فیس بک دنیا کی سب سے بڑی سماجی روابط کا پلیٹ فارم ہے۔ اربوں لوگ اس دنیا کے اندر موجود ہیں۔ 2004 میں ایک لڑکے مارک زیکربرگ کی تخلیق دنیا کو ایک نئے انداز سے سمیٹ لے گی اس بات کا اندازہ کسی کو نہیں تھا۔ فیس بک کی آفیشل رپورٹ کےمطابق جولائی 2017 تک فیس بک کے ماہانہ صارفین کی تعداد دو ارب سے تجاوز کرچکی ہے، یہ وہ تعداد ہے جو اوسطا 20 منٹ روزانہ فیس بک کا استعمال کرتی ہے، کل اکاؤنٹس کی تعداد کتنی ہے اس بات کا پتہ صرف فیس بک انتظامیہ کو ہے۔ اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو کم و بیش دو کروڑ ستر لاکھ سے زائد پاکستانی اس وقت فیس بک کا استعمال کرتے ہیں جوکہ ایک بہت بڑی تعداد ہے جبکہ رپورٹ کےمطابق روزانہ سیکڑوں کی تعداد میں پاکستانی صارفین کا اضافہ ہورہا ہے۔
گذشتہ کچھ عرصے کے دوران فیس بک پر توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم اور اس سے پہلے کشمیری نوجوان کمانڈر شہید برہان مظفر وانی ایک انتہائی زیادہ زیر بحث موضوعات رہے ہیں۔ 8 جولائی 2016 کو جب کشمیر میں حریت کمانڈر برہان مظفر وانی کی شہادت ہوئی تو ایک لاوہ تھا جو کشمیر و پاکستان میں بہنے لگا بلکہ پوری دنیا میں موجود کشمیری اور پاکستانی غم و غصے سے پھٹ پڑے۔ ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں جہاں لوگوں نے مظاہروں میں شرکت کی وہیں سوشل میڈیا کا محاذ بھی خوب گرم رہا۔ فیس بک، ٹوئٹر اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز بھارت کے جابرانہ تسلط اور کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا پردہ چاک کررہے تھے۔ پیلٹ گنوں کا شکار کشمیری سوشل میڈیا کے ذریعے عالمی ضمیر کو جھنجوڑ رہے تھے۔ اس وقت فیس بک انتظامیہ نے آزادی اظہار رائے سے متصادم قرار دیتے اور دہشتگردی کو پھیلانے کے الزام میں ان اکاؤنٹس اور پیجز کو ڈیلیٹ کرنا شروع کیا جن پر برہان وانی اور کشمیریوں کی بات کی جارہی تھی۔ پاکستان میں سیکڑوں اکاؤنٹس تھے جو فیس بک انتظامیہ نے اپنے قوانین سے متصادم قرار دیتے ہوئے بند کیے۔ یہ تھا ایک واقعہ جو ہمارے سامنے ہے۔
کچھ ہی عرصے بعد پاکستان میں توہین رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا گھناؤنا کھیل کھیلا گیا۔ متعدد فیس بک پیجز اور اکاؤنٹس کے ذریعے مسلمانوں کے آخری پیغمبر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں تابڑ توڑ حملے کیے گئے اور یہ سب حملے زیادہ تر فیس بک اور بلاگز سائٹس کے ذریعے ہوئے۔ اس کے خلاف پاکستان میں شدید ردعمل دیکھا گیا۔ شہر شہر مظاہرے تھے جوکہ فیس بک انتظامیہ سے اس مواد کو ہٹانے، پیجز و اکاؤنٹس کو بند کرنے اور حکومت سے ان افراد کی گرفتاری کا مطالبہ کررہے تھے جوکہ ان واقعات میں ملوث تھے۔ پاکستانی حکومت نے باقاعدہ طور پر فیس بک انتظامیہ کو ان تمام چیزوں کے شواہد دیئے اور درخواست کی کہ گستاخانہ مواد کو ہٹایا جائے اور متعقلہ اکاؤنٹس اور پیجز کو بلاک کیا جائے۔ کچھ دنوں بعد فیس بک کے نائب صدر کی سربراہی میں ایک وفد نے اس وقت کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان سے ملاقات کی ایک دفعہ پھر پاکستان نے تمام شواہد کے ساتھ درخواست کی کہ متعلقہ چیزوں کو بلاک کردیا جائے۔ مگر جب جواب آیا تو وہ یہ تھا کہ چونکہ فیس بک آزادی اظہار رائے کو اہمیت دیتا ہے اسلیے وہ ان پیجز کو بلاک نہیں کرسکتے۔ البتہ کچھ مواد کو ہٹادیا گیا۔ اسی ملاقات میں پاکستان حکومت نے ملکی صارفین کے ڈیٹا تک رسائی اور موبائل نمبرز کے حصول کے لیے بھی درخواست کی جوکہ پرائیوسی پالیسی کے تحت رد کردی گئی۔
مندرجہ بالا دونوں واقعات سے فیس بک پالیسی کا آپ بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ایک طرف آزادی اظہار رائے کو اہمیت دے کر گستاخانہ مواد کو ہٹایا نہیں جاتا جبکہ دوسری طرف دہشتگردی کا الزام لگاکر کشمیر کے متعلق مواد کو ہٹادیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ فیس بک کی پالیسیز تمام افراد اور ممالک کے لیے یکساں ہے، کسی ملک کے لیے کوئی خاص پالیسی نہیں۔ پرائیوسی، انسانی حقوق، سیفٹی، رجسٹریشن اور اس طرح کی تمام پالیسیز کو ایک ہی نظر سے سب کے لیے دیکھا جاتا ہے۔ میری نظر میں اس بات کا تعلق فیسبک کی پالیسی ساز فورم سے ہے جس میں اس وقت تک کوئی پاکستانی موجود نہیں جبکہ بھارتی شہریوں کی ایک قابل ذکر تعداد وہاں موجود ہے۔تو جب تک ہمارے ملک کے شہری فیس بک کے پالیسی ساز فورم پر موجود نہیں ہوں گے فیس بک اپنی مرضی کی پالیسی ترتیب دیتا اور اس پر عمل کرتا رہے گا۔
آخر میں فیس بک پر موجود جولائی 2016 تا دسمبر 2016 تک موجود ڈیٹا پر نظر ڈالتے ہیں کہ جس میں حکومت پاکستان کی درخواست پر فیس بک نے جو ایکشنز لیے ہیں انکی مختصر تفصیل موجود ہے۔ اس عرصے میں گورنمنٹ نے 1002 درخواستوں کے ذریعے 1431 یوزرز کا ڈیٹا ماناگا جس میں سے 67 فیصد کا ڈیٹا فراہم کیا گیا وہ بھی ایک محدود حد میں کیونکہ فیس بک کی پرائیوسی پالیسی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ کسی بھی صارف کا مکمل ڈیٹا کسی کو فراہم کردیا جائے۔ اسی عرصے کے دوران کرمنل ایکٹویٹیز میں ملوث 677 اکاؤنٹس کا ڈیٹا 442 درخواستوں کے ذریعے حاصل کیا گیا جبکہ پاکستان ٹیلی کمینویکشن اتھارٹی اور ایف آئی اے کی قانونی درخواستوں کے باعث توہین رسالت اور ملکی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے والے 6 اکاؤنٹس کو بند کیا گیا جن میں سے چار اکاؤنٹس ملکی سلمیت کے خلاف استعمال کیے جارہے تھے۔ امن و امان کو مدنظر رکھتے ہوئے چہلم امام حسین رض کے دوران حکومت پاکستان کی درخواست پر ملک کے مختلف علاقوں میں فیس بک تک صارفین کی رسائی عارضی طور پر معطل کی گئی۔
اس بلاگ کے ذریعے قارئین کو اصل مسئلے کی نشاندہی کرنا مقصود تھی کہ آخر کیوں ہماری رائے کی اہمیت فیس بک کے نزدیک نہیں۔امید ہے کہ اس سوال کا جواب کسی حد تک مل چکا ہوگا۔