کرہ ارض پر چار سو تبدیلی کی خبریں گردش کررہی ہیں ۔دنیا میں اس وقت قریبا 62987315افراد انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں ۔حکمران عامتہ الناس کے اعتماد پر پورا نہیں اترپارہے ۔اس کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ۔فرض کریں کرپشن ،بین الاقوامی مالیاتی نظام ،ڈالر کی اجارہ داری ،کپٹیل ازم ،آبادی ،جہالت ،اور وسائل کا تلاش نہ کرنا یہ اپنے وسائل کا ضیاع ہوسکتا ہے۔دانشور،محققین ،صاحب بصیرت ارباب علم ودانش بخوبی جانتے ہیں کہ پاکستان سے لے کر یورپ تک امریکہ سے لے کر بھارت تک تبدیلی کے نعرے ہرطرف بلند ہورہے ہیں۔
مسلسل جنگوںاوربھوک وافلاس نے بین الاقوامی منظر نامہ تبدیل کردیا ہے۔کل کے امیر اورخو د کفیل ممالک آج انتہائی غربت اوربنیادی ڈھانچے سے محروم ہونے کے قریب ہیں۔وہ بھا رت جو جی فائیو میں شمولیت کے خواب دیکھ رہا تھا، وہ نریندر مودی حکومت کے انتہاپسندانہ اقدامات کی بدولت اپنی معاشی نمو تیزی کے ساتھ کمزور کررہا ہے۔چین میں مسلمانوں کے خلاف اقدامات ،ہانک کانگ میں مظاہرے، اردن،چلی،عراق،ایران میں ظاہری اوربھارت میں خاموش احتجاج کسی بڑی چنگاری کے منتظرہیں۔
انقلاب کی تاریخ یہ ہے کہ جب معاشرہ اپنے غلط نظریات کے باعث کسی بند گلی میں پہنچ جاتا ہے تو انقلاب ناگزیر ہو جاتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ مسائل حل کرے گا یا نہیں۔ لیکن وہ اسٹیٹس کوکو ضرور توڑ دیتا ہے۔ جس سے ایک افراتفری جنم لیتی ہے۔ اس افراتفری کے بطن سے مزید افراتفری کے بجائے کچھ اچھا نکل آئے۔۔۔ اس کے لیے ایک اور انقلاب کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ انقلاب اس خواب سے بہت مختلف ہوتا ہے جس کا سٹیٹس کو توڑنے والوں نے خواب دیکھا ہوتا ہے۔ آخر کار یہ انقلاب کس کروٹ بیٹھے گا اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ کیا انقلابی ارسطو صحیح معنوں میں تبدیلی لا پائیں گے۔
پاکستان میں آج ہمیں آزادی ہے کہ ہم اس گلے سڑے نظام کو چیلنج کر سکتے ہیں۔ بادشاہ کو جتنی چاہیں گالیاں دے سکتے ہیں۔ کچھ سال بعد ووٹ کے ذریعے اٹھا کر پرے پھینک سکتے ہیں۔ یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ تمام عرب ریاستیں اس کے دسویں حصہ کا انقلاب بھی کئی دہائیوں اور ہزاروں لاشے گرانے کے بعد بھی حاصل نہیں کر سکیں۔ اور مستقبل قریب میں بھی کوئی چانس نظر نہیں آ رہا۔ لیکن پاکستان میں یہ بات اب طے ہے کہ جو پرفارم نہیں کرے گا وہ اگلا الیکشن بری طرح ہار جائے گا۔ترقی وخوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ نظام کو چلنے دیا جائے ۔البتہ موجودہ نظام سے فرسودہ باقیات کو نکالا جاسکتا ہے۔جسے پولیس کے نظام کا ازسرنوجائزہ لے کر عوامی اصلاحی معاشرتی پولیس کا نظام بنایا جاسکتا ہے۔
عدالتی نظام جس میں کئی سالوں تک مقدمات چلتے ہیں ۔فیصلے پسند ناپسند کی بنیاد پر ہوتے رہے ہیں ،مقدمات کو التوا میں جان بوجھ کرڈالا جاتاہے ۔تفتیش وتحقیق کانظام بہترنہیں ہے ۔ہزاروں بے گناہ افراد جیلوں میں مقید ہیں ۔ہزاروں جعل ساز ،لٹیرے ڈاکو کھلے عام دندانتے پھر رہے ہیں ۔غریب غریب ترہورہا ہے امیرامیر تر ہوتا جارہا ہے۔ادارے کمزور ہیں یا بہت طاقتور ،اعتدال کا فقدان ہے۔
عامتہ الناس نے عمران خان حکومت سے بہت امیدیں وابستہ کیں مگر افسوس خان صاحب نے نااہلوں کا سارا ٹولہ تبدیلی کے ٹانگے میں سوار کرلیا ۔چودہ ماہ گزرنے کے باوجود کرپشن کرپشن کا راگ الاپنے والے عوام کو اپنی کارکردگی دکھانے کے قابل نہیں ہیں ۔قوم کے سامنے تبدیلی سازوں کی منصوبہ بندی کا پول کھل گیاہے۔پچاس لاکھ گھرتعمیرکرنے والوں نے ہزاروں وطن پرستوں کے سروں سے چھتیں چھین لی ہیں یہ قائداعظم کے سپوت بے یارومددگار موسم اورحالات کے رحم وکرم پر ہیں۔کسی چور کو ریلیف نہیں دیں گے والے فارمولے کی کڑیاں کھلناشروع ہوچکی ہیں ۔اپوزیشن کا جنترمنتر تبدیلی کی میٹھی دیگ میں سوراخ کرچکا ہے ۔مولانا فضل الرحمان کی مسکراہٹ اورچوہدری برادران کی پریس کانفرنسیں کل کا منظرنامہ بیان کررہی ہیں۔
وزیراعظم کی دو چھٹیاں بعدازاں ہزارہ موٹروے کے افتتاحی تقریب میں خطاب سے کنٹینر کی خوشبوآرہی تھی ۔وزیراعظم عدالت عالیہ سے قانون سب کے لیے ایک کا مطالبہ اورعدلیہ اپنا قبلہ درست کرنے کا مشورہ دے رہی ہے ۔تبدیلی ۔۔۔تبدیلی ۔۔۔تبدیلی ۔۔میں تبدیلی کی طر ف ریاست جانے کو تیارہے ۔یہ بہت عمدہ شگون ہے کہ ریاست نے دھرنوں ،مظاہروں ،احتجاج کو منصوبہ بندی کے ساتھ واپس موڑ دیا،اگر بروقت اقدامات کر لیے جائیں توریاست کوبڑے نقصان سے بجایا جاسکتا ہے۔مگر جب کاندھوں پر آن پڑتی ہے توریاست سپاہی کی طرح بیدار ہوجاتی ہے جیسے ہی حالات بہترہوتے ہیں ہم سب بھول جاتے ہیں۔پی ٹی آئی موجودہ پاکستا ن کو جس میں سب کچھ سابقہ ہے حتی کہ وزیران ومشیران تک سابقہ ہیں کو نیا پاکستان کہا جارہا ہے۔تبدیلی حقیقی معنوں میں کہیں بھی نہیں آئی ہے چہرے تبدیل ہوئے ہیں ۔اندازے اورتخمینے وہی کے وہی ہیں ۔
یورپ ،امریکہ برطانیہ کو ترقی اورخوشحالی کا زینہ سمجھا جاتا ہے ۔رول ماڈل کہنا درست ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان مغرب کی تماثیل دیتے نہیں تھکتے ۔مغربی ممالک میں ادارے مضبوط ہیں بدقسمتی معاشرہ بے حسی اور اعلیٰ معاشرتی اقدار زوال کا شکار ہوچکی ہیں ،خاندانی نظام تباہ ہوچکا ،رشتوں کا تقدس ماضی کا قصہ بن چکا ،جنسی ہوس نے عزت نفس کوتار تار کردیا ہے۔صنف نازک صرف مارکیٹ ،کاروبار،مصنوعات کا زیور ہے۔مذہب کی جگہ فلسفیانہ افکار نے لے لی ہے۔
بعض الناس جن کا خیال ہے کہ پاکستان میں حقیقی تبدیلی آگئی ہے ۔موجودہ تبدیلی کو حقیقی تبدیلی قرار دینا گوبر کو ساگ تصورکرنے کے مانند ہے۔تاریخ کے طالب علم سے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ماضی میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ اس بنیاد پر تھیں ماضی میں بھی تحریکیں چلتی رہیں، حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں، مارشل لاء لگتے رہے اَور یہ سب تبدیلی کے نام پر ہوا۔ وقت گزرا تو پتہ چلا کہ یہ تبدیلی نہیں تھی بلکہ ہم امریکہ کی سازشوں اور منصوبوں کا آلہ کار بنے۔ اب تبدیلی کے ساگ سے گھٹاس سب محسوس کررہے ہیں۔
حقیقی تبدیلی کے لیے بنیادی ورک ضروری ہے۔موجودہ معروضی حالات کے تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہ الزام تراشی، دشنام طرازی اور دھمکیوں کے کلچر کو ختم کرنا ہو گا۔ اپنے رویوں میں سلیقہ مندی، شائستگی اور نرم خوئی لانی ہوگی۔ خود احتسابی کو فروغ دینا ہوگا۔ دوسروں کے نقطہ ء نظر کو اہمیت دینی ہوگی۔ قومی شعور اَور قومی سوچ کو فروغ دینا ہوگا اور اس کے ساتھ ریاستی اور حکومتی اِداروں اَور نظام کو مستحکم کرنا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں ضروری قانون سازی کرنی پڑے تو اِس پر بھی ضرور عمل کیا جائے ۔اس کے ساتھ تعلیم ،قومی سوچ اور راست فکر کو بھی فوقیت دینی ہوگی۔
تبدیلی لانے کے لیے زمینی حقائق کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا ۔یہاں یہ کہنا کہ سود کے خاتمے کے لیے دیگر لوگوں کوبھی دیکھا جائے گاانتہائی معیوب بات ہے۔ کیا فرانس نے حجاب پر پابندی لگانے کے لیے دیگر لوگوں کو دیکھا تھا؟ جب امریکہ پابندیاں لگاتا ہے توکیا دیگر مذاہب کودیکھتا ہے؟ فیصلے ریاست اورریاست میں رہنے والوں کے مزاج کے مطابق ہوں گے ۔یہ تونہیں ہوگا کہ کسی ملک کے 0.5فیصد لوگ ہم جنسی پرستی کو جائز سمجھتے ہوں اور99.5لوگ ہم جنسی کو حرام تسلیم کرتے ہوں تو کورٹ کہے کے 0.5فیصد لوگوں کے افکار کاخیال رکھا جائے گامناسب بیانیہ نہیں ہے ۔ وطن عزیز میں حقیقی انقلاب اورتبدیلی اسلامی روایات کے تحفظ اورفروغ کے ذریعے ہی آسکتی ہے ۔