پاکستان کا قیام نظریاتی بنیاد پہ ہوا حالانکہ ہندو خواہ سیکولر ہو یا ہندوتوائی کسی طور بھی بھارت ماتا کی تقسیم نہیں چاہتے تھے، لیکن قائداعظم کی قیادت میں مسلمانوں کی فقیدالمثال مسلسل جدوجہد اور لازوال قربانیوں کے نتیجے میں بھارت ماتا کا عقیدہ بحر ہند میں غرق ہوتا دنیا نے دیکھا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تو مکین پاکستان نے سمجھا کہ اب منزل مقصود حاصل ہوگئی ہے لہٰذا امید قائم ہوئی کہ اس کے ثمرات سے مستفید ہونگے ،لیکن وقت گزرتا رہا، مختلف ادوار آئے مختلف حکومتیں گزریں، عوام نے جمہوریت کا مزہ بھی چکھا تو مارشل لا و نیم مارشل لا کے تجربات سے بھی گزرے لیکن مادر وطن سات دہائیوں بعد بھی ملکی، قومی، معاشی، انتظامی، سیاسی و دستوری لحاظ سے ”ہنوز روز اول است” کے مصداق اسی جگہ کھڑے تھے۔ جہاں قیام پاکستان کے اگلے دن 15 اگست 1947 کو کھڑے تھے ایسے میں لوگ بالخصوص نسل نو جب ہر طرف سے ناامیدی و ذہنی انتشار کا شکار ہوتی جارہی تھی تو کپتان صاحب نے ایک امید کی کرن جگائی اور ریاست مدینہ کا وژن دیا، اس امید پر قوم نے کپتان پر اعتماد کرلیا اور بہتوں نے تواس بات کا اظہار کیا کہPP و PMLN کو تو بار بار آزما چکے ہیں اور کپتان نیا ہے لہٰذا اسے آزما کے دیکھتے ہیں جبکہ بہت سے ایسے بھی تھے جو نظریاتی طور پر PTI کے تھے ۔
جنہیں مخالفین کی طرف سے ”یوتھیا” کا نام دیا گیا اور ایک بڑی تعداد جوکہ نیوٹرل تھی وہ صرف ریاست مدینہ، احتساب و کرپشن سے چھٹکارے کے نعرے پہ یقین دھر کر کپتان کے ساتھ کھڑی ہوگئی، اور عنان اقتدار تحریک انصاف کے ہاتھ آکر عمران خان وزیراعظم مقرر ہوئے لیکن آج ڈیڑھ سال بعد عوام بیچارے آٹا 70 روپے کلو خریدنے پر مجبور ہیں، مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے، حکومت کے معیشت مضبوط ہونے کے دعووں کی نفی سرعام ہوتی نظر آرہی ہے کہ عوام کی قوت خرید خطرناک حد تک کم ہورہی ہے جوکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ”میری تعمیر میں اک صورت تھی خرابی کی” کے مصداق پر کپتان کی ٹیم مکمل طور پر ناکام ہے۔
اب اسے نااہل کہو یا پچھلوں کو ذمہ دار قرار دو لیکن حقیقت یہی ہے کہ فی الوقت تک تو کپتان کی ٹیم ہر سطح خواہ معاشی ہو یا انتظامی پر ناکام ہی ناکام رہی ہے، اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہوگا کہ ایک زرعی ملک میں عوام لائنوں میں لگ کر آٹا ستر روپے کلو خریدنے پہ مجبور ہیں اور افسوسناک یہ کہ چیئرمین ایگری فورم پاکستان و معروف تجزیہ نگار ڈاکٹر ابراہیم مغل کئی ماہ پہلے سے اس خوفناک صورتحال کے پیدا ہونے، ان کے مصنوعی اسباب اور کنٹرول کرنے کی تدابیر دیتے رہے لیکن کسی نے کان نہ دھرے، حکومت جوکہ جہانگیر ترین جیسے سرمایہ داروں کے نرغے میں پھنسی ہے اس لیے بہری بنی رہی جبکہ اپوزیشن کو یہ غرض ہے کہ وہ حکومتی نااہلی ثابت کرسکیں گے اس لیے ”ایک دھکا اور دو” کے مصداق اس بحرانی کیفیت کے پیدا ہونے کا انتظار کرنے لگی، ”میری