معصوم ترین راؤ انوار کا ملکِ پاکستان

یہ کوئی معمولی خبر نہیں اور نہ ہی پاکستان کیلئے کوئی خوش خبری ہے۔ یہ بات بالکل اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان کے جتنے ایسے ادارے جن کا کام قانون کا “قانونی” نفاذ ہے وہ اب اتنے بے خوف ہوگئے ہیں کہ خود ہی وکیل، خود ہی عدالت اور خود ہی جلاد بن چکے ہیں اور اگر کوئی جرات کا مظاہرہ کرکے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرکے ان کے گریبان کو عدالت تک کھینچ کر لے جائے تو ان اداروں کے ایک ایک سفاک قاتل کا تحفظ کیا جاتا ہےاور ان کا عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر اپنی صفائی پیش کرنے کو پورے ادارے کی توہین اور تذلیل شمار کرتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی “طاقت” کا ایسا راستہ نکالا جاتا ہے کہ مجرم عدالت میں پیش ہی نہ ہو سکے۔ پرویز مشرف اور راؤ انوار اسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے ایسے مجرم ہیں جن پر مقدمات تو قائم ہیں لیکن پاکستان میں کسی میں اتنی جرات نہیں جو ان کو ہتھکڑیاں پہنا کر عدالت میں حاضر کر سکے۔

 حکومت کا اعلیٰ سے اعلیٰ عہدیدارکی حیثیت قانون کی نظر میں ایک عام شہری سے زیادہ نہیں ہوتی اور اگر وہ کسی بھی قسم کی ملک دشمن سرگرمیوں یا جرم میں ملوث ہو تو قانون اس کے خلاف حرکت میں آ بھی سکتا ہے، اسے گرفتار بھی کر سکتا ہے، اس پر مقدمات بھی چلا سکتا ہے اور قانون کے مطابق سزا بھی دلوا سکتا ہے لیکن اس کے معنیٰ یہ کبھی نہیں ہوتے کہ “حکومت” ہی کو اتنا بے توقیر کردیا جائے کہ افراد اس سے وابستگی میں ہی اپنی توہین سمجھنے لگیں۔

پاکستان میں ہی نہیں، دنیا بھر میں بڑے بڑے حکومتی عہدیدار قانون کی گرفت میں آنے کے بعد موت جیسی سزا تک پا چکے ہیں۔ لیکن ایسا کسی بھی ملک میں نہیں ہوا کہ وہاں حکومت کمزور کردی گئی ہو یا اس کی عزت و وقار پر کوئی آنچ آئی ہو لیکن پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں سب سے زیادہ رسوائی کی کوئی بات ہے تو وہ حکومت کرنا اور اس کے اعلیٰ عہدوں پر بیٹھنا ہے۔

دنیا کا کوئی ملک بھی اقوام عالم میں عزت و وقار کا مقام حاصل نہیں کر سکتا جس ملک کی حکومت بے توقیر ہو اور دنیا کی ہر آنکھ اس کو بیساکھی کے سہارے پر کھڑا ہوا دیکھ رہی ہو۔ لیکن اس بات کو پاکستان میں نہ تو ادارے سمجھنے کیلئے تیار ہیں اور نہ ہی عوام کی ایک بھاری اکثریت اس اہم اور سنجیدہ مسئلہ پر غور کرنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔

پاکستان میں قانون اپنی قوت دن بدن کھوتا جارہا ہے اور اس پر وہ قوتیں غالب آتی جارہی ہیں جن کا کام ہی قانون پر عمل در آمد کرانا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ راؤ انوار جیسے افراد اتنے مضبوط اور طاقتور بن چکے ہیں جو عدالت کی نظر میں ایک ملزم ہوتے ہوئے بھی اتنے بھرم کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں جیسے وہ قانون کو اپنی لونڈی باندی سمجھتے ہوں۔

اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک ایسا شخص جس کے ہاتھوں جیلوں میں قید 400 سے زائد افراد بغیر عدالت میں پیش کئے مارے جا چکے ہوں اور جب اسے عدالت میں پیش ہونے کو کہا جائے تو وہی ادارہ جس کا کام مجرم کو گرفتار کرکے، اسے پابہ زنجیر کرکے، اس کے خلاف چالان کاٹ کر عدالت میں ایک ملزم یا مجرم کی حیثیت میں پیش کرے، اس ادارے کے درجنوں اہل کار اسے اپنے جلوہوں میں اس طرح لے کر آ رہے ہوتے ہیں جیسے وہ بادشاہ ہو اور ادارے کے حاضر ڈیوٹی اہلکار اس کے غلام۔ یہی نہیں، 400 سے زائد افراد کا قاتل اس طرح گردن اکڑا کر چل رہا ہو جیسے اس نے 400 انسانوں کو نہیں کاکروچوں کو مارا ہو۔

وہی راؤ انوار جو پاکستان کی نظروں میں آج تک نہ صرف قابل عزت اور معصوم ترین سمجھا جاتا رہا اور اس کا عدالت میں پیش ہونا بھی ایک بہت “باعزت” ادارے کی تذلیل میں شمار کیا گیا، کوئی دیکھے تو دنیا اس کو کس نظر سے دیکھ رہی ہے۔

خبر ہے کہ “امریکا نے جعلی انکاؤنٹرز کے لیے بدنام سابق پاکستانی پولیس افسرراؤ انوار سمیت 18افراد پر پابندیاں عائد کر دیں۔ امریکی محکمہ خزانہ سے جاری بیان کے مطابق راؤ انوار، ایس ایس پی ملیر، کے طور پر متعدد جعلی پولیس انکاؤنٹرز کاالزام ہے۔ جن میں کئی افراد ہلاک ہوئے۔ بیان میں کہا گیا کہ راؤ انوار 190 سے زائد پولیس انکاؤنٹرز میں ملوث رہا جن میں 400 سے زائد اموات ہوئیں، جن میں نقیب اللہ محسود کا قتل بھی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق راؤ انوار نے پولیس اور مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ٹھگوں کے نیٹ ورک کی مدد کی جو مبینہ طور پر بھتہ خوری، زمینوں پر قبضے، منشیات کی فروخت اور قتل کی وارداتوں میں ملوث تھے”۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ بیان میں کہا گیا کہ “راؤ انوار پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہونے پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں”۔

راؤ انوار کی ہر کارروائی شک و شبہ کی نظر سے دیکھی جاتی رہی تھی لیکن نقیب اللہ کے جاں بحق کئے جانے کے بعد اس کے خلاف شدید رد عمل سامنے آیا جس کی وجہ سے حکومت وقت اس بات پر مجبور ہوئی کہ اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ نقیب اللہ کے والد سے یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس کو انصاف ملے گا لیکن معلوم ہوا کہ راؤ انوار تو بہت ہی معصوم اور شریف بچہ ہے اس لئے اسے ضمانت بھی مل گئی اور ملک سے باہر جانے والے سارے راستے بھی کھول دیئے گئے۔

ایک ایسا پولیس آفیسر جس نے 190 وارداتوں میں 400 سے زائد افراد کو قتل کروایا ہو، کیا اس پر کسی بھی قسم کا مقدمہ نہیں بنتا؟۔ کیا ان معاملات کی کوئی عدالتی تحقیق نہیں ہونی چاہیے؟، کیا معاملات کی حقانیت کو سامنے نہیں آنا چاہیے اور کیا پاکستان کا ہر وہ ادارہ جس کا کام ہی حقائق کو تلاش کرکے کسی مجرم کو اس کی سزا تک پہنچانا ہوتا ہے، اس کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ایک ایسے مجرم کو جو عدالت کو مطلوب ہو اس کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کرے؟۔ یہ ہیں وہ سارے سوالات جس کا جواب جب تک نہیں ملے گاجب تک انصاف قائم نہ ہوجائے۔

