رائے حارث منظور 16 اگست 2004 کو راولپنڈی میں پیدا ہوا۔ ان کے والد رائے منظور ناصر پی سی ایس آفیسرز ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے ہیں، 2012میں منظور ناصر صاحب نے اپنے بڑے بیٹے حارث کو اسکول سے نکلوا لیا جبکہ وہ ابھی چوتھی جماعت میں ہی تھا۔ رائے حارث کے والد اور والدہ نے اپنا کوالٹی ٹائم اپنے بیٹے کو دینا شروع کر دیا اور کیمبرج بورڈ کے 7 سالوں کا نصاب صرف 17 مہینوں میں مکمل کرکے پاکستان سمیت ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
حارث کے والدین نے کیمبرج کے نصاب کے ساتھ ساتھ اسے قرآن حفظ وناظرہ بھی پڑھانا شروع کیا اور کم عمری میں ہی حارث نے تیسواں پارہ بھی یاد کرلیا ۔کیمبرج او لیولز کا وہ نصاب ہے جو 17 یا 18 سال کے طالب علموں کی ذہنی سطح کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ حارث نے محض نو سال اور پانچ مہینے کی عمر میں اسے پورا کر دیا انہوں نے پانچ مضامین میں کامیابی حاصل کرکے یہ ریکارڈ اپنے نام کیا اور چوتھی جماعت کے بعد سے کبھی اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔
رائے حارث کوئی پہلا بچہ نہیں تھا، اس سے پہلے چناب نگر، ربوہ سے تعلق رکھنے والی 11 سالہ ستارہ بروج اکبر نے بھی یہی اعزاز اپنے نام کیا تھا۔ اس نے 9 سال کی عمر میں کیمسٹری اور گیارہ سال کی عمر تک باقی بھی چار مضامین پاس کرلیئے۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ ستارہ بروج کے والدین نے بھی دوسری جماعت کے بعد سے ستارہ کو اسکول سے اٹھوالیا اور “ہوم اسکولنگ” شروع کروادی۔
آپ کمال ملاحظہ کریں۔ کیلن کوسٹس نے 8 سال تک اسکول کی شکل نہیں دیکھی۔ کوسٹس نے 9 سال کی عمر میں بولیویو یونیورسٹی نیبرسکا سے پہلے ویب ٹیکنالوجی میں گریجویشن اور پھر انفارمیشن سسٹم مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، وہ کم عمر ترین ماسٹرز ڈگری رکھنے والا بچہ ہے جس نے یہ کام صرف 14 سال کی عمر میں سر انجام دیا۔
آپ کو ان تینوں بچوں میں ایک بات ضرور مشترک نظر آئے گی اور وہ یہ ایک ان تینوں بچوں کے والدین نے ہی “ہوم اسکولنگ” پر توجہ مرکوز کی۔ ذہن میں رہے کہ نہ میں اسکولز کے خلاف ہوں اور نہ ہی بچوں کو اسکول بھیجنے کے، لیکن پیدائش سے پہلے ہی بچے کے اسکول کے لئے پریشان ہونا، ماں اور باپ کا اپنے بچے کی معصوم اداؤں اور معصومیت کو انجوائے کرنے کے بجائے “دیہاڑی دار مزدور” کی طرح محض 2 اور 3 سال کی عمر میں دھکےدے دے کر وینوں میں ٹھونسنا اور پھول جیسے بچوں کی میٹھی نیند کو اپنے فضول سے “خوابوں” کے لیے برباد کردینا، کونسی ممتا اور کون سا پیار ہے؟
آپ کبھی جائیں اور جا کر ان لوگوں سے ملیں جو اسکول نہیں گئے بلکہ ساری زندگی محنت مزدوری میں گزار دی، اور دوسری طرف وہ لوگ جو ڈھائی سال کی عمر میں ہی اسکول میں بھرتی کروا دیے گئے تھے۔ آخر ان میں کونسے سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں؟
مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ ہر ماں اور باپ بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوتا ہے۔ میں اس کا بھی اقرار کرتا ہوں کہ اس “مادہ پرستی” کے دور میں بچارے والدین کے پاس اپنے بچوں کو گھر پر اسکول کا دیا ہوا پڑھانے کا ہی وقت نہیں ہے۔ ہر گلی میں ٹیوشن سینٹرز اور گھر گھر میں قاری صاحبان جا جا کر پڑھاتے ہیں، کیونکہ والدین کے پاس نہ دنیا پڑھانے کا وقت ہے اور نہ ہی قرآن۔
آپ صرف 7 سال تک بچے کو اپنے ساتھ رکھ لیں۔ اسے خود سے جوڑے رکھیں، اس کے ساتھ کوالٹی ٹائم گزاریں، اسے وقت دیں، اس کے ساتھ صرف کھیلیں، کودیں، ہنسی اور دل لگی کریں۔ وہ خود سے پڑھتا ہے تو بہت خوب ورنہ کوئی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اس کے اندر کتابیں ٹھونسیں۔ ابھی آپ ہی اس کے لیے کھلی کتاب ہیں۔ آپ کا اخلاق، آپ کا کردار، آپ کا رویہ ،آپ کا احساس اور آپ کی گفتگو ہی اس کا نصاب، سلیبس، کتاب، کاپی اور امتحان ہے۔ بچے کو کسی امتحان میں نہ ڈالیں اس وقت آپ کا بچے کے سامنے “امتحان ” ہے اس کی فکر کریں ۔
7سال کے بعد والدین کے پاس دو آپشنز ہیں:
1) ہوم سکولنگ
2) روایتی اسکولنگ
