پھر ایک جواں جنت الفردوس میں پہنچا

اوہ خدایا یہ کیسی رات ہے۔۔۔۔ ہر شخص کا نوحہ ایک ہے ،اور دل ہے کہ شدتِ غم سے پھٹا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسے بھی کرتا ہے کیا۔۔۔۔۔ کہ بنا بتائے ہی چل دے۔۔۔۔ کوئی اشارہ تو دیا ہوتا ۔۔۔۔ کسے معلوم تھا کہ آج ہم ایسے شخص سے محروم ہونے والے ہیں جو صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔۔

مغرب بعد سے ہی دل عجیب سا اداس تھا ، سچ ہے جب کوئی اپنا اس دنیا سے جانے والا ہوتا ہے تو دل پہلے ہی عجیب کیفیت کا شکار ہوجاتا ہے، ہاں وہ اپنا ہی تو تھا بلکہ اپنوں سے بھی بڑھ کر اور اللہ تعالی بھی تو فرماتے ہیں کہ “جو لوگ اللہ کے دین کی سربلندی کیلیے اپنا آپ لگا دیتے ہیں اللہ تمام مخلوق کے دل میں اس کی محبت بیٹھا دیتا ہے” ۔ واقعی آج انکا جنازہ بھی گواہ ہے، لوگوں کا ایک جم غفیر ہے جو انکے جنازے میں شریک ہے ، کوئی آنکھ ایسی نہیں ہے جو اشک بار نہ ہو ۔ شدید سردی میں بھی لوگ دور دور سے انکے آخری دیدار کے لیے آئے ہوئے ہیں۔

انکی شہادت کے اگلے روز میری مما نے بہت ہی پیارا خواب دیکھا کہ ” تینوں دوست حضور اکرمؐ کی بارگاہ میں پہنچ گئے ہیں اور آسمان سے فرشتوں کی نہ ختم ہونے والی قطار ہے جو نیچے انکے نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کےلیے اتر رہی ہے”۔۔۔

سبحان اللہ ، یہ مقام تو واقعی اللہ کے نیک بندوں کو ہی ملا کرتا ہے اور وہ تھے بھی تو گوہر نایاب ، اپنے نام کی طرح عظیم ، ہر ایک کے دل میں بسنے والے محمد عظیم بلوچ وہ انمول ہیرا تھے جس کا نعم البل کبھی نہیں مل سکتا ۔

میں ہمیشہ عدیل سے کہتی تھی کہ وہ انسان نہیں جن ہیں کہ جتنا کام وہ اکیلے تحریک کیلیے کرتے تھے وہ چار بندوں کا کام ہے اور شاید اللہ نے بھی انہیں دنیا میں صرف اپنے دین کی سربلندی کیلیے ہی بھیجا تھا جبھی تو اُنکے عہدے سے ہٹنے کے صرف تین مہینوں بعد ہی اپنے پاس بلا لیا کہ میرے بندے کا دنیا سے کیا واسطہ ؟ َ؟

جو حلف انہوں نے اُٹھایا تھا اسے واقعی پورا بھی کیا، تحریک میں خرابی ہوتی دیکھی تو اس پر آواز بھی بلند کی۔

اپنی ذات کیلیے باتیں برداشت کیں اور ہنس کر ٹال دیا لیکن بُرا نہیں منایا۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر انکے بارے میں لکھتی رہوں تو پوری کتاب لکھ دوں مگر پھر بھی حق ادا نہ ہو۔

عدیل کہتے تھے کہ ” عظیم بھائی ولی بندہ ہے جب شدید بھوک لگتی ہے تو کھا لیتے ہیں اور جب نیند آتی ہے تو سو لیتے ہیں ورنہ ہر وقت، ہر لمحہ تحریک کیلیے فکرمند اور دعوت دین کے میدانوں میں سرگرم عمل رہتے ہیں، سندھ کی ایسی کونسی گلی ہوگی جہاں انکے قدم نا پہنچے ہوں؟

بے شک عظیم بھائی کی خدمات بے شمار ہے انہوں نے اقامتِ دین میں اپنا سب کچھ لگا دیا۔ اُس رات بھی تو وہ محراب پور سے تعزیت کرکے واپس آرہے تھے کہ ٹریفک حادثہ میں اپنی جان اللہ کے سپرد کردی اور یوں یہ اقامت دین کے راستوں کا راہی انہی راہوں میں گم ہوکر اللہ کی بارگاہ میں روانہ ہوگیا۔

وہ پیکر الفت وہ ملنسار مسیحا
پھر ایک جواں جنت الفردوس میں پہنچا

ہر شخص کو یہاں سے چلے جانا ہے موت کبھی بتا کر نہیں آتی ، جاتے جاتے عظیم بھائی یہ آخری بات بھی بتلاگئے کہ جو کرنا ہے کرلو اس سے پہلے کہ روح اور جسم کا رشتہ ٹوٹ جائے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ عظیم بھائی، غلام رسول بھائی اور عرفان بھائی کو جنت الفردوس میں سب سے اعلی مقام عطاء فرمائے اور انکی قبروں کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنادے اور انکے گھر والوں اور دوست و احباب کو صبر جمیل عطاء کرے اور دین کے راستوں پر چلائے آمین۔

سوئیں گے حشر تک کہ سبک دوش ہوچکے

بارِ امانت غم ہستی اُتار کے

جواب چھوڑ دیں