دنیا میں سب سے اُونچا میرا نام ہو جائے اُلفتِ نبیؐ میں اگر زندگی تمام ہو جائے
معزز قارئین ! اللہ تبارک تعالیٰ کا لاکھوں کروڑوں شکر کہ اُ س ذاتِ اقدس رب ذُوالجلال نے ہمیں اپنے پیارے نبیؐ کا اُمتی پیدا فرما کر ہم پر اپنا خصوصی کرم فرمایا کیونکہ اُمتی ہونے کی خواہش اللہ کے پیارے انبیاء کرام نے بھی کی ۔ ہم اس لیے بھی خوش نصیب ہیں کہ ہم پیدا ہی مسلمان ہوئے اور ہمیں یہ شرف حاصل ہے کہ ہم اللہ کے لاڈلے پیارے امام الاابنیاء سیدالمرسلین رحمت اللعالمین کے اُمتی پیدا ہوئے اگر ہمیں بھی رب کائنات کسی ہندو ، سکھ یا کسی دوسرے مذہب میں پیدا فرما دیتا تب ہم نے کون سا اللہ کریم کا کچھ بگاڑ لینا تھا۔
ہمیں فخر کرنا چاہیے کہ ہم اتنے عظیم المرتبہ پیغمبرؐ کی اُمت میں پیدا ہوئے ۔جس کی قسمیں اللہ تبارک و تعالیٰ قرآن ِ مجید فرقان حمید میں کھا ئیںکبھی ، یٰسین، کبھی طحہٰ،کبھی مدثر کبھی مزمل کہہ کر پُکارا۔ وہ اللہ کا اتنا عظیم نبیؐ جس کی شان میں نزول قرآن ہوا ۔ اللہ کو اپنے حبیب سے پیار اس قدر زیادہ کہ کبھی والیل کہا تو کبھی زُلفوں کا ذکر کیا۔ اِخلاق اس قدر بُلند کہ دشمن بھی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے ۔ امین اتنے کہ دشمن بھی اپنی امانتیں آپؐ کے پاس رکھوا تے ۔ کسی نے پیاری والدہ ماجدہ اماں عائشہ صدیقہ سے عرض کیا کہ حضورﷺ کے اخلاق کیسے ہیں تو آپ نے کیا خوب فرمایا ’’ قرآن اُٹھا کر دیکھ لو سارا حضورؐ کا اخلاق ہے ‘‘آپ کی اِ س بات کی گواہی میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا سورہ قلم آیت نمبر ۵ ترجمہ ۔’’ بے شک آپ کا اِخلاق بہت عظیم ہے ‘‘ ۔
نبوت کا آغاز اللہ کی وحی سے ہوا اور آپ نے فرمایا ’’انما بعثت معلما‘‘ یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے ۔حضور اکرمؐ کی ذاتِ پاک اپنی مثال آپ ہے کیونکہ نہ کوئی آپ جیسا تھا نہ کوئی آپ جیسا ہے اور تا قیامت آپ جیسا گُمان بھی نہیں کیا جا سکتا۔ عرب جیسے معاشرے میں جہاں ہر وقت بتوں کی پوجا (عبادت )کی جاتی تھی یہاں تک کہ جس خانہ خُدا کو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور اُن کے بیٹے حضرت سماعیل علیہ السلام نے تعمیر کیا اُس میں بت رکھے ہوئے تھے ، اُس معاشرہ میں آنکھ کھولی جہاں جہالت اپنے عروج پر تھی ، عزت و احترام ، خواتین کے حقوق بیٹیوں کی زندگیوں کو درگور کرنا عام تھا ، ایسی حالت میں اللہ کا پیغام دینا اور اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھناایسا عزم اور ارادہ لے کر اللہ کا پیغام گھر گھر پہنچانا کوئی معمولی کام نہ تھاجہاں چھوٹی چھوٹی باتوں پر خون کر دینا ، جان سے مار دینا ، ظلم و ستم کے بادلوں میں پیغام محبت دینا ایک بہت بڑا عمل تھا جو کہ میرے نبیؐ نے بخوبی سر انجام دیا۔آپ کے اعلیٰ اخلاق کی بدولت ،نرمی ، عاجزی ، انکساری سے اللہ کریم سے دعائوں کا نتیجہ کہ پورے عرب میں اسلام کا بول بالا ہوا ، غریبوں ، یتیموں ، بیوائوں ، بیٹیوں مائوں ،بہنوں کو عزت ملی جائیداد میں اُن کو وراثت ملی ، عالم ِ جہالت میں تو پیدا ہوتے ہی لڑکیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ آپ کی انتھک محنت ، رات دن اللہ سے دعائوں کا نتیجہ کہ عرب میں اسلام پھیلنے لگا۔آپ کے حُسن اخلاق میں اس قدر چاشنی تھی ، ایسا نُور تھا ،ایسی دلکشی تھی جو دلوں کو مسخر لر لیتی کہ لوگ جو ق در جوق اسلام کے راستے پر کھینچے چلے آتے ۔
