‘مے آئی کم ان میم؟” مائدہ نے میڈم انیقہ سے اجازت طلب کی تو انہوں نے اسے گھورا ”اتنی دیر تک کہاں تھی آپ؟”کرخت لہجے میں پوچھا گیا ”میم میں نماز ادا کرنے گئی تھی” ”ہممم ٹھیک ہے۔ ۔ ۔ آؤ۔” ان کے چہرے پر تھوڑی نرمی آئی وہ تیزی سے چلتی ہوئی اپنی سیٹ پر آ گئی ”مانگ آئی دعا ٹیسٹ کیلئے”ساتھ بیٹھی صبا نے سوال کیا لیکچر کے بعد ان کا کیمسٹری کا ٹیسٹ تھا۔ ”ہاں۔ ۔ ۔ سب کیلئے مانگی۔”مائدہ نے بتایا۔ ”ہونہہ”صبا نے طنز سے مسکراتے ہوئے سر جھٹکا تو مائدہ تاسف سے اسے دیکھ کے رہ گئی، کلاس ختم ہونے کے بعد وہ سب اپنے بیگز اٹھائے لان میں آگئیں۔
”یار میم انیقہ نے پھر کم مارکس دیئے مجھے۔حالانکہ اتنی محنت کی تھی۔دعا بھی مانگی تھی۔کبھی بھی اے پلس نہیں دیتیں مجھے۔”مائدہ کا موڈ آف تھا ”وہ سب کے ساتھ ہی ایسا کرتی ہیں۔ تم کوئی انوکھی تو نہیں کہ تمہیں اے پلس دے دیں۔”صبا نے وہی اپنے جلے کٹے انداز میں کہا تو مائدہ کے ساتھ باقی سب بھی خاموش ہوئیں۔سب جانتی تھیں کہ صبا کی عادت ہے ایسی طنزیہ باتیں کرنا ”اور سناؤ سارہ…ہو گئی تمہارے ماموں کی شادی؟ ؟” صبا اب سارہ کی طرف متوجہ ہوئی ”ہاں ہو گئی اور بہت مزہ آیا۔ ۔ ۔البم لائی ہوں میں۔’سارہ ایک دم سے پرجوش ہوئی ”ارے تم نے یہ لیمن کلر کا ڈریس کیوں پہنا؟بالکل بھوتنی لگ رہی ہو۔” صبا نے تصویریں دیکھتے ہوئے سارہ کے سانولے رنگ پہ چوٹ کی تو سارہ نے شعلہ بار نظروں سے اسے دیکھا۔
”خود اپنے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ صبا بی بی جسے کوئی بھی کلر سوٹ نہیں کرتا۔۔۔؟؟”سارہ بھڑکی تو مائدہ نے اس کا ہاتھ دبا کر اسے خاموش کرانا چاہا کہ بدمزگی نا ہو جائے۔ ”اگر تمہیں تصویریں نہیں دیکھنی تو تم یہاں سے جا سکتی ہو۔”سارہ نے تلخی سے کہا ”مجھے بھی کوئی شوق نہیں ہے یہاں بیٹھ کر وقت ضائع کرنے کا۔”صبا بھی غصے سے کہتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔ ”کتنی بدتمیز ہے یہ۔”سمیعہ نے اسے جاتے دیکھ کر کہا ”ہاں یار آج کل کچھ زیادہ ہی بدتمیزی کرنے لگ گئی ہے۔
لیکن کیا کریں؟ دوست ہے۔”مائدہ نے بیچارگی سے کہا”ایسے ہوتے ہیں دوست۔۔؟”سارہ ابھی بھی غصے میں تھی ”یار تمہیں تو اس نے پہلی بار ایسے کہا ہے مجھے تو اکثر کہتی رہتی ہے۔حتیٰ کہ میرے کلاس چھوڑ کے نماز پڑھنے پر بھی طنز کرتی ہے کہ میں ٹیچرز کی نظر میں اچھا بننے کیلئے ایسا کرتی ہوں۔اُف مجھے پتہ ہے کہ میں کیسے اسکی باتیں برداشت کرتی ہوں۔”مائدہ نے دکھی دل سے کہا ”پتہ نہیں خود کو کیا سمجھتی ہے؟”سمعیہ نخوت سے بولی ”چلو یار چھوڑو۔۔۔اُسکا عمل اُسکے ساتھ۔میں تو بس یہ سوچ کر خاموش رہتی ہوں کہ اللہ ہی اسے ان باتوں کا جواب دے گا۔ میں تو دے نہیں سکتی۔”مائدہ نے بات ختم کرتے ہوئے کہا۔
آپی آپکو پتہ ہے؟ آج کالج میں کیا ہوا۔۔؟” مائدہ چائے کا کپ آپی کو تھماتے ہوئے بولی ”کیا ہوا؟”آپی کے استفسار پر اس نے آج پیش آنے والا سارا واقعہ سنا دیا ” قسم سے آپی صبا کا چہرہ اس وقت دیکھنے والا تھا جب سارہ نے جواب دیا۔”مائدہ ہنسی ”اور میں تو حیران ہوں کہ کیسے فٹ سے جواب دیا سارہ نے میں ہوتی تو بس منہ بسور کے ہی رہ جاتی۔”اس نے چائے پیتے ہوئے آپی کو دیکھا جو خاموشی سے اسے دیکھ رہی تھیں ”کتنے مزے کی ڈش ہے نا۔۔!!”آپی ایک دم سے بولیں ”کونسی ڈش۔۔؟”