اس بات کو ترجیح دیں کہ بچے کو “ہوم اسکولنگ” کروائیں اور جب ہم ہوم اسکولنگ بولتے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ گھر کو “روایتی اسکول” میں تبدیل کردیا جائےبلکہ اسکول والا ماحول سرے سے ختم کردیا جائے۔ ہوم اسکولنگ میں 3 بنیادی چیزیں شامل ہیں جو اس کو “روایتی اسکولز” سے منفرد بناتی ہیں۔
1) بچے کو فطرت سے متعارف کروائیں:
مالز، فوڈ کورٹس، ریسٹورنٹس جھولے اور مصنوعی جگہوں پر بہت زیادہ جانے کے بجائے بچے کو قدرتی مقامات پر زیادہ لے جانے کی کوشش کریں۔ اسے سمندر، دریا، جھیل اور آبشار دکھائیں۔ پارکس، پھل، پھول اور درختوں سے متعارف کروائیں۔ گھر میں اس سے پودے لگوائیں، باغبانی سکھائیں، پالتو جانوروں کے ساتھ کھلوائیں، صحتمندانہ قسم کے کھیلوں میں حصہ دلوائیں، تیراکی کی مشقیں کروانے لے جائیں، اپنی استطاعت کے مطابق شہر یا شہر سے باہر ،ملک یا ملک سے باہر یا جہاں آپ اپنی حیثیت کے مطابق لے جاسکتے ہیں بچوں کو لے کر جائیں۔ بچوں کو “تن آسانیوں” کا عادی نہ بنائیں۔ بارش کا منظر، تتلی کا اڑنا، مٹی سے کھیلنا یہ سب فطری ہے۔ ایسے موقعوں پر اپنی ڈاکٹری جھاڑتے ہوئے جرمس، ہائی جینک اور ان- ہائی جینک کے الفاظ کو تھوڑا سا ایک طرف کردیں۔ جراثیم سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا بنائیں۔ احتیاط ضرور کریں لیکن خواہ مخواہ ممی ڈیڈی بچے بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔
2) رشتے نبھانا اور تعلقات بنانا سکھائیں:
اگر آپ خود “انسان بیزار” بن چکے ہیں تو برائے مہربانی بچوں کے ساتھ یہ ظلم مت کریں۔نانا، نانی اور دادا، دادی بچوں کے سیکھنے کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہیں۔ بچوں کو رشتے داروں کے لیے اپنا “کام” چھوڑنا سکھائیں، ہر ایک کو سلام کرنا، بڑوں سے حال احوال دریافت کرنا، اپنے ساتھ والوں سے دلچسپی کے امور پر گفتگو کرنا، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں کا احترام کرنا ، “اہل علم” کی صحبت میں بیٹھنا اور علم والوں کی عزت کرنا سکھائیں۔ہفتے میں ایک نہ ایک دن کسی نہ کسی رشتہ دار کے گھر بچوں کو ضرور لے کر جائیں اور مہمانوں کو خوش دلی کے ساتھ اپنے ہاں آنے کی دعوت بچوں سے دلوائیں۔ مہمانوں کے آنے پر منہ بنانا اور سامنے خوش اخلاق ہو جانا بچے کو “منافق” بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کام والی، ڈرائیور، خانساماں، سبزی والا، پھل والا سب سے بچوں کو متعارف کروائیں کی دار سب سے بچے کو متعارف کروائیں ان سب سے ڈیل کرنا اور اسٹیٹس میں اپنے سے نیچے والوں کو عزت دینا سکھائیں۔
3) مقصد کی تلاش:
سب سے اہم ترین کام یہ ہے کہ بچے کے ساتھ مل کر اس کا شوق اور دلچسپی تلاش کریں۔ اگر بچہ اپنا شوق تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو یاد رکھیں وہ اپنا مقصد زندگی خود ہی تلاش کر لے گا۔ اس کے شوق کے مطابق کھلونے، کتابیں اور سامان اسے لا کر دیں۔ اس کے اندر موجود اس کے شوق کو مقصد کی آگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں تاکہ وہ اپنی ذات سے لوگوں کو فائدہ پہنچا سکے۔
ان 3 بنیادی باتوں کے ساتھ ساتھ آپ سائنس کے مضامین کے لئے الگ سے استاد بھی رکھ سکتے ہیں اور اس کو بھی ہدایت دیں گے وہ غیرروایتی طریقوں سے بچوں کو سکھانے کی کوشش کرے۔ بچوں کی کتابوں سے دلچسپی پیدا کریں۔ تحقیق اور جستجو کی تلاش ان میں پہلے سے موجود ہوتی ہے اسے ہوا دیں ۔ پھر شاید آپ کو کسی “ہوم ٹیوٹر” کی بھی ضرورت نہ پڑے۔
یاد رکھیں اس کے لیے آپ کو خود بہت زیادہ تیاری، ڈسپلن اور نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ بچوں کی تربیت دراصل اپنی تربیت کا نام ہے اور اس کے لیے اپنی خواہشات کو قربان اور اپنے نفس کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں آپ بچے کو گھر سے “نکالنے” کی فکر میں رہتے ہیں کیونکہ مائیں ان سے ” تنگ” ہوتی ہیں، وہ بچے کو زیادہ سے زیادہ دیر تک “گھر بدر” رکھنا اور تھکا کر جلد از جلدسلانا چاہتی ہیں ۔ اگر اس رویہ کے ساتھ آپ اپنے بچے کو کوئی بڑا “آدمی” بنانے کا خواب دیکھتے ہیں تو پھر آپ واقعی احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