بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو فطرت اسلام پر ہی پیدا ہوتا ہے۔ اس کے مسلمان، ہندو، عیسائی، یہودی ہونے کا انحصار اس کے والدین پہ ہوتا ہے۔ موجودہ دور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ سرا سر مغربیت کا دور ہے یہی مغربیت آہستہ آہستہ ہماری نسل میں پروان چڑھ رہی ہے۔ مسلم قوم اپنی نسل کی تربیت کے لیے بہت سے خدشات کا شکار ہے۔ موجودہ دور میں بچوں کو ایک مشین کی طرح ہر کام سِکھایا جانا ضروری سمجھا جاتا ہے۔ دو ڈھائی سال کے بچے کو اسکول میں داخل کروا کر والدین بری الذمہ ہو جاتے ہیں اور اسکول والے اس معصوم بچے کو ایک روبوٹ کی طرح پروگرامنگ انسٹال کرنے پہ لگا دیتے ہیں۔ والدین اگر بچوں کی بہترین تربیت کرنا چاہتے ہیں تو درج ذیل باتوں کو اپنائیں اور اپنی اور بچوں کی زندگی کو آسان اور پرسکون بنائیں۔
1۔ پرائیویٹ اسکولوں کا رجحان کم کریں۔
موجودہ حالات میں والدین کے لیے ایک ننھے منے بچے کو اسکول میں داخل کروانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک بچے کی فیس ہزاروں میں ہوتی ہے اور جو تنخواہ گھر کا مہینے کا خرچ ہوتی ہے وہ اس بچے کی داخلہ فیس بن جاتی ہے۔ عجیب کشمکش کا دور ہے کہ اسٹیٹس دکھانے کے لیے لوگ اپنی چادر دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ بس ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگ بچوں کو پرائیویٹ انگلش میڈیم اسکولوں میں داخل کروانے کے لیے اپنے وسائل تک کا خیال نہیں رکھتے۔ شہروں میں موجود سرکاری اسکولوں میں تعلیم کا معیار بہترین ہے۔
2۔ والدین خود تربیت کریں۔
بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو کچھ بھی سیکھ کر اس دنیا میں نہیں آتا۔ وہ جو کچھ سیکھتا ہے، اپنے والدین سے اور ماحول سے سیکھتا ہے۔ اگر والدین سمجھتے ہیں کہ ایک اڑھائی سال کے بچے کو تعلیم کی ضرورت ہے، تو ان کو چاہیے کہ بچے کو دین کی تعلیم دیں۔ گھر میں پنجگانہ نماز کا اہتمام کریں کیونکہ بچہ دیکھ کر سیکھتا ہے۔ وہی بولتا ہے جو سنتا ہے۔ تو اپنے بچے کو اچھے اور خوشگوار الفاظ بولنا سکھائیں۔ دین کی میٹھی باتیں سنائیں۔ کھانا کھانے کی دعا، پہلا کلمہ اور خوبصورت دعائیں یاد کروائیں۔ بڑوں کا احترام، لہجے کی نرمی، غصہ نہ کرنا، پانی بیٹھ کر پینا، یہ سب وہ باتیں ہیں، جو اس عمر میں بچے کو سکھانی ضروری ہوتی ہیں۔ گھر کا ماحول ایسا ہو کہ بچہ برائی کی طرف راغب نہ ہو۔ والدین اگر گھر میں لڑائی جھگڑے کا ماحول بنائے رکھیں گے تو بچے کے ذہن پہ اس کا اثر پڑے گا اور وہ بھی اپنی زندگی میں ان باتوں کو اپنائے گا۔ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ اس لیے تعلیم و تربیت کا مرحلہ اپنی ذات سے شروع کریں۔
3۔ اسلامی تعلیم کا بندوبست کیجیے۔
بچے کی تربیت کے ساتھ ساتھ اسے دین اسلام سے روشناس کروانے کے لیے قرآن پاک پڑھایے۔ بچوں کو قرآن پاک پڑھانے کے لیے مسجد میں بھیجیں یا گھر میں قرآن پاک پڑھنے کا بندوبست کیا جائے۔ بچوں کو اسلام سے متعلق واقعات اور اسلامی شخصیات سے متعارف کروائیے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حیاتِ طیبہ پڑھایے اور اس پہ عمل کروانے کا فرض ادا کریں۔ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیے اور بچوں کو اسلامی چینلز پہ اسلامی لیکچرز اور معلوماتی پروگرام دیکھائیے۔
4۔ احساس کمتری سے بچائیے۔
بچوں کی تعلیم و تربیت میں ایک اہم بات جو بے حد ضروری ہے۔ والدین اکثر اپنے بچوں کو دیگر بچوں سے مقابلہ کرنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب دلاتے ہیں لیکن دراصل اس ترغیب کے باعث بچے احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امتحانات کے بعد رزلٹ کے موقع پہ اکثر والدین اپنے بچوں کو یہ کہہ کر انہیں مایوس کردیتے ہیں کہ فلاں بچے نے تم سے اچھے نمبرز لیے ہیں جبکہ تمہاری کلاس کا، تمہاری عمر کا بچہ ہے۔ بلاوجہ کہ مقابلے بچے کو احساسِ کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ والدین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر بچے کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مختلف ہوتی ہیں۔ یہ اللہ پاک کی عطا ہے۔ مارپیٹ اور سخت رویہ بچوں کو بیزاری، احساس کمتری میں مبتلا کر دیتے ہیں۔
5۔ مغربیت سے بچائیں۔
والدین کا فرض ہے کہ بچوں کی تربیت میں حب الوطنی کا عنصر شامل کریں۔ اپنے بچوں کا اسلام سے محبت کی ترغیب دیں۔ اکثر اسکولوں میں بچوں کو پابند کیا جاتا ہے کہ اسکول کے اوقات میں اردو زبان نہ بولیں جبکہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے۔ بچوں کو اسلام سے مطابقت رکھنے والا لباس پہننے کی ترغیب دیں۔ اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جو ہر کام میں میانہ روی کی تعلیم دیتا ہے۔
بچوں کی تربیت میں درپیش مسائل والدین کو اسلامی تعلیمات کے مطابق حل کرنے چاہیے۔ بچوں کو دور حاضر کی تعلیم ضرور دیں لیکن ان کو مغربیت مت سکھائیں۔ ان کا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا غرضیکہ ہر عمل اسلام کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اپنے بچوں کی بہتر تربیت کرنے کی توفیق عطا کرے۔آمین