وہ چونکی ”وہی جو ابھی تم کھا رہی ہو۔”آپی نے سپاٹ لہجے میں کہا ”میں تو چائے پی رہی ہوں۔”وہ الجھی ”ارے۔۔۔مردہ بھائی کا گوشت۔ ۔ ۔ ۔!!”آپی نے کہا تو وہ کانپ سی گئی ”کیا کہہ رہی ہیں آپی۔۔؟” ”کیوں۔۔۔کیا میں کچھ غلط کہہ رہی ہوں؟کسی کی پیٹھ پیچھے برائی یعنی غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے برابر نہیں ہے کیا؟”آپی نے پوچھا ”مگر آپی میں کچھ غلط تو نہیں کہہ رہی۔ وہ واقعی ایسی ہے۔ہر بات پہ طنز کرنا، ہر چیز میں خامی نکالنا، ہر کسی کا مذاق اڑانا، یہسب برائیاں اس میں ہیں۔
مائدہ نے اپنی صفائی پیش کی ”ظاہر ہے یہ سب برائیاں اس میں ہیں تو غیبت ہے۔ ورنہ یہ برائیاں نا ہوں اور تم اپنی طرف سے جھوٹ کہو تو وہ بہتان ہو گا۔”آپی نے کہا تو وہ شرمندگی سے سر جھکا گئی ”اور تم نے یہ کیا کہا کہ تم اُسکے کسی طنز کا جواب نہیں دیتی بلکہ معاملہ اللہ پر چھوڑ دیتی ہو۔اللہ پر کیا چھوڑنا جب تم خود ہی حساب برابر کر لیتی ہو اُسکی برائیاں کر کے۔
سب کے سامنے اسے بُرا بنا کے۔”اس پر گھڑوں پانی پڑ گیا ”تم ماشاءاللہ نماز روزے کی پابند ہو مگر کیا تم نہیں جانتی کہ ایک مومن کبھی بھی منافق نہیں ہو سکتا اور غیبت کر کے تم منافقت جیسے گناہ اور اخلاقی برائی کی بھی مرتکب ہوتی ہو۔خود سوچو جو برائیاں ابھی تم نے صبا کی کیں وہ اُسکے سامنے کر سکتی ہو؟”آپی کے پوچھنے پر اس نے نفی میں سر ہلایا ”تو پھر اس منافقت سے بچو جو تم کر رہی ہو۔تم حقوق اللہ پورے کرتی ہو اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے۔
مگر تم نے یہ نہیں سنا کہ اللہ پاک نے فرمایا ہے کہ میں تب تک کسی کو معاف نہیں کروں گا، جب تک میرا بندہ اسے معاف نا کر دے؟اور غیبت حقوق العباد کے زمرے میں آتی ہے۔ آپکو تب تک معافی نہیں ملے گی جب تک وہ انسان آپکو معاف نا کر دے جسکی آپ نے غیبت کی ہوتی ہے۔تو پھر کیا حاصل۔۔؟”آپی نے سمجھاتے ہوئے اسے دیکھا جو شرمندہ سی سر جھکائے بیٹھی تھی ”میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں ہے۔بلکہ یہ سمجھانا ہے کہ اس برائی میں سوائے گھاٹے کےا ور کچھ نہیں رکھا۔یہ بس زبان کا ایک چسکا ہے۔جیسے گھن لکڑی کو چاٹ جاتی ہے ویسے ہی یہ برائی آہستہ آہستہ آپکی نیکیاں کھا جاتی ہے اور پھر آخر میں آپ کے پاس کچھ بھی نہیں بچتا۔نا دین اور نا دنیا! کیونکہ جیسے غیبت نیکیاں کھاتی ہے ایسے ہی رشتے بھی کھا جاتی ہے اور دلوں میں محبت کی جگہ صرف نفرت اور بغض بھر دیتی ہے۔’اور تم جسکی بھی برائی کرتی ہو اُسکے حصے میں تمہاری نیکیاں جاتی ہیں اور تمہارے حصے میں ان کے گناہ آتے ہیں۔ آخرت میں اس کا عذاب الگ۔
سفر معراج میں حضور اکرمؐ نے ایسے لوگوں کو دیکھا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنا منہ اور سینہ نوچ رہے تھے۔ پوچھنے پر بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو دوسروں کا گوشت کھاتے اور ان کی عزت سے کھیلتے تھے۔یعنی غیبت کرتے تھے۔کیا تم بھی ان لوگوں میں شامل ہونا چاہتی ہو؟ اگر نہیں تو پھر وعدہ کرو مجھ سے کہ آئندہ غیبت سے بچو گی۔’آپی نے کہا تو اس نے اپنا جھکا ہوا سر اٹھایا ”میں وعدہ کرتی ہوں میں آئندہ غیبت نہیں کروں گی اور ان سب سے معافی مانگوں گی جِن کی میں نے غیبت کی ہے۔”مائدہ نے بھیگی آنکھوں سے کہا تو آپی خوشی سے مسکرا دیں۔