے کے چکر میں آدھی قوم پاگل ہوئی پڑی ہے۔
آخری قسطیں سینما گھروں میں دکھائی گئی اور ایڈوانس بکنگ کا یہ عالم ہے کہ مہنگائی کا رونا روتی اور دھائیاں دیتی قوم نے اب تک 2 کروڑ سے زائد روپے کی ٹکٹیں خرید لی ہیں۔
دین اسلام نے مرد کو طلاق کا حق دیا ہے اور عورت کو خلع لینے کا حق دیا ہے ۔ لیکن ہمارے میڈیا پر دین اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
کیا بحیثیت پاکستانی میں اور آپ اتنا کھلا ذہن رکھتے ہیں کہ یہ سوچ سکیں کہ اگر میرے پاس اسلام نہیں تو میرے پاس کیا رہیگا میرے پاس اسلام نہیں تو میرے پاس کچھ نہیں۔