آپﷺ کی ذات پاک اس قدر نرم تھی کہ صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں نبی کریمؐ انتہائی حلیم الطبع ، نرم دل اور ہمدرد تھے ہر ایک سے اتنی مہربانی محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔آپ کا فرمانِ عالی شان ہے کہ نرمی اختیار کرنے سے بہت سے معاملات خود ہی درُست سمت میں چلنا شروع ہو جاتے ہیں اور معاملات کو چارچاند لگ جاتے ہیں ۔یہ آپؐ کے حُسن ِ اخلاق کی عظیم مثال ہے کہ تہذیب و تمدن سے ہزاروں میل دُور ، جہالت پر فخر کرنے والے لوگوں میں اصلاح کو اس انداز میں قائم کیا کہ آج تک اس کی مثال نہیں ملتی ۔جب نہ کوئی اسکول تھا، نہ کالج، نہ یونیورسٹی ، نہ سفر کرنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت میلوں ، کوسوں دور دراز علاقوں میں پیغام حق پہنچایا۔آپ ﷺ نے سونے ، جاگنے ، چلنے پھرنے کاروبار کرنے ، مُلکوں ، قوموں پر حکمرانی کرنے کے ایسے طریقے بتائے کہ مکہ اور مدینہ کی چھوٹی چھوٹی بستیوں سے علم حاصل کرنے والوں نے دنیا پر حکمرانی قائم کی ۔ روم ، ایران ، مصر، شام، دجلہ و فرات کے گرد بسنے والوں جاہلانہ اور ظلم ستم کا بازار گرم رکھنے والے معاشروں کی ایسی اصلاح کی جو آج تک انسانوں کے لیے صراط مستقیم ہے ۔حضورﷺ کے شاگردوں نے مشرق سے لے کر مغرب تک شمال سے جنوب تک مذہبی دنیا کی کایہ پلٹ کر رکھ دی ۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ، آپ ﷺ کی ہستی ایک مکمل اور کامل ہستی ہے جن کی تعلیم اور بتلائے ہوئے پیغام پر عمل کر کے انسان دنیا و آخرت کی لذتوں سے بہرہ ور ہو سکتا ہے ۔
آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے سے ہی انسان نے ماں باپ کی قدر پہچانی آپؐ نے زندگی کا کوئی ایسا پہلو نہیں چھوڑا جس میں ذرہ برابر بھی جھول ہوآپؐ نے فرمایا جنت ماں کے پائوں تلے ہے جبکہ باپ کو جنت کا دروازہ کہا۔جو تعلیم آپؐ نے فرمائی اُس کا نصاب دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی میں نہیں ملتا ۔آپؐ نے فرمایا سلام میں پہل کرو کیونکہ اس سے اللہ سے خیر حاصل ہوتی ہے جبکہ شر دُور بھاگتا ہے آپ نے فرمایا بھوکوں کو کھانا کھلائیں ، غریب کی مدد کریں ، بھوک جو کسی بھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی سب سے بڑی وجہ ہے اس لیے بھوکوں کو کھانا کھلانے کا بندوبست کرنے کو ترجیح دی اور رشتہ داروں سے قطع تعلقی رکھنے سے منع فرمایا آپ نے رشتہ داروں سے حُسن ِ سلوک کا درس دیا ۔آ پ نے فرمایا راتوں کو اُٹھ کر اللہ کے سامنے جھکا کرو تا کہ تم بڑے آرام سے جنت میں جا سکو۔نبی مکرمؐ جب معراج شریف سے واپس تشریف لائے تو اللہ نے جو تحفہ اُمت کے لیے دیا وہ پانچ وقت کی نماز کا دیا اور قرآن مجید میں بھی فرمایا ’’ نماز کو وقت پر ادا کیا کرو‘‘
