قرآن حکیم اور مغربی شدت پسندی

بعض ریاستیں سیکولرزم کے لبادہ میں زمین پر شیاطین کے ایجنڈے کو ہوا دینے کے لیے کمربستہ رہتی ہیں ۔دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے ۔منافقت ،ظلم وجبر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کی بھاشا بولنے والے مذہبی انتہاپسندی کی سرپرستی کررہے ہیں ۔ناروے ریاست نے گزشتہ دو عشروں سے اسلام مخالفین کو کھلی آزادی دے رکھی ہے کہ وہ جوچاہے کریں ۔گزشتہ ہفتے قرآن حکیم کو جلانے کی ناپاک جسارت کا اقدام اسی ریاست کی سرپرستی میں ہوا۔مسلم حریت پسند نوجوان نے اس قبیح حرکت کرنے والے پر دھاوا بولا تاکہ اس گمراہ کو سیدھی راہ دکھائی جائے مگر وہاں موجود پولیس نے اسے گرفتار کرلیا۔ متعدد سوالات میرے ذہن میں گردش کررہے ہیں ۔ایک سوارب سے زیادہ مسلمان کیوں اسلامی تہذیب اورقرآن حکیم کی حفاظت نہیں کرپارہے ؟قرآن ہی کو کیوں جلایا جاتا ہے؟مغربی لوگ کیوں اسلام کے خلاف توہین امیز حرکات کررہے ہیں ؟اسلام مخالف قوتوں کا ایجنڈا واضح ہوچکا ہے ۔مسلم ممالک کی صفوں میں دراڑیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ اسرائیل فلسطینیوں کو بے دخل اوریہودیوں کی آبادی کاری کے لیے کوشاں ہے،عرب ممالک درپردہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا ارادہ کرچکے ۔اسلامو فوبیا اوراسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر مغربی بیمار ذہنیت کی عکاسی کرتی ہیں ۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسلام امن کا درس دیتا ہے ۔

قرآن مجید جس عہد اور جس سماج میں نازل ہوا اس کا سب سے تکلیف دہ پہلو لاقانونیت اورمذہبی انتہاپسندی، قتل وغارت اورنسب میں لعن طعن تھا انصاف کا کوئی واضح نظام موجودنہیں تھا کہ جزیرۃ العرب میںباضابطہ کسی حکومت کا وجود نہیں تھا، قبائلی طرز کی حکومتیں قائم تھیں ، وہاں عدل وانصاف کا قائم ہونا ممکن ہی نہیں تھا ایسے ماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا،اس کتاب میں جو سب سے پہلی آیت نازل ہوئی اس میں علم اور قلم کی اہمیت کو بتایا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ تمام انسان ایک باپ کی اولاد ہیں یعنی آپس میں بھائی بھائی ہیںاس میں انسانی وحدت کی طرف اشارہ تھا علم انسان کو قانون کا پابند بناتا ہے اور انسانی مساوات کے تصور سے عدل کا جذبہ ابھر تا ہے اور تکریم انسانیت کی فکر پروان چڑھتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے محبوب کائنات کو مبعوث فرما کر جہالت کی بستیوں میں علم کی شمع روشن فرمائی ،مشرکین مکہ نے اس خوشبوکو ختم کرنے کی بے سود کوشش کی جسے اللہ تعالیٰ نے ناکام بنادیا پھر وہ زمانہ آیا جس کی شہادت رسول رحمت ؐ نے فرمائی تھی کہ ایک خاتون تنہا اونٹنی پر سوار ہوکر صنعاء یمن سے شام تک کا سفر کرے گی۔

اسلا م نے اپنے پیرکارو ں کے لیے قاعدہ مقرر کردیا ہے کہ ایک شخص کی غلطی کا بوجھ اور اس کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جاسکتی ، قرآن نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا ہے،وہ اسباب جو دہشت گردی اورانتہاپسندی کا باعث بنتے ہیں ایسے اسباب پر دستور وضع کیا تاکہ انتہاپسندی اورنفرت معاشرے میں پروان نہ چڑھ سکے جیسے اللہ نے کسی دوسرے مذہب پر تنقید کرنے سے منع کیا کیونکہ اس سے مذہبی منافرت پروان چڑھنے کے اسباب موجود تھے سورہ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے کسی دوسرے مذہب کے بارے منفی بات کہنے سے منع کردیا منع اس لیے کیا گیا کہ کوئی گروہ دوسروں کے مذہبی مقتدا اور پیشواؤں کو برا بھلا کہے گا تو وہ اس کے پیشوا کوبرا بھلا کہے گا جو نفرت کا باعث بنے گا،یعنی اسلام تو کسی دوسرے مذہب کے خلاف بری بات کرنے سے بھی منع کرتا ہے تو اسلام کا پیروکار قاتل کیسے ہوسکتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور اللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایاتمہارے خون، اموال اور عزتیں ایک دوسرے پر حرام ہیں۔

جواب چھوڑ دیں