ضعیف العمر محنت کشوں کو پنشن کی ادائیگی کا ادارہ ، ای او بی آئی1976 ء میں وجود میں آیا جوکہ پیپلز پارٹی کے بانی اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس نظریے کے تحت قائم کیا تھا کہ سرکاری ملازمین کی طرح نجی اداروں کے ملازمین خصوصاً مزدور طبقہ جب عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے ملازمت سے فارغ کردیا جائے تو ا نہیں بھی گزر اوقات کے لیے پنشن کی سہولت حاصل ہو، اور محنت کشوں کو ضعیف العمری میں گزر بسر کیلئے ریلیف فراہم ہوسکے۔ اس ادارے کا نام ’’ ایمپلائز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن‘‘ یعنی ای او بی آئی رکھا گیا۔ جس کے تحت ’’ وہ ادارے جہاں پانچ یا پانچ سے زائد ملازم ہوں گے وہ اپنے ملازمین کو EOBI میں رجسٹرڈ کرانے کے پابند ہوں گے۔ کارخانے اور صنعتکار، رجسٹرڈ ملازمین کی تنخواہ سے کٹوتی کا معین حصہ اپنے ملازمین کے مستقبل کے تحفظ کے لیے EOBI میں جمع کروانے کے پابند ہوں گے ۔ حکومت بھی اسی تناسب سے اپنے حصے کی رقم جمع کروائے گی۔ اور اس جمع شدہ رقم سے سرمایہ کاری کی جائے گی جس سے ریٹائرڈ ملازمین کو پنشن ادا کی جایا کرے گی‘‘۔ جبکہ بہت سے محنت کش اس ادارے کی اہمیت و افادیت سے آگاہ ہی نہیں ہیں اور بہت سے اداروں اور کارخانوں نے محنت کشوں کو EOBI میں رجسٹرڈ ہی نہیں کروا رکھا ۔ اس کے علاوہ گزشتہ کچھ عرصے سے EOBI کے ادارے سے مستفید ہونے والے افراد تک وہ فوائد نہیں پہنچ پا رہے جس کے لیے یہ ادارہ قائم کیا گیا تھا اور جس کے ضعیف العمر محنت کش حقدار ہیں۔
2019ء میں ہی ادارے کے ڈائریکٹر جنرل آپریشن کے دستخط سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق بورڈ آف ٹرسٹیز نے ای او بی آئی ایکٹ 1976 ء کو مدنظر رکھتے ہوئے پنشنرز کے لیے نئی پالیسی اور گائیڈ لائن کی منظوری دی گئی ہے اس پالیسی کے تحت ادارہ رجسٹرڈ ملازمین کو جو سہولیات دے گا اس میں اولڈ ایج پنشن، لواحقین پنشن، اسٹیٹ پنشن، ان ویلیڈیٹی پنشن اور اولڈ ایج گرانٹ شامل ہیں۔ پنشن حاصل کرنے کیلئے عمر کی حد60 برس برائے مرد حضرات اور 55 برس برائے خواتین مختص ہوگی۔ جو مرد حضرات کان کنی کے شعبے سے منسلک ہیں ان کی عمر حد 55 برس مقرر کی گئی ہے مگر شرط یہ ہے کہ وہ اس شعبے سے پنشن حاصل کرنے کی عمر پر 10 برس سے منسلک ہوں۔ وہ ملازمین جوکہ1986 ء میں رجسٹرڈ ہوئے ہوں ان کی حد عمر برائے مرد 55 برس اور خواتین کی 50 برس ہے ۔ ملازمین جنہوں نے 40 برس کے بعد ای او بی آئی جوائن کیا ہے ان کے لیے علیحدہ اصول ہوں گے ۔ مرحوم ملازمین کے لواحقین کے لیے بھی اصول ترتیب دیئے گئے ہیں۔ نئے پنشن کیسز سرکلر نمبر3/2017 کے مطابق ڈیل کیے جائیں گے ۔ فی الوقت ملک بھر کے 1 لاکھ 22 ہزار205 ادارے ای اوبی آئی میں رجسٹرڈ ہیں اور ان اداروں کے 8لاکھ3 ہزار سے زائد ملازمین بھی رجسٹرڈ ہیں جبکہ ای اوبی آئی سے پینشن حاصل کرنے والوں کی مجموعی تعداد6 لاکھ5 ہزار736 تک پہنچ گئی ہے۔ جن میں 4 لاکھ1 ہزار135 عمر رسیدہ،1 لاکھ94 ہزار145 پسماندگان اور10 ہزار456 معذور پنشنرز شامل ہیں۔ ان میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جن کی گزر بسر کا مکمل انحصار اسی پنشن پر ہوتا ہے ۔ یہاں واضح رہے کہ ای او بی آئی کی کی پنشن قومی خزانہ پر بوجھ نہیں کیونکہ صنعتی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین اور کارخانہ داران پہلے ہی اس پنشن فنڈ میں مطلوبہ رقم فراہم کر چکے ہوتے ہیں۔
سال 2019 ء میں ای او بی آئی پنشن میں 20 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس سے پنشن کی رقم 5250 روپے سے بڑھ کر محض 6500 روپے ماہانہ ہوگئی ہے مگر ضعیف العمر محنت کشوں کی ضرورت کو پورا کرنے میں ناکافی ہے ۔
ای اوبی آئی کو وقت کے ساتھ مختلف چیلنجز کاسامنا ہے جس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے باعث کم ازکم اجرتوں کا تنازع سرفہرست ہے جس کے باعث آجران رائج کم ازکم15000 روپے اجرت کے برعکس سال 2008 ء کی کم ازکم 8 ہزار روپے ماہانہ اجرت کی بنیاد پر ای اوبی آئی کنٹری بیوشن جمع کرارہے ہیں، جبکہ حکومت نے 1995 ء سے اپنے حصے کی ادائیگی بھی بند کر رکھی ہے اور کنٹری بیوشن کی وصولیوں میں عدم توازن کی وجہ سے ای اوبی آئی کا پنشن فنڈ بتدریج تنزلی کا شکار ہے ۔ سال 2014 ء سے ای اوبی آئی کو آجروں سے کنٹری بیوشن کی مد میں ماہانہ وصولیاں 55 فیصد گھٹ کرتقریباً 1 ارب روپے رہ گئی ہیں جبکہ ادارہ اپنے پنشنرز کو ماہانہ 2 ارب20 کروڑ روپے کی باقاعدگی کے ساتھ ادائیگیاں کررہا ہے ، اس طرح سے ای اوبی آئی ماہانہ تقریباً1 ارب 20تا 25 کروڑروپے اپنی سرمایہ کاری سے نکال کر پنشنروں کو ادا کررہا ہے ۔ جبکہ عمر رسیدہ افراد6500 روپے میں کیسے گزارہ کرسکتے ہیں، اس رقم سے تو ان کی دواؤں کا خرچہ بھی پورا نہیں ہوسکتا۔ان حالات میں ضروری ہے کہ حکومت ضعیف العمر محنت کشوں کی مجبوری و بے کسی کا خیال کرتے ہوئے ای او بی آئی فنڈ میں حکومتی حصے کی ادائیگی یقینی بنائے اور محنت کشوں کی پنشن میں معقول اضافہ کیا جائے ۔
Dear jasarat.com Webmaster, very same listed here: Link Text