جہاد کا اعلان حکومت کریگی؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ جہاد کا اعلان حکومت ہی کو کرنا چاہیے۔ پھر ایک ایسی حکومت جو اپنے ملک کے نام سے پہلے “اسلامی” بھی لگا تی ہو تو کسی اور گروہ یا پارٹی کو اس بات کا کوئی حق ہونا ہی نہیں چاہیے کہ وہ اپنی جانب سے جہاد کا اعلان کر کے ریاست اور حکومت کو مشکلات میں مبتلا کردے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکمران اللہ کے حکم سے باغی ہو جائیں، کلمہ گوؤں کا قتل عام ہو رہا ہو، ان کی بچیوں اور خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہو اور کشمیری مسلمان قوم پر ظلم و جبر کی انتہا کردی گئی ہو اور حکمران “گھبرانا نہیں” کا نعرہ لگا کر لمبی تان کے سوئے ہوئے ہوں تو کیا قوم پر جہاد فرض نہیں ہوا کرتا؟۔۔

جہاد ایک ایسا عمل ہے کہ جب وہ فرض ہوجاتا ہے تو پھر ایک ایک مسلمان پر فرض ہوجاتا ہے اور خاص طور سے اس ملک کے مسلمانوں پر تو بہر صورت فرض ہوجاتاہے جو “اسلامی” ہو۔ ظلم دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو رہا ہو اور کسی بھی انسان کے ساتھ ہو رہا ہو، جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے۔ ظلم صرف یہی نہیں ہے کہ انسان انسان کا خون بہائے، ظلم یہ بھی ہے کہ اللہ کی سر زمین پر کفر کا نظام ہو اور ہم اس نظام میں سانس بھی لے رہے ہوں اور پُر سکون ہوں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے گھر تو اپنا ہو لیکن اس گھر میں مرضی غیروں کی چلتی ہو۔ جب یہ بات ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہو سکتی تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک مسلمان یہ گوارہ کر سکے کہ اللہ کی سرزمین پر حکمرانی شیاطین کریں۔ اب تصور کریں اس خطہ زمین کا جس کا مقصد حصول ہی اللہ کے نظام کا نفاذ تھا لیکن آزادی سے لیکر تا دمِ تحریں اس پر ایک دن کیلئے بھی اللہ کے نظام کو نافذ نہیں کیا گیا تو کیا اس ظلم سے بڑھ کر بھی کوئی اور ظلم ہو سکتا ہے؟۔

اللہ تعالیٰ کا بہت صاف صاف اور واضح حکم ہے کہ تم اللہ کے دین کو دنیا میں نافذ کرو خواہ یہ بات اہلِ کفر کو کتنی ہی ناگوار گزرے۔ دنیا میں اللہ کے دین کو پھیلانا بے شک امت مسلمہ کی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے، لیکن صرف دین کا ابلاغ ہی کافی نہیں بلکہ ہر مسلمان پر ساری دنیا میں اس کا نفاذ ایک ایسا فرض ہے جو اس کی جان، مال، عزت و آبرو سے افضل تر ہے۔

اسلام ہی وہ واحد نظام ہے جو ہر قسم کی ظلم و زیادتی اور بے انصافی و بے اعتدالی کو ختم کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظلم دنیا کے کسی بھی خطے میں اور کسی بھی مذہب، رنگ اور نسل والے کے ساتھ ہو، دنیا کے ہر مسلمان پر یہ بات فرض ہوجاتی ہے کہ وہ ظلم کے خلاف حتیٰ المقدور جد و جہد کرے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ محمد بن قاسم نے ایک مظلوم عورت کی فریاد پر سندھ پر لشکر کشی کری تھی۔ جب یہاں نظام کفر برپا تھا اور اہل اقتدار و اختیار اپنی رعایا کو انسان سمجھنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ طارق بن زیاد نے اسپین پر اس لئے حملہ نہیں کیا تھا کہ ان سے سلطنت اسلامیہ کیلئے کوئی بہت بڑا خطرہ تھا بلکہ وہاں پر اس نظام کی حکومت تھی جو اللہ سے بغاوت پر رائج تھا۔

