جیسے ہی میٹنگ ختم ہوئی تو دفتر کے باہر ایک پرسکون فضا تھی۔ہر چہرہ مطمئن نظر آیا اور میرے دل و دماغ سے بھی کافی بوجھ ختم ہو چکا تھا۔کیونکہ ہمیشہ کی طرح آج بھی میں نے Everyone important میٹنگ کی تھی۔ چار دن کسی تقریب کے سلسلے میں ادارے سے باہر رہی اور میر ی غیر موجودگی میں کچھ مسائل شدید نوعیت اختیار کر چکے تھے۔مجھے اُن پر طیش ضرور تھا لیکن واپسی پر فوراً میٹنگ طلب کرنے کی بجائے میں نے تین دن بعد میٹنگ رکھی تاکہ میرے غصے میں بھی کمی آئے اور اسٹاف کو بھی اپنی کی ہوئی کوتاہیوں پر نظرِ ثانی کرنے کا موقع مل جائے۔ جب مقررہ وقت پر اسٹاف کو میٹنگ کے لیے طلب کیا گیا تو میرے ذہن میں یہ بات پہلے سے طے شدہ تھی کہ ہر ممبر کو اس کی اہمیت کا احساس دلا کر یہ بتانے کی کوشش کروں گی کہ آپ بہت اہم ہیں ،گھر سے باہر کئی مشکلیں برداشت کرنے کے بعد یہاں نوکری کی غرض آتے ہیں اور اس ادارے کو آپ سے کچھ توقعات وابستہ ہیں اگر آپ ان پر پورا نہیں اتریں گے تو یقینا آپ کو یہ نوکری چھوڑ کر جانا پڑے گا مگر میں نہیں چاہتی کہ آپ کے ساتھ ایسا ہو۔ آپ سب ممبران اپنی کی ہوئی تمام غلطیاں ایک کاغذ پر لکھیں اور مجھے ایک ہفتہ بعد چیک کروائیں کہ آپ کو یہ ہفتہ سوچنے کے لیے دیا جا رہا ہے کہ ایسی کون سی غلطیاں ہیں جو آپ سے ہوئی ہیں اور اگلی بار وہ نہیں ہوں گی کیونکہ جب تک ہم اپنی غلطیوں کا جائزہ نہیں لیں گے ہمارا دماغ کبھی صحیح اور غلط میں فرق نہیں کر سکے گا۔ ہم صرف اُسی صورت میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب ہم پہلے سے کی گئی غلطیاں نہیں دہرائیں گے۔
کچھ ممبران اب بھی سر جھکائے مجھ سے شدید ردِ عمل کی توقع کر رہے تھے میں نے بات کو مزید بڑھایا اور کہا کہ آپ کو گزشتہ میٹنگ میں اس بات سے آگاہ کیا گیا تھا کہ ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے ہمیں ادارے سے باہر شدید تذبذب کا سامنا کرنا پڑے۔دیکھیے میں آپ کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہوں نا ں کہ آپ پر جلاد بن کر آپ سے طاقت سے کام لینا چاہتی ہوں مگر میری اس نرمی اور خوش اخلاقی کو آپ ہر گز میری کمزوری نہ سمجھیں میرے پاس طاقت کا اختیار ہے میرا عہدہ مجھے اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ میں آپ کو اس ادارے سے نکال بھی سکتی ہوںمگر میں ایسا کرنا نہیں چاہتی اگر آپ اس ادارے میں آنے کا مقصد سمجھ لیں تو آپ کو اپنے فرائض کی ادائیگی میں کبھی مشکل کا سامنا نہیں کرناپڑے گا۔ اس لیے کہ “آپ سب اہم ہیں”Everyone important
اب میٹنگ میں موجود ہر ممبر کے چہرے پر اطمینان تھااور چہروں پر بااعتماد مسکراہٹ بحال ہو تی نظر آئی۔آپ سب میری بات نوٹ کر لیں کہ کچھ وقت اپنے ساتھ گزارنا ہے اس ادارے سے باہر بھی کچھ وقت سوچنا ہے کہ اس ادارے کو آپ سے کیا توقعات وابستہ ہیں، اُن پر آپ کتنا پورا اترے اور مزید اس ادارے کی بحالی کے لیے آپ کو کیا کرنا ہے۔دیکھیے!ادارے چلتے رہتے ہیں ۔آپ لوگ کام نہیں کریں گے تو آپ کے بعدآپ کی جگہ نئے لوگ لے لیںگے۔ آج کے دور میں ہر جگہ پڑھا لکھا فرد نوکری کی تلاش میں دربدر بھٹک رہا ہے آپ نہیں ہوں گے تو آپ کی جگہ لینے کے لیے ایک لمبی قطار اس ادارے کے باہر کھڑی ہے آپ صرف یہ سوچیں “آپ سب اہم ہیں”Everyone importantاور آپ لوگ اس قابل ہیں ،آپ سب تربیت یافتہ ہیں ،آپ اپنی فیلڈ کے کامیاب کھلاڑی ہیں،آپ میں کوئی کمی نہیں ہے اگر آپ اس ادارے میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں تو آپ اس قابل تھے کہ آپ کو یہاں کے لیے منتخب کیا گیا۔