جھوٹ، ذلّت و رسوائی بنے مقدّر

انسان کا اخلاق اور کردار اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔ جس میں اس کی تربیت اور خاندانی پس منظر کا عکس دکھتا ہے۔ ہمارا ہر عمل اس بات کا عکّاس ہوتا ہے کہ ہماری پرورش کس ماحول میں ہوئی ہے ؟اور ہم نے اپنا وقت کیسے لوگوں کے درمیان گزارا ہے؟ انسان پر اپنی موجودہ صحبت کے بھی بہت گہرے اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ اگر وہ مثبت، اچھے اور کھرے لوگوں کے درمیان رہتا ہے تو اس کی شخصیت بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے۔ اگر وہ تنگ نظر، منفی سوچ کے حامل اور بری عادات کے مالک لوگوں کے ساتھ اپنا وقت گزارتا ہے تو اس کی سوچ اور عمل بھی دانستہ یا نادانستہ طور پر ویسا ہی ہو جاتا ہے۔

معاشرتی اور اخلاقی خامیوں میں سب سے بڑی خامی جھوٹ ہے۔ یہ تمام برائیوں کی جڑ اور انسان کے لیے ذلّت، رسوائی اور ناکامی کا سب سے بڑا سبب ہے۔ جھوٹ اللّٰہ تعالیٰ اور نبی کریم صلیّ اللّٰہ علیہ و آلہ وسلّم کی نظر میں بھی انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔

سورۃ توبہ میں اللّٰہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں، ” اے اہل ایمان! خدا سے ڈرتے رہو اور سچ بولنے والوں کے ساتھ رہو۔ ”

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ چاہتے ہیں کہ نہ ہم خود جھوٹ بولیں اور نہ جھوٹ بولنے والے لوگوں کی صحبت میں رہیں۔ کیونکہ جھوٹ بولنے والے نہ صرف خود ذلیل و رسوا ہوتے ہیں بلکہ اپنا ساتھ دینے والوں کی بھی بے عزّتی کرواتے ہیں۔ جھوٹ بولنے والا شخص بہت جلد اپنا اعتبار کھو دیتا ہے۔ اس کے بعد اگر وہ سچ بھی بولے تو لوگ اسے جھوٹا ہی سمجھتے ہیں۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” منافق کی تین نشانیاں ہیں، جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے، جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے اور جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔‘‘

بہت سے لوگ اس معاملے میں اتنے بے بس ہوتے ہیں کہ وہ نہ چاہتے ہوئے اور بلا ضرورت بھی سچ بولنے سے اجتناب کرتے ہیں، کیونکہ جھوٹ بولنا ان کی عادتِ ثانیہ بن جاتی ہے۔ ایسے لوگ زندگی میں اکثر و بیشتر ناکامی کا شکار ہوتے ہیں، کیونکہ ایک حسّاس اور کامیاب انسان کے لیے یہ بہت بڑی بات ہے کہ لوگ اس پر بھروسہ نہ کریں یا اس کی ہر بات کو غلط سمجھیں۔ایک جھوٹ کو چھپانے کے لیے دوسرا جھوٹ بولا جاتا ہے، دوسرے کو چھپانے کے لیے تیسرا، اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، یہاں تک کہ انسان کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔

جھوٹ انسان کی تمام اچّھائیوں کو ایسے کھا جاتا ہے جیسے گیہوں کو گُھن۔ اسی لیے اسے تمام برائیوں کی بنیاد یا جڑ کہا گیا ہے۔ جھوٹا آدمی نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے آس پاس کے لوگوں کے لیے بھی مشکل کا باعث بنتا ہے اور انھیں چین نہیں لینے دیتا اس کے ساتھ رہنے والے لوگ اس سے اپنی بات کبھی نہیں منوا سکتے کیونکہ وہ اپنی غلط بات کو بھی ثابت کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ لوگوں کو دھوکہ دیتا ہے اور پھر اپنی غلطی تسلیم بھی نہیں کرتا۔ غرض یہ کہ اپنے ہر عمل سے لوگوں کو تکلیف پہنچاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں جھوٹ اس قدر عام ہو چکا ہے کہ لوگ بہت سے معاملات میں جھوٹ بولنے کو غلط گردانتے ہی نہیں ہیں۔ مثلاً کاروباری معاملات، لین دین، جھوٹی شان و شوکت اور عزّت کا حصول وغیرہ۔ جھوٹ چاہے چھوٹا ہو یا بڑا جھوٹ ہی ہوتا ہے، اسے معمولی یا درست نہیں سمجھنا چاہیے۔

شادی بیاہ کے معاملات اور رشتے طے کرنے میں بھی بیشتر لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔ یہ ایک بہت ہی عام بات ہے۔ جب بعد میں وہ جھوٹ کُھلتے ہیں تو بہت سی صورتوں میں گھر برباد ہونے کی نوبت آ جاتی ہے۔ یہ ایک طرح کا دھوکہ ہے جو ہم جانتے بوجھتے لوگوں کو دیتے ہیں اور بعد میں خود بھی نقصان اُٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی اس سے دوچار کرتے ہیں۔ جھوٹ کے فروغ کا ایک اور ذریعہ جو خالصتاً انگریزوں کی روایت اور ہماری معاشرتی اور مذہبی اقدار کا مذاق اُڑانے کا باعث ہے وہ ہے اپریل فول۔ مگر ہم اس قدر ناسمجھ ہیں کہ اس بات کو نہ سمجھتے ہوئے نہ صرف یہ دن مناتے ہیں بلکہ اس بات پر خوشی اور فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو اپریل فول بنایا۔ اپریل فول بنانے کے چکّر میں بہت مرتبہ لوگ ایسے ناقابلِ تلافی نقصانات کر چکے ہیں، جن کی مثال نہیں ملتی پھر بھی بہت سے لوگ اس سے باز نہیں آتے۔ کیونکہ ہم ایک دوسرے کے تجربات سے سبق سیکھنے پر یقین نہیں رکھتے۔ اسی لیے پستی اور ناکامی کا شکار ہیں۔

ایک بار ایک شخص رسولِ کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ” میں شراب نوشی، بد کاری اور جھوٹ بولنے جیسی عادات کا مالک ہوں اور چاہ کر بھی انھیں نہیں چھوڑ پاتا۔ آپؐ بتائیے کہ میں ان میں سے کون سی ایک عادت ترک کر دوں۔ ” آپؐ نے فرمایا، ” تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔ ” جب اس شخص کے سامنے شراب لائی گئی تو اس نے سوچا کہ جب آپؐ مجھ سے اس کی بابت دریافت کریں گے تو میں کیا جواب دوں گا؟ یہی دوسرے معاملات میں بھی ہوا۔ آخر کار اس نے تمام برائیاں ترک کر دیں۔ثابت ہوا کہ جھوٹ بولنا ترک کر کے انسان بیشتر برائیوں سے بچ سکتا ہے اور ایک اچّھا انسان بن سکتا ہے۔ جھوٹ چاہےزبان سے بولا جائے یا عمل سے ظاہر ہو، ہر طرح سے غلط اور ایک قابلِ مذمّت فعل ہے اس سے جتنا ہو سکے بچنا چاہیے اور سچ کو اپنی عادت اور طاقت بنانا چاہیے۔

جواب چھوڑ دیں