جماعت اسلامی کی جانب سے ایک عظیم الشان ریلی کا انعقاد کیا گیا۔ اس ریلی کا مقصد حکومت کی توجہ اس ظلم کی جانب دلانا تھا جو بھارت کشمیریوں کے ساتھ کر رہا ہے۔ یہ وہ کشمیر ہے جس کو گزشتہ 72 برس سے پاکستان اپنا حصہ قرار دیتا رہا تھا اور اسے پاکستان کی شہ رگ شمار کرتا رہا تھا۔ ایک ایسا خطہ جس کو آپ نے ہمیشہ اپنا سمجھا اور اس کو موت و زندگی کا مسئلہ قرار دیا، اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ ٹوٹتے ہوئے 140 یوم سے بھی زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود پاکستان کی جانب سے کسی بھی قسم کی کوئی مؤثر کارروائی نہ ہونا ایک شرم ہی کی بات نہیں بلکہ یہاں کے حکمرانوں کے ایمان کا بھی مسئلہ ہے۔ اسی لئے اس ریلی میں جو بات زور دے کر کہی گئی وہ یہی کہی گئی کہ حکومتِ پاکستان اس ظلم کے خلاف جہاد کا اعلان کرے تاکہ اللہ کی جانب سے اس پر جو بات فرض ہے اس کی تکمیل کیلئے مسلمان میدانِ عمل میں کودیں اور اس کی رضا کی خاطر ان سے جو کچھ بھی بن پڑے کر گزریں۔

کشمیریوں سے یک جہتی کے لئے نکالی گئی اس ریلی میں جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا فرمانا تھا کہ “حکومت کشمیر کی آزادی کے لیے جہاد کا اعلان کرے اور واضح روڈ میپ دے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر کی آزادی کے لیے آخری گولی اور آخری فوجی تک لڑنے کا اعلان کرنے والوں نے 5 ماہ میں ایک قدم بھی نہیں اٹھایا، 15 ماہ میں حکومت نے 115 یوٹرنز لیے جس کی وجہ سے حکمرانوں کی ہر حرکت مشکو ک ہو کر رہ گئی ہے”۔

یہ بات تو بر حق ہے کہ جہاد کا اعلان ریاست ہی کو کرنا چاہیے لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ اگر ریاست اور حکومت اللہ کے احکامات سے غافل ہوجائے تو اہل ایمان محض حکمرانوں کو ذمہ دار ٹھہرا کر اپنے فرض سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے اس لئے کہ مسلمان ہونے کے ناطے جہاد تو ہر مسلمان پر فرض ہوتا ہے۔ حکمران اللہ سے اگر باغی ہو جائیں تو سب سے پہلے تو ان کے خلاف ہی جہاد فرض ہو جاتا ہے۔ جس کی روشنی ہمیں حضرت امام حسین (رض) کی شہادت سے ملتی ہے۔

یاد رہے کہ کسی بھی حکومت کے خلاف اعلان جہاد کسی سسٹم کے تابع نہیں ہوا کرتا بلکہ سنتِ امام حسین (رض) کے مطابق، اللہ سے باغی حکومت کے خلاف جو بھی قدم اٹھایا جاتا ہے وہ بزورِ شمشیر اٹھایا جاتا ہے۔ کیا اہل پاکستان یہ سمجھ لیں کہ حکومت کی خاموشی کی صورت میں ہر پاکستانی سے یہ کہا جائے گا کہ وہ سنتِ امام حسین (رض) کے مطابق اللہ سے باغی حکمرانوں کے خلاف قدم اٹھائے؟۔

یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب سوویت یونین نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا تو کیا پاکستان کی (سند یافتہ) حکومت نے اعلان جہاد کیا تھا؟۔ کیا اس نے اعلانِ جہاد کے ساتھ ہی مسلمانوں، بشمول افواج پاکستان کو یہ حکم دیا تھا کہ اہل کفر کے خلاف کھڑے ہو جاؤ اور آخری گولی اور آخری خون کے قطرے تک جہاد جاری رکھو؟۔ اگر اس وقت حکومت کے اعلان نہ کرنے کے باوجود ملک میں موجود علمائے کرام اور مذہبی جماعتوں نے از خود جہاد کو اپنے اوپر فرض کر لیا تھا ، تو کشمیر میں جہاد کرنے کے اعلان میں کس وجہ سے پس و پیش سے کام لیا جارہا ہے؟ جب اس وقت حکومت کے بنا اعلانِ جنگ، جہاد ہر پاکستانی (مسلمان) پر فرض تھا تو کیا وجہ ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم ہوتے دیکھ کر ہم حکومت پاکستان کے اعلانِ جہاد کے منتظر ہیں۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

1 تبصرہ

  1. Looking at this article, I miss the time when I didn’t wear a mask. casinocommunity Hopefully this corona will end soon. My blog is a blog that mainly posts pictures of daily life before Corona and landscapes at that time. If you want to remember that time again, please visit us.

جواب چھوڑ دیں