تھوڑی دیر کیلئے یہ مان بھی لیا جائے کہ مارے جانے والے سب کے سب نہایت سنگین جرائم میں ملوث رہے ہونگے۔ یہ سب قاتل، چور، ڈاکو، لٹیرے، دہشتگرد اور ملک کے غدار ہی رہے ہونگے لیکن کیا کوئی بھی قانون ایسے لوگوں کو عدالت میں پیش کئے بغیر اور جرم ثابت کئے بنا ماردینے کی اجازت دیتا ہے؟۔

پاکستان میں افراد کو اٹھا کر لیجانا اور ماردیا جانا ایک کھیل بن گیا ہے۔ یہ آج سے نہیں ہورہا، گزشتہ تیس پینتیس سال سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ اس طرح ماردیئے جانے والوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے لیکن آج تک کبھی اس نہایت سنگین جرم کو جرم سمجھا ہی نہیں گیا۔

کہا جاتا ہے کہ 30 ہزار سے زیادہ افراد تو صرف کراچی ہی میں مارے جاچکے ہیں۔ یہ مان بھی لیا جائے کہ ایسا سیاسی کشیدگی کا نتیجہ رہا تھا لیکن کیا صرف ایسا کہہ دینے سے قتل جیسے جرم کی سنگینی ختم ہو جاتی ہے۔ بیشمار افراد قانون نافذ کرنے والوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے لیکن کیوں؟، اور بیشمار افراد سیاسی دشمنی میں کام آئے۔ جن افراد نے سیاسی یا لسانی دشمنی میں ایک دوسرے کو ہلاک کیا، کیا وہ کسی بھی سزا کے مستحق نہیں؟۔ کہاں ہیں ہزاروں افراد کے قاتل؟۔ کیا اس کا جواب قانون نافذ کرنے والے اداروں سے طلب نہیں کیا جانا چاہیے؟۔

یہی وہ سب باتیں ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ پاکستان میں دو قسم کے قاتل پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو نظر آرہے ہوتے ہیں اور ایک وہ جو دکھائی نہیں دے رہے ہوتے۔ جب نظر آنے والے قاتل پکڑے جاتے ہیں تو وہ اصل قاتل جو دکھائی نہیں دے رہے ہوتے انھیں اپنے آپ کو پوشیدہ رکھنے کیلئے یا تو دکھائی دینے والے قاتلوں کوقتل کردیا جاتاہے یا پھر انھیں ملک سے باہر “سیف ہاؤسز” میں بھجوا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواہ کسی پر 111 قتل کا الزام ہو یا 96 قتل کا، وہ عدالتوں میں کبھی پیش نہیں کئے جاتے۔

جب تک سفاکیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا، ایک راؤ انوار نہیںسینکڑوں راؤ انوار اسی طرح اندرون ملک اور بیرون ملک دندناتے پھر تے رہیں گے۔ اگر پاکستان کو باوقار بنانا ہے تو پھر ہر قسم کی لا قانونیت کو دفن کرنا ہوگا ورنہ (خدانخواستہ) پورا پاکستان لاقانونیت کے ملبے تلے دب کر رہ جائے گا۔

حصہ
mm
حبیب الرحمن ایک کہنہ مشق قلم کار ہیں وہ بتول، اردو ڈائجسٹ، سرگزشت، سنڈے میگزین(جسارت)، جسارت اخبار میں "صریر خامہ" ٹائیٹل اور کچھ عرحہ پہلے تک "اخبار نو" میں "عکس نو" کے زیر عنوان کالم لکھتے رہے ہیں۔انہوں نے جامعہ کراچی سے سیاسیات میں ماسٹرز کیا ہے۔معالعہ اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔

جواب چھوڑ دیں