مگر پھر بھی فرائض کی کوتاہی اس وجہ سے ہے کہ آپ سب یہ محسوس نہیںکر پا رہے کہ آپ اپنے اس پیشے کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں آپ یہاں پر کام کر کے چند پیسے کما کر اس ادارے پر احسان نہیں کر رہے بلکہ اس ادارے کا آپ پر احسان ہے کہ یہاں آپ کو ایک ایسا پلیٹ فارم دیا گیا ہے جہاں پر آپ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکتے ہیں۔ آپ سوچیں اگر آپ کا شمار اُن سینکڑوں بے روزگار لوگوں میں ہوتا جو قابل ہونے کے باوجود گھروں میں بے کار بیٹھے ہیں۔ جن کی صلاحیتوں کو وقت کی دوڑ دھوپ میں زنگ لگتا جا رہا ہے تو آپ کیسا محسوس کرتے مگر “آپ سب اہم ہیں”اس لیے آپ کو اپنی اپنی پوسٹ پر نہ صرف فرائض ادا کرنے ہیں بلکہ اپنے فرض کا احترام بھی کرنا ہےاور آپ سب یہ اُس وقت کر پائیں گے جب آپ کی سوچ مثبت ہو گی۔اگر آپ ذرا غور کریں تو شاید آپ کو اندازہ ہو گا کہ ادارے کے ماحول میں تنائو اُس وقت آتا ہے جب ادارے گروہ بندی کا شکار ہو جاتے ہیںاور تمام ممبران کے درمیان فاصلے بڑھ جاتے ہیںجس سے یہ طے نہیں ہو پاتا کہ کسی خلاء کو کیسے پُر کرنا ہے کیونکہ گروہ بندی میں ایک ہی چھت تلے تمام لوگ ایک دوسرے کے خلاف ہو کر بیرونی عناصر کو درمیان میں گھسنے کی جگہ دیتے ہیں پھر وہ باتیں بھی باہر پھیل جاتی ہیں جن کو صرف ادارے کی حدود تک رہنا چاہیے اس لیے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ آپس کے اختلافات کو ختم کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ٹیم ورک کو خوش اسلوبی کے ساتھ سرانجام دیا جا سکے۔
میرا کالم لکھنے کا مقصد صرف ایک کہانی یا آپ بیتی بیان کرنا نہیں ہے بلکہ اداروں کے سربراہان کے لیے اور ممبران کے لیے ایک اہم پیغام دینا ہے کہ ہر ایک اہم ہے۔ ہر فرد خواہ وہ ادارے میں کسی بھی پوسٹ پر تعینات ہو وہ احترام کا متقاضی ہے۔ہم اگر بطور سربراہان اپنا جائزہ لیں تو ہمیں کسی بھی ادارے کو فعال رکھنے کے لیے اپنے رویوں میں کچھ تبدیلی لانا ہو گی۔ضروری نہیں کہ ہم طاقت کا ہی استعمال کریں بلکہ اپنے ممبران کو محبت و شفقت کے ساتھ اُن کے فرائض کی ادائیگی کا احساس اس طرح دلائیں کہ اُن کے اندر خوابیدہ صلاحیتیں بیدارہو جائیں اور وہ دلجوئی کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ ہوجائیں کیونکہ ادارے ورکرز کے ساتھ ہی چلتے ہیں اور ورکرز کے درمیان اعتماد اور باہمی یگانکت کی فضا قائم رکھنا ادارے کی ذمہ داری ہے کیونکہ صرف ٹیکنکل ورکشاپس ہی تبدیلیاں نہیں لاتیں بلکہ ہمیں اپنے ورکرز میں اصلاحی تبدیلیاں بھی لانے کی کوششیں کرنی چاہیے اوریہ صرف اُسی صورت ممکن ہو گا جب ہم Everyone importantکے معقولہ پر عملی مظاہرے کا ثبوت دیں گے اور ادارے کی فضا کو اس قدر بااعتماد بنائیں گے کہ ورکرز اپنی تمام صلاحیتوں کو مکمل طور پر بروئے کار لا کر ہر کام کو اپنا فرض سمجھ کر کریں اور ادارے کے نقصان کو اپنا نقصان اور فائدے کو اپنا فائدہ تصور کریں ۔اور اگر یہ کالم پڑھنے والے کسی بھی ادارے کے ممبران ہیں تو اُن کو بھی اپنے فرض کی اہمیت کا احساس کرنا چاہیے اور ہر وقت خود میں مثبت تبدیلی لانے کی تگ و دو میں رہنا چاہیے کیونکہ مثبت سوچ ہی ہر مشکل کو آسانی میں بدل سکتی ہے اور آپ کو معاشرے کا کامیاب فرد بنا سکتی ہے۔آپ میری تمام باتوں سے کس قدر اتفاق رکھتے ہیں مجھے ای میل s.j.mehak@gmail.comکر کہ اپنی رائے سے ضرور آگاہ کریں۔