پاکستان فلاحی ریاست کیوں نہ بن سکا؟

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان واحد ملک ہے جو مذہب کے نام پر آزاد ہوا۔اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ تحریک پاکستان کو تکمیل کا شرف اصغر سودائی کے اس نعرہ مستانہ سے ہو اکہ ’’پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الاللہ۔یعنی پاکستان کی اساس مذہب اسلام کے وہ سنہری اصول وضوابط ہیں جو آج سے پندرہ سو برس قبل آقائے ﷺنے وادی ’’غیر ذی زرع‘‘اور اہل یثرپ کے سامنے پیش کئے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان اصول وضوابط کے پیروکار روم وفارس کے مالک بن گئے،یثرب آپ ﷺ کے خاکِ نقشِ پا سے مدینہ اور دنیا کی پہلی اسلامی فلاحی ریاست قرار پائی کہ جہاں غلام وآقا سب برابر ہوگئے، معیارِ عدل یہ تھا کہ عمرؓ جیسے عادل شخص کو بھی عدالت میں پیش ہو کر لوگوں کے سوالات کا جواب دینا پڑا،اور یہی مذہب اسلام کی سب سے بڑی خوبصورتی بھی ہے کہ جس میں محمود ایاز ایک ہی صف میں عملا کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔

فتح مکہ کے بعد جب آپ ﷺ نے مکہ کے سیاسی نظام اورحالات کو سنوارا تو یہی لوگ صنم کدوں کے سحر سے باہر نکل کر پاسبانِ مکہ بن گئے، کیوںکہ اس سارے سیاسی،معاشی،معاشرتی اور ثقافتی ترقی وبرتری کے پیچھے پیغمبرِ آخرالزماں کا ہاتھ تھا۔ احسان دانش نے اس ایک شعر نے امیر شریعت عطا اللہ شاہ بخاری جیسی ہستی کو ایسے ہی وجدان میں مبتلا نہیں کردیا تھا کہ

جہاں نظر نہیں پڑی وہاں ہے رات آج تک

وہیں،وہیں سحر ہوئی ،جہاں جہاں گزر گیا

اسرائیل کا آئین صرف ایک جملہ پر مشتمل ہے کہــ’’اسرائیل کا آئین تورات ہے‘‘یعنی ان کی کتاب کے مطابق انسانی بنیادی حقوق ہی ان کا آئین ہے، گویا بنیادی طور پر انسانوں کی فلاح ہی دراصل ملکوں کی فلاح ہوتی ہے،لیکن ہمارے مذہب میں قرآن وسنت کی ایک ایک بات اور عمل اسلامی ممالک کے لئے مکمل آئین کی صورت رکھتا ہے، اگر ہم حضرت ابراہیم ؑ کی صرف تین دعائوں کا عملی اطلاق اپنے ملک میں کرلیں جو کہ انہوں نے بیت اللہ کی بنیاد رکھتے ہوئے فرمائی تھیں تو ہمیں اندازہ ہو جائے گا کہ یہی تین اعمال ہی ایک فلاحی ریاست کی اساس قرار دیے جا سکتے ہیں۔اور اسی بنیاد پر ہم ملک کی سیاسی ومعاشی تاریخ بدل سکتے ہیں۔

رب العجل ھذالبلد آمنا،اس دعا میں امن قائم کرنے کی دعا فرمائی گئی ہے،کوئی بھی ریاست اس وقت تک فلاح نہیں پاسکتی جب تک کہ اس ملک میں امن وامان کی فضا قائم نہ ہو،اعلی عدالتی نظام رائج نہ ہو،گویا فلاحی ریاست قائم کرنے کے لئے پہلی بات وہاں کے باشندوں کو بروقت اور میرٹ کی بنیاد پر انصاف مہیا کرنا ہے جو کہ مذہب اسلام کا خاصہ ہے، ورزق من الثمرت لعلھم یشکرون، دوسری دعا جس میں حضرت ابراہیم ؑ نے پھل کھلانے اور کلمہ شکر کی التجا کی ہے۔

تیسری دعا جو کہ بہت مشہور دعا ہے کہ میری امت سے ایک ایسا نبی مبعوث فرمانا جو کہ کتاب وحکمت کی تعلیم دے،اس دعا میں علم،کتاب اور معلم کی طرف اشارہ ہے،تعلیم کی اہمیت سے کون واقف نہیں صرف جنگ بدر کی ایک مثال ہی کافی ہے کہ جس میں آپﷺ نے قیدیوں کو فرمایا کہ مدینہ کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دو تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا۔گویا فلاحی ریاست کا قیام تو ان تین دعائوں میں ہی مضمر ہے،اور اگر تعلیماتِ قرآن اور سنت کو عملا آئین وریاست کا حصہ بنا دیا جائے تو اندازہ لگائیں کہ ہم دنیا کی کیسی فلاحی ریاست بن جائیں گے؟اس سے بھی بڑھ کر میں یہ بات اکثر اپنے رفقا سے کہتا رہتا ہوں کہ اسلام کے ایک ایک عمل سے دنیا نے پورے سیاسی ومعاشی نظاموں کی بنیاد بنا رکھی ہے،جیسا کہ سوشلزم اور کمیونزم کہتا ہے کہ ضروت پوری کر کے سب کچھ ریاست کا ہے ،جبکہ ہمارا مذہب کہتا ہے کہ زکوٰۃ دے کر سب کو معاشی طور پر اپنے برابر کرلو۔

یورپی ممالک اگر اسلام کے ایک ایک عمل سے اپنے سیاسی ومعاشی نظاموں کی بنیاد بنا کر دنیا میں اپنا نام بنا سکتے ہیں تو پھر ملاحکا حقہ خالی کیوں ہے؟ہمارا اپنا ملک جو اسلام کے نام پر بنا اس میں عملا اسلام کہیں نظر نہیں آتا،یہاں میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ اسلام صرف پانچ وقت کی نماز ادا کرنے کا نام ہی نہیں ہے بلکہ اسلام تو شروع ہی نماز کے بعد کے آداب معاشرت سے ہوتا ہے۔آئین میں ایک پیراگراف رکھنے یا قرارداد مقاصد کے اصولوں کو آئین میں شامل کر دینے سے نہ تو مذہب کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جاتی ہے ۔کیوں کہ تقدس جس کتاب کو حاصل ہے اس کا فلسفہ ہی عملی اطلاق ہے۔اپنے ایمان کو حاضر وناظر جان کر ذرا بتائیں کہ ملک پاکستان کا وہ کون سا ایسا ادارہ ہے جس میں قرآنی تعلیمات کی عمل پیرائی عملی صورت میں دکھائی دیتی ہو؟وہ دانش گاہیں ہوں، عدالت، سیاست،انصاف،معاش،یا قانون نافذ کرنے والے تمام ادارے ہوں،کہیں بھی کیااسلام کا عملی اطلاق دکھائی دیتا ہے؟ کیونکہ ہم نے قرآن کو قرآن فہمی کی بجائے قرآن خوانی تک محدود کردیا ہے،جبکہ علامہ اقبال قرآن کے بارے میں اپنی کتاب The reconstruction of religious thought in islam کے دیباچے میں ہی لکھتے ہیں کہ ،Quran is book that emphasizes deed rather than idea ۔گویا ہم فلاحی ریاست قائم کرنے میں اس لئے ہی پیچھے رہ گئے کہ ہمارے اقول وافعال میں,تکمیل پاکستان سے آج تک تضاد ہی رہا ہے،اگرآج بھی عملی کاوش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آج بھی ہم ایک فلاحی ریاست قائم کرنے میں کامیاب وکامران ہو سکتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں