لاتوں کے بھوت۔۔۔۔

چند روز قبل ناروے کے جنوبی شہر کرسٹینڈ سینڈ میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن حکیم کو دشمنانِ اسلام کی طرف سے جلانے کی ایک مذموم سازش و کوشش کی گئی جس کے ردعمل میں مجمع سے ایک مسلمان شخص عمر دھابہ نے اپنی جراٗت جہادی وایمانی طاقت سے نہ صرف ناکام بنانے کی جذباتی کوشش کی بلکہ اسلام دشمن کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے زدوکوب کی بھی بھرپور سعی کی،جس میں عمر دھابہ بلاشبہ کامیاب ہو جاتا اگر موقع پر موجودد پولیس اہلکار اسے پکڑ کر جیل نہ لے جاتے۔تاہم اس ویڈیو نے عالم اسلام اور مسلم امہ کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ سارا واقعہ SIAN(stop islamisation of norvey) کے اساسی رکن اور راہنما آرنے تھومیر کے ایما پر عمل میں آیا۔

سیان تنظیم کا پس منظر کچھ اس طرح سے ہے کہ یہ دراصل چند شرارتی لوگوں کے ذہنی انتشار کی پیداوار ہے جس کا آغاز 2000میں اس وقت ہوا جب ناروے میں چند غیر مسلم نوجوانوں نے ناروے کی مساجد میںا اسپیکر میں اذان دینے کے خلاف مظاہرے کئے کہ مسلمانوں کو مساجد میں بذریعہ لائوڈا سپیکر اذان دینے پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔اس مذموم ارادے کو مظاہروں تک ہی محدود نہیں رکھا گیا بلکہ پارلیمنٹ کے ایک رکن کارل ہیگن نے پراگریس پارٹی کی جانب سے ایک بل بھی پیش کیا جس میں اس بات کا کھلم کھلا اظہار کیا گیا کہ مسلمانوں کو لائوڈا سپیکر میں اذان دینے سے اجتناب برتنے پر مجبور کیا جائے۔ تاہم پارلیمنٹ میں ہی اس بل کے خلاف ووٹنگ کی اکثریت سے انہیں منہ کی کھانا پڑی ۔2004 میں مسلمانوں کے خلاف اس تحریک کو باقاعدہ ایک تنظیم Forum against islamisation کا نام دیا گیا ،اسی تنظیم نے مستقبل میں یورپ کے کئی ممالک میں جاری انٹی مسلم تحریک کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تنظیم FOMI کا نام تبدیل کر کے2008 میں SIANیعنیstop islamisation of Norvey رکھ دیا،جس کا مقصد ناروے میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد،تہذیب اور تمدن کی مخالفت کے ساتھ ساتھ دنیا کے سامنے مسلمانوں کو بطور دہشت گرد پیش کرنا تھا ۔اسی بات کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے اس تنظیم کے ممبران ایسے گھنائونے واقعات کی تاک میں رہتے ہیں تاکہ وہ دنیا میں یہ ثابت کر سکیں کہ مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہیں۔سیان کی بنیاد آرنے تھومیر نے رکھی جس کی ایما پر حالیہ واقعہ رونما ہوا،اگرچہ اس واقعہ کے محرکات اس طرح سے تھے کہ ناروے میں مسلمانوں کے اجتماع کو کسی طورپر روک کر انتشار میں تبدیل کیا جائے اسی سلسلہ میں آرنے تھومیر شب وروز مختلف اخبارات وجرائد اور ٹی وی چینلز کو انٹرویوز بھی دے رہا تھا ایسے ہی ایک پروگرام میں زرد صحافت کے علمبردار ایک صحافی نے یہ سوال کر ڈالا کہ آپ کس طرح مسلمانوں کے اجتماع کو منتشر کریں گے کیا آپ کے پاس کوئی لائحہ عمل ہے ؟تو اس کے جواب میں آرنے تھومیر نے کہا کہ (نعوذباللہ) مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو جلا کر،اس بیان کے بعد مسلمانوں میں اشتعال انگیزی اور جذباتیت کا اظہار فطری عمل تھا،اپنے مذہب اسلام سے عقیدت کی انتہا بھی یہی ہے کہ مسلمان کسی طور اپنے مذہب کی ہرزہ سرائی قابل قبول نہ ہو۔

ہوا یوں کہ آرنے تھومیر قرآن پاک کی ایک کاپی بار بی ڈال کے اوپر رکھ کر لایا تھا جسے پولیس کے اہلکاروں نے فوراً پکڑ کر اپنی تحویل میں لے لیا،اسی دوران تنظیم کے ایک اور شخص جس کی ویڈیو وائرل ہوئی جس کانام لارس تھورسن ہے نے اپنی جیب سے قرآن کی ایک اور کاپی نکال کر اسے نذرِ آتش کر دیا۔ایسی صورت حال میں کون کم بخت جذبہ ایمانی سے سرشار مسلمان برداشت کر سکتا تھا۔لہذا مجمع سے ایک شخص الیاس دھابہ کی غیرت ایمانی نے جوش مارا اور پولیس کی طرف سے عائد رکاوٹوں کو شیر کی سی جست لگاتے ہوئے اس گیدڑ کو دھاڑتے ہوئے چیتے کی سی پھرتی سے لاتوں کے وار سے مارگرانے کے بھر پور کوشش کی۔ردعمل میں موقع پر موجود پولیس نے عمر دھابہ اور لارس تھورسن کو گرفتار کر کے پابند سلاسل کردیا۔

یہ تو تھی سیان اور حالیہ واقعہ کی تفصیل مگر اب بات کرتے ہیں مختلف طبقہ ہائے فکر کے نظریات،خیالات اور ردعمل کی،کچھ حلقوں کا کہنا ہے ،خاص کر وہ طبقہ فکر جو ناروے میں اس سارے واقعات کے چشم دید گواہ ہیں اور اپنے آپ کو ناروے آئین اور قانون کے پابند خیال کرتے ہیں،ان کا کہنا یہ ہے کہ چونکہ پولیس اور حکومت کو اس سارے واقعہ کے پس منظر کا پہلے سے علم تھا کہ سیان کے نمائندے مسلمانوں کی مقدس کتاب کو جلانے کی کوشش کریں گے لہذا حکومت وقت نے ان کو اس قبیح عمل سے روکنے کے لئے پہلے سے اقدامات کر رکھے تھے،لہذا مسلمانوں کو جذباتیت کا مظاہرہ کرنے کی بجائے ناروے کے قوانین اور آئین کی پاسداری کرتے ہوئے اسے پولیس اور حکومت پر چھوڑ دینا چاہئے تھا۔دوسری بات یہ کہ چونکہ تنظیم کا مقصد ہی مسلمانوں کو دہشت گرد ثابت کرنا تھا لہذا عمر دھابہ کا ردعمل انہیں سچ ثابت کرنے کا باعث بن سکتا ہے کہ واقعی مسلمان ایک دہشت گرد قوم ہیں۔جس کا ثبوت عمر کا ردعمل ہے۔ایسی ذہنیت کے متحمل افراد کا یہ بھی خیال ہے کہ SIAN اس سلسلہ میں کامیاب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

لیکن بحثیت مسلمان میرا خیال یہ ہے کہ کبھی کبھار آئین و قوانین کو پسِ پشت ڈال کر غیرت ِ ایمانی پر عمل پیرائی ایمان کامل کا حصہ ہوتا ہے۔خاص کر ان دو مواقع پر جب ناموس رسالتﷺ کی بات ہو ،دوسرا جب آپ ﷺ پر نازل کردہ مقدس کتاب کی بے حرمتی کا کوئی بھی کہیں بھی گھنائونا واقعہ پیش آرہا ہو۔کیونکہ میرے خیال میں دلائل کمزور ہو سکتے ہیں،آئین وقت کی ضرورت اور حکومتی مفاد کے لئے تبدیل کئے جا سکتے ہیں۔دلائل کی بنا پر کی جانے والی بحث آپ کے خلاف جا سکتی ہے،قانون کی دھجیاں اڑائی جا سکتی ہیں،لیکن مسلمانوں کا ایمان کمزور نہیں پڑنا چاہئے اس لئے کہ میری دانست میں غیرتِ مسلمانی دراصل عشق مصطفی اور قرآن سے محبت کا دوسرا نام ہے۔لہذا ان دو واقعات کے ردعمل میں مسلمانوں کو کبھی کمزور ی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے،عمر دھابہ کی طرح تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے لارس تھورسن جیسے شیطانوں کو سبق سکھانا ضروری سمجھنا چاہئے،کیونکہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے وہ صرف لاتوں سے ہی مانتے ہیں۔

حصہ
mm
مراد علی شاہد کا بنیادی تعلق کمالیہ پنجاب سے ہے ،تاہم بسلسلہ روزگار عرصہ بیس سال سے دوحہ قطر میں مقیم ہیں ،اور ایک پاکستانی تعلیمی ادارے میں بطور ہیڈ آف سوشل اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ میں فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ۔سنجیدہ موضوعات کے ساتھ ساتھ طنز و مزاح پر لکھنا پسندیدہ موضوع ہے ۔ان کی طنزومزاح پر مشتمل مضامین کی کتاب "کھٹے میٹھے کالم"منصہ شہود پر آ چکی ہے۔دوسری کتاب"میری مراد"زیرطبع ہے۔قطر کی معروف ادبی تنظیم پاکستان ایسوسی ایشن قطر میں بحیثیت جنرل سیکرٹری اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں ۔

جواب چھوڑ دیں