تعمیر میں اک صورت تھی خرابی کی” کے مصداق پر یہ حقیقت ہے کہ PTI میں زیادہ تر لوگ ادھر ادھر سے لیے ہوئے یا پھر موقع پرست ہیں اور عمران خان کی سب سے بڑی غلطی ہی یہ تھی کہ اس نے رہتی دنیا کے مسلمہ اصول کے خلاف چل کردنیا کو حیران کردیا تھا کہ اپنے مشکل وقت کے اور دیرینہ ساتھیوں کو نظرانداز کرکے موقع پرستوں پر نہ صرف اعتماد کیا بلکہ انہیں اپنے قابل اعتماد دیرینہ و نظریاتی لوگوں پر ترجیح بھی دی تو اب کپتان کو بھگتنا بھی پڑے گا خیر کپتان نے تو اپنا بوریا بستر باندھ کر چلتے بننا ہے، بھگتنا تو عوام نے ہی ہے۔
ڈاکٹر ابراہیم صاحب کے بقول ”جس طرح مشرف دور میں جہانگیر ترین نے گندم اور چینی کا مصنوعی بحران پیدا کرکے ملک و ملت کی ایسی تیسی کی تھی ایک بار پھر مصنوعی طور پر گندم کا بحران پیدا کرکے پسی ہوئی عوام کو مزید پیسا جارہا ہے”۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام کو روایت کے مطابق امید کا چورن دیدیا جاتا ہے کہ 2020 خوشحالی کا سال ہوگا، دو مہینے میں شہد کی نہریں بہہ جائینگی، چھ ماہ میں معیشت مضبوط ہوجائیگی وغیرہ وغیرہ، جبکہ عملی صورتحال کا یہ حال ہے کہ ”نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم” کہتے کچھ ہیں اور ہوتا کچھ ہے، یہ تو سیدھا سیدھا عملی نفاق ہے اسی لیے نوبت یہ آن پہنچی کہ عوام یہ کہنے پہ مجبور ہوگئی ہے کہ خان صاحب لوٹی دولت کرپٹ مافیا سے نکلوانے کا نعرہ تھا ، نہ کہ عوام سے، مہنگائی و بدانتظامی کی صورتحال کی سب سے معمولی جھلک کراچی میں میر حسن نامی شخص کی خودسوزی ہے۔
تیونس میں ایک ریڑھی بان نے بدانتظامی و اقرباپروری سے تنگ آکر خود کو آگ لگائی تھی تو عوام کا سیلاب سڑکوں پر امڈ آیا تھا جو عرب اسپرنگ کا نقطہ آغاز بنا بیشک کچھ طاقتوں نے اس کا منفی استعمال کیا لیکن وہاں عوامی شعور اور غیرت پر شک نہیں کیا جاسکتا جو صرف ایک واقعہ پر سو کے سو فیصد حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے لیکن ایک پاکستان ہے جہاں لوگ منفی پروپیگنڈوں کے لیے تو باہر نکل پڑتے ہیں لیکن حقیقی مسائل کے لیے نکلنے میں کوئی دلچسپی نہیں خیر اگر حقیقتاً دیکھا جائے تو کوئی نکالنے والا بھی تو نظر نہیں آتا اور اگر کوئی منظر عام پر آ ہی جاتا ہے تو اس میں ان صاحب کے ذاتی سیاسی، شخصی یا گروہی مفادات صاف جھلکتے ہیں۔ اس کے علاوہ موجودہ حکومت کا سب سے بڑا دعوی احتساب کا تھا جس کا حال سب کے سامنے ہے اور اس مصرعے کا مصداق ہے ”آہ وہ تیرِ نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف” اس سے پہلے کہ صورتحال خراب سے خراب تر ہو کپتان کو اپنے مشن و مقصد میں ناکامی کے اسباب و وجوہات کی اصل جڑ یعنی اپنی ٹیم کو از سر نو ترتیب دینے اور انتظامی امور کو سختی سے ٹھیک کرنے کی فوری ضرورت ہے، اگر حکومت مزید کچھ وقت اور جہانگیر ترین جیسے سرمایہ داروں کے ہاتھوں یرغمال رہی تو کوئی بعید نہیں کپتان اور کپتان کی PTI جیتے جی ہی سے جیتے جی ” تھے ” ہی ہوجائینگے۔