اللہ نے اپنے حبیب حضرت محمدؐ کا ذکر بلند کیا اور قرآن مجید میں فرمایا ’’ ورفعنا لک ذکرک‘‘ بے شک ہم نے آپ کا ذکر بلند کردیا۔ اس آیت ِ کریمہ کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ کریم نے آپ کا ذکر کیسے بلند فرمایا؟ دنیا میں پانچ وقت کی اذان ہوتی ہے جس میں موذن کہتا ہے ’’ اشہد اللہ الہ الا اللہ جس کے فوراََ بعد پڑھتا ہے ’’ اشہد انا محمد رسول اللہ‘‘ یعنی جہاں اللہ کا ذکر وہیں میرے مصطفٰے کا ذکر ، قرآن میں، اذان میں ، صفا ومروہ میں، حج، جمعہ ،نماز عیدین میں، ایام تشریق میں، خطبہ میں، نکاح میں الغرض مشرق و مغرب میں شمال و جنوب میں جہاں اللہ کریم کا نام لیا جائے گا اللہ کے حبیب کا ذکر بھی وہیں آئے گا۔یہاں تک کے مسلمان ہونے کی شرط کلمہ طیبہ میں ’’لا الہ الہ اللہ محمد رسول اللہ ‘‘ترجمہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدؐاللہ کے رسول ہیں ۔کُرہ ارض پر ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گذرتا جب میرے نبیؐ کا ذکر نہ ہو رہا ہو۔آپ کی حیات مبارکہ کا ایک ایک لمحہ ایک ایک جنبش اور ہونٹوں سے نکلنے والے وہ پاک الفاظ آج بھی حدیث کی کتابوں میں موتیوں کی طرح پروئے ہوئے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپ کی عزت و تکریم اور بلندیوں کو کیسے بیان کیا ا ِس آیت کریمہ کی روشنی میں جانتے ہیں سورہ العمران آیت نمبر ۳۱’!
ترجمہ۔’’ اے پیارے محبوب کہہ دیجیے ان لوگوں سے اگر تم اللہ کو اپنا دوست رکھتے ہوتومیرے فرمانبردار بن جائواللہ تمہیں دوست رکھے گا،اور تمہارے گناہ بخش دے گااور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ‘‘اللہ کریم نے پیارے حبیبؐ جہاں پیدا ہوئے اُ س شہرمکہ کی قسم کھائی۔
آپؐ نے انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات دلائی اور ربِ واحد کی عبادت اور توحید کی راہ دِکھائی لوگوں کو گمراہی سے نکالنے کے لیے ہر لمحہ دل گذار کیفیت میں گذارتے ۔راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر اپنی اُمت کے لیے اللہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر بخشش کی دعائیں کرتے ، اللہ کے پیغام کو پھیلانے کے کیا کیا نہ کیا ، پتھر کھائے یہاں تک کہ آپ کے نعلین پاک لہو لہان ہو جاتے لیکن اللہ کے پیغام کو دل جوئی سے پھیلاتے رہے ۔اللہ ہم سب کو نبی کریمؐ کے اسوہ حسنہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے اور لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق دے ۔آج معاشرے کو نبی کریمؐ کے اخلاق حسنہ پڑھنے اور سیرت کی کتابیں پڑھنے کی اشد ضرورت ہے دور حاضر میں ایک معلم کو نبی کریمؐ کی سیرت کا مطالعہ کرنا انتہائی ضروی ہے تب جا کر اُجالے کی کرن پھوٹے گی۔مسلم معاشرہ جس بے راہ روی کا شکا ر ہو رہا ہے ضروری ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کریں دوسروں کی غلطیاں نکالنے کی بجائے اپنے اندرکی برائیوں کو ختم کریں، پھر انشاء اللہ ریاستِ مدینہ کا خواب شرمندہ وتعبیر ہو گا۔