جب کوئی شخص رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کو اختیار کرتا ہے، جسے قرآن میں اللہ نے سورۃ آل عمران میں یوں بیان کیا کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ لوگوں سے کہہ دے کہ جو اللہ سے محبت کرنا چاہتا ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے محبت کرے ، تاکہ رب تمہارے گناہ معاف فرمادے۔
یہی اتباع خودی کو بلند کرکے اس مقام پر لے جاتی ہے کہ خودی کی یہ حد اسے خلوتوں سے نکال کر جلوتوں میں لے جاتی ہے، اسی قوت تسخیر یعنی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے مومن ہر پستی کو بالا کرنے کی قدرت رکھنے لگتا ہے ، یہ خودی ہی مومن کی وہ فراست جو اسے اللہ کی نظر سے اس کائنات کا مشاہدہ کرواتی ہے، جو صرف عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا ہے، اس خودی کی معراج کا عالم یہ ہے کہ علامہ اقبال فرماتے ہیں! یہ خودی مجھے ایسے رازوں سے آگاہ کرتی ہے کہ جس کی ادائیگی کے لئے کم از کم نفس جبرائیل درکار ہے، کیونکہ یہ وہ راز خدائی ہے ، جسے زبان ادا کرنے سے سراسر قاصر ہے، خودی کی کاملیت کا انحصار عشق مصطفی پر ہے ، جو جلوتوں میں کھونے پر اپنی مقام سے آگاہ ہوتی ہے، اسی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر سے دونوں عقل و عشق رومی و رازی مراد پاجاتے ہیں۔
کوئی سائنسی جوابات کی تلاش میں نکلے تو اسے عقل کے نیو ٹران جس کا مرکز نیو کلئس یعنی دل کہ گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں کوئی فلاسفر عقل کو عقل ُکل سمجھ کر سفر میں نکلے تو کائنات کے جملہ جمالیات اسے عقل کی انتہا تک پہنچادیتے ہیں، جس کی خرد و عقل کی گتھیاں سلجھانے پر بھی تشنگی رہ جائے اسے صاحب جنوں کردیا جاتاہے، گویہ اس سفر کی ابتدا تو ہے مگر انتہا کوئی نہیں اور یہی وہ عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ اقبال کہتے ہیں اگر کسی کافر کے دل میں بھی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف ایک رمک پیدا ہوجائے تو وہ کافر بھی مسلمان ہوجاتا ہے ۔ اور اگر کسی مسلمان کا دل بھی عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی ہو، اس شخص سے بڑا کوئی کافر و زندیق نہیں۔
علامہ اقبال کے بچپن کا ایک واقعہ ہے کہ ایک دفعہ ایک بھکاری علامہ محمد اقبال کے گھر آیا اور زور زور سے دستک دینے لگا اقبال باہر آئے اور اس بھکاری کو ڈانٹنے لگے اور غصے میں آکر اس کا کشکول زمین پہ دے مارا اتنے میں علامہ اقبال کے والد صوفی نور محمد آئے یہ ماجرہ جب دیکھا توکچھ پیسے اسی بھکاری کو دے کر معافی مانگی اورعلامہ اقبال کو اپنے ساتھ کمرے میں لے گئے اور کہنے لگے‘‘اے اقبال! اگر اس بھکاری نے بروز قیامت آقا و مولی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو تمہاری شکایت لگا دی تو بتائو کس منہ سے آقا کا سامنا کروگے؟’’’’بس یہ بات سمجھنے کی دیر تھی کہ علامہ اقبال کی زندگی عشق مصطفی سے سرشار ہوگئی اور یہی واقعہ اقبال کی زندگی کا وہ Turning Point بنا کہ پھر زندگی کا ہر دن اسی احتیاط سے گزارا کہ روز قیامت مجھے آقا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حضور شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس شعر میں تو علامہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کی انتہا کردی فرمایا!
لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتاب
گنبد آبگینہ رنگ تیرے محیط میں احباب
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب کچھ آپ کے وجود ہی کی بدولت عالم وجود میں آیا اگر آپ نہ ہوتے تو کچھ بھی نہ ہوتا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہ قلم بھی آپ ہیں، جس سے میری تقدیر لکھی جانی ہے، وہ تختی بھی آپ ہیں جس پر تقدیر لکھی جانی ہیں، یا رسول اللہ سارا قرآن بھی آپ ہیں سارا قرآن آپ ہی کی تعریفوں سے بھرا ہوا ہے ۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ساری وسیع و عریض کائنات زمین و آسماں آپ کے محیط وجود میں اس طرح ہے جیسے سمندر میں ایک بلبلہ ہوتا ہے ،یا رسول اللہ سب کچھ آپ ہی ہیں سب کچھ آپ ہی کی بدولت ہے۔بات اگر جلوتوں میں مصطفائی کے بعد خلوتوں میں کبریائی کی کی جائے تو اقبال کا اللہ کے ساتھ تعلق بڑا دوستانہ معلوم ہوتا ہے ، اقبال اللہ کے نام خلیل یعنی (دوست) سے بخوبی واقف نظر آتے ہیں کہتے ہیں یا اللہ جس دن میرا نامہ اعمال تیرے حضور ُکھلے گا میرے اعمال دیکھ کر تو بھی شرمسار ہوگا اور مجھے بھی شرمسار کرے گا لیکن یہی بات جب جلوتوں میں مصطفائی تک پہنچتی ہیں تو اقبال سے نہ صرف وہ الفاظ چھین جاتے ہیں، جن سے ستاروں کے جگر چاک ہوجاتے ہیں بلکہ سر ادب ومحبت و ندامت سے ُجھک جاتا ہے اور خدا کے حضور کہنے لگتے ہیں کہ یارب میں تو فقیر ہوں پر ُتو تو ہر چیز پر قادر ہے اگر تو چاہے تو مجھ سے حساب نہ لینے پر بھی قادر ہے اگر حساب لینا لازما مقصود ٹھہرے تو میرا نامہ اعمال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے نہ کھولنا میں اپنے اس نامہ اعمال کے ساتھ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا سامنا نہیں کر پاونگا ۔
نکلی تو لب اقبال سے ہے، کیا جانیے کس کی ہے یہ صدا
پیغام ا سکوں پہنچا بھی گئی، دل محفل کا تڑپا بھی گئی
اقبال کے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہا یہ ہے کہ کہتے ہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کا عشق میری نماز کا امام نہ ہو تو مجھے میری اس نماز سے کچھ حاصل نہ ہوگا، کیونکہ آپ کے عشق کے بغیر میرے قیام و سجود (جن کی روح عبادت ہے) وہ عبادت کی روح سے خالی رہے گے اور یوں یہ عبادت مجھے کچھ فائدہ نہ دے سکے گی ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے عشق سے ہی مجھے آپ کی تشریف آوری سے پہلے کی بے رونق و بےسروساماں کائنات کا ادراک ہوتا ہے۔ مگر اس کی سمتیں بے شمار اسی عشق نے جب صداقت اختیار کی حضرت ابوبکر سیدنا ابوبکر صدیق کہلائے ، یہی عشق عدل و انصاف کی صورت میں سیدنا عمر فاروق میں دکھائی دیا، اسی عشق نے حضرت عثمان کو وہ سخاوت بخشی کہ آپ سیدنا عثمان غنی کہلائے ، یہی عشق علم و معرفت و حکمت میں سیدنا علی کرم اللہ میں نظر آیا۔
یہی عشق میدان جنگ میں خالد کی تلوار میں دکھائی دیتا ہے، اسی عشق کی نظر جب معین الدین چشتی نظام الدین اولیا عثمان علی ہجویری پر پڑتی ہے تو لاکھوں لوگ انہیں دیکھ کر اسلام قبول کرلیتے ہیں، کبھی یہ عشق خیبر کے دروازے کی دستک توڑ کر اکھاڑ پھینکتا دکھائی دیتا ہے، اقبال نے ان تمام رازوں کو آشکار کرکے اپنی کیفیت بھی بیاں کی ہے۔
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
عشق کے دم سے ہی وہ زندگی ہے زندگی جاوداں ہے اقبال کہتے ہیں اگر تو ان سب اصرار سے واقف ہوجائے تو ممکن ہے کہ موت تجھ پر حرام ہوجائے، عشق کی تقویم (کلینڈر) میں تو وہ زمانے بھی موجود ہیں، جو انسانی شعور سے بہت پرے بس عشق کے ادراک میں آتے ہیں۔ عشق وہ مسافر ہے جس کے ہزاروں مقام ہیں پس عشق زندگی ہے اور زندگی عشق ہے، اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ پورے کا پورا دین اسلام اور اس دین کی کامیابی کیا ہے تو میں کلیات اقبال کا حاصل (conclusion)علامہ کہ اس ایک شعر میں بتا سکتا ہوں کہ پس۔۔۔!
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا، لوح و قلم تیرے ہیں