26 دسمبر کو ۲۰ سال بعد مکمل سورج گرہن رہا جسے “ رنگ آف فائر “ کا نام دیا گیا ۔ دیگر ممالک کی طرح پاکستان کے بیشتر علاقوں میں واضع طور پر اس کا مشاہدہ کیا گیا۔ سورج گرہن سے کئی روز پہلے ہی سے سوشل میڈیا پر سینکڑوں پوسٹس اور ویڈیوز اس غیر معمولی نظام قدرت کے بارے میں شیئر کی گئیں ۔ الیکٹرانک میڈیا پر خصوصا” نیوز چینلز پر عوام کی رہنمائی کے لیے بےشمار پروگرام جس میں علماء کی رائے ، سائنسی معلومات اور احتیاطی تدابیر وغیرہ بہم پہنچائی گئیں ، جس کےلیے بلا شبہ وہ داد کے مستحق ہیں ۔
لیکن کچھ چینلز نے غیرذمہ دارانہ نشریات بھی دکھائیں ، جس میں 26دسمبرکا اے ۔ آر ۔ وائی نیوز کا پروگرام “ باخبر سویرا “ سر فہرست ہے ۔ اس پروگرام میں دو عدد” نجومی “ مہمان خصوصی” بلائے گئے تھے ۔ دونوں نجومیوں نے اپنے طویل انٹرویو میں سوائے توہم پرستی اور جاہلانہ دور کے عقائد و نظر یات کے پرچار کے علاوہ کچھ بھی نہ کیا ۔ نجومیوں نے نہ صرف سورج گرہن کے متعلق گمراہ کن عقائد کی تشہیر کی بلکہ بڑے شّد ومّد سے مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی سورج گرہن سے منسلک کر دیں ۔
ہم سب مسلمان ہیں اور اسکا تقاضہ ہے کہ پوری صدق دل کے ساتھ ہم ایمان لائیں اﷲتعالی پر ، اس کے فرشتوں پر، اسکی کتابوں پر ،اسکے رسولوں پر،قیامت کے دن پر ،اوراس پر کہ اچھی اور بری تقدیر سب اﷲ کی طرف سےہے ۔ لیکن باخبرسویرا کے یہ خصوصی طورسے بلوائےگئے نجومی اچھی بری تقدیر کا ذمہ دار ان چاند ستاروں اورسورج کو قرار دے رہے تھے ۔
قرآن پاک میں اﷲتعالیٰ نے واضع طور پر بتادیا ہے کہ سورج ، چاند ، ستارے سب اﷲکی نشانیاں ہیں اور یہ سب اُس کے حکم کے تابع ہیں ۔ یہی نہیں مختلف ستاروں کی روشنی میں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات وحالات مثلا” کاروبار میں نقصان اور فائدہ ، شادی میں کامیابی اور ناکامی ،صحت کے مسائل ،بہن بھائیوں کے جھگڑے الغرض ہر نوعیت کے انسانی مسائل کے متعلق ایسے بیان دے رہے تھے جیسے کہ نعوز با ﷲ سب کچھ ان کے علم کے مطابق ہی ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج کا اکیسوی صدی کا مسلمان ماہر فلکیات وہ مقامُ و مرتبہ بھول گیا، جو اسلام کے سنہری دور جو کہ آٹھویں صدی سے لے کر 14 ویں صدی کےطویل دور پر مشتمل ہے ۔ اسلام کے اس” سنہری دور “ میں مسلم ماہر فلکیات اپنے علم سے پیشن گوئیاں کر کے لوگوں کو توہم پرستی میں مبتلا کرنے کے بجائے اپنی ذہانت ،اور قابلیت کے ذریعے آنے والی تمام انسانیت کے لیے بےمثال ایجادات کرنے میں مصروف تھے۔ مسلمان جدید ”علم فلکیات “کے بانی ہیں ۔ وہ چاند سورج اور ستاروں کےذریعے ہزاروں میل طویل صحرا کے سفر کے دوران درست سمت اورفاصلے کاتعین کرتے تھے ۔ جب دوربینیں ایجاد نہی ہوئی تھیں تو وہ مسلم ماہرفلکیات ہی تھے جنہوں نے چاند کی درست تاریخوں کا تعین کر کے پہلا اسلامی کیلنڈر بنایا۔
جب اسلامی مملکت یورپ ،ایشیا ، افریقہ کے وسیع رقبے پر پھیل گئی تو وہاں پر نماز کے لئے خانہ کعبہ کی سمت کامسئلہ درپیش ہوا ، اس مسئلہ کا حل بھی مسلم ماہر فلکیات “الطوسی “نے ہزاروں میل دور سے بھی دنیا کے کسی بھی خطے کا فاصلہ اور سمت معلوم کرنے کےلیے کمپیوٹر جیسی درستگی کا آلہ ”ایسٹرولوب “ ایجاد کیا ، جو آج بھی تمام دنیا میں مانا اورجانا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلا مکمل شمسی کیلنڈر بھی ہمارے سنہری دور کی یادگار ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نویں صدی میں البیرونی اس کےبعد الراضی اور عمر خیام کے کارناموں سے تمام دنیا میں مسلم ماہر فلکیات کی دھاک بیٹھ گئی ۔ افسوس ہے کہ ہم مسلمان اب نئی ایجادات تو دور کی بات ہے ، صدیوں پہلے کی حاصل شدہ معلومات کوفراموش کرکے ہندو جوتشی کے معیار پر پہنچ گئے ہیں۔ ہم ذہنی غلامی سے نکل نہیں پا رہے ۔ خود اعتمادی جو کہ ایمان کی بدولت حاصل تھی ، اس سے ہم خود ہی دستبردارہو گئے ۔ ہم ہر معاملے میں دوسری اقوام کی جانب دیکھتےہیں۔ تمام میڈیا ہائوسسز سے گزارش ہے کہ وہ اسلام کے” سنہری دور “ کے متعلق معلوماتی پروگرام ، ڈاکومینٹری اور ڈرامے بنا کر دکھائیں ۔تانکہ خوابِ غفلت میں ڈوبی قوم کو جھنجھوڑا جا سکے۔
ہمارے پیارےنبی حضرت محمدؐ گرہن کے وقت استغفار اور نماز اوراذکار کی تلقین فرماتےتھے ۔لہذا ہمیں بھی ان کی کی اتباع کرکے شرکیہ خیالات سےخود کو بچانا ہے۔
I was looking for another article by chance and found your article slotsite I am writing on this topic, so I think it will help a lot. I leave my blog address below. Please visit once.
I have been looking for articles on these topics for a long time. safetoto I don’t know how grateful you are for posting on this topic. Thank you for the numerous articles on this site, I will subscribe to those links in my bookmarks and visit them often